جناب وزیر اعظم! خودداری کا تقاضا ہے کہ عہدہ چھوڑ دیں


ملکی میڈیا، تجزیہ نگار اور ماہرین کابینہ میں بھارت سے تجارت کھولنے کے لئے اقصادی رابطہ کمیٹی کی تجویز مسترد کرنے پر سر کھپا رہے ہیں اور جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ای سی سی جیسے ادارے میں وزیر اعظم کے دستخط سے زیر غور آنے والی سمری پر کیا گیا فیصلہ کابینہ کے اجلاس میں اسی وزیر اعظم کی ہدایت پر مسترد کردیا گیا۔ البتہ عمران خان دنیا کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں کہ ان کے پاس ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے سنہری طریقے ہیں، کوئی چاہے تو اس کی مدد کرسکتے ہیں۔

وزیر اعظم نے ایک ٹوئٹ میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس بات کو لے کر ہنگامہ بپا کیا گیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ماحولیات پر بات کرنے کے لئے 40 ملکوں کے سربراہان کو ایک کانفرنس میں مدعو کیا ہے۔ پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونے والے ممالک میں سر فہرست ہے لیکن پاکستانی وزیر اعظم کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں ملی۔ حالانکہ بنگلہ دیش اور بھارت کے وزیر اعظم اس میں شریک ہوں گے۔ اسی طرح ماحولیات پر امریکی ایلچی جان کیری بات چیت کے لئے متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش اور بھارت کا دورہ کریں گے۔ اس دورہ میں بھی پاکستان کو شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اب عمران خان نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں اس حوالے سے اٹھنے والے سوالات کو بے مقصد واویلا قرار دیا ہے۔ اہل پاکستان کو بتایا ہے کہ ان کی حکومت ملک سے ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے اعلیٰ منصوبوں پر عمل کررہی ہے۔ دنیا کا کوئی دوسرا ملک بھی اگر ہم سے سیکھنا چاہے تو ہم اسے اپنے کامیاب تجربات کی روشنی میں بتا سکتے ہیں کہ اس مسئلہ سے کیسے نمٹنا ہے۔

عمران خان کے ٹوئٹ سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: ایک یہ کہ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ انہیں ماحولیات کے حوالے سے کسی مشاورت میں شامل نہیں کیا جاتا کیوں کہ پاکستانی حکومت کا اپنا تجربہ اور علم دوسروں کو سکھانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ صدر بائیڈن نے عمران خان کو اگر ماحولیاتی سربراہی کانفرنس میں مدعو نہیں کیا تو گویا انہوں نے خود اپنا اور دنیا کا ہی نقصان کیا ہے۔ اگر عمران خان کو شرکت کی دعوت دی جاتی تو وہ شرکا کو قیمتی سنہرے مشورے دے سکتے تھے۔ دوسرے اس ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے اہل وطن کو پیغام دیا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے معاملات کو قومی غیرت کا سوال بنا کر اس پر شور و غوغا شروع نہ کیا کریں کیوں کہ ملک میں ایک مؤثر اور کامیاب حکومت برسر اقتدار ہے ۔ وہ کسی کانفرنس میں شرکت اور اور دورے کی محتاج نہیں ہے۔ بلکہ عوام کے مسائل حل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

وزیر اعظم کی ٹوئٹ کے اس پیغام کو تسلیم کرنے میں البتہ یہ قباحت ہے کہ نہ تو دنیا ماحولیات کو بہتر بنانے کے لئے پاکستان یا عمران خان کی صلاحیت کو مانتی ہے اور نہ ہی ملکی عوام کو اس کا فائدہ پہنچنا شروع ہؤا ہے۔ اس بحث کا یہ پہلو بھی بے حد اہم ہے کہ ماحولیاتی آلودگی ایک عالمگیر مسئلہ ہے جسے مل جل کر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ہمسایہ ملک میں رونما ہونے والے عوامل پاکستان میں سموگ یا فضائی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں تو اس کے لئے پاکستان تن تنہا کچھ نہیں کرسکتا۔ اسے یا تو اس ملک کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرنا پڑے گی یا پھر دنیا کے دیگر ممالک اور عالمی فورمز کے تعاون سے ایسے حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی جن سے مسئلہ کو حل کرنے میں مدد مل سکے۔ اسی لئے ماحولیات کے سوال پر کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور مختلف ممالک کے لیڈر ایک دوسرے سے بطور خاص اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

پاکستان بوجوہ ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے۔ ماحولیاتی مسائل کی ساری ذمہ داری پاکستان پر عائد نہیں ہوتی بلکہ ہمسایہ ملک بھارت کی صنعتوں اور زرعی سرگرمی سے پیدا ہونے والی کثافت بھی پاکستانی آب و ہوا اور انسانی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ اس مسئلہ کی وجہ سے ملکی معیشت کو زیر بار ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلین ٹری سونامی کا نعرہ پاکستان کو بگڑتے ہوئے ماحولیاتی مسائل کے چنگل سے نجات نہیں دلا سکتا اور نہ ہی پاکستان ابتر ماحولیاتی صورت حال کا معاشی لحاظ سے متحمل ہوسکتا ہے۔ اس لئے ملک کو دو بنیادوں پر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ایک تو دنیا میں اپنائے گئے تمام روایتی طریقے اختیار کئے جائیں مثلاً پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنا کر لوگوں کو پرائیویٹ گاڑیاں چلانے سے باز رکھنا، پیٹرول اور ڈیزل کی بجائے بجلی سے چلنے والی کاروں وغیرہ کو متعارف کروانا یا کوئلہ اور ایسے ہی دوسرے ایندھن کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنا۔ پاکستان میں ان میں سے کسی بھی پہلو پر نہ تو کام کیا جارہا ہے اور نہ ہی اس کے لئے ذرائع و وسائل دستیاب ہیں۔ ایسے میں اگر عمران خان کے ’ویژن‘ کے مطابق صرف درخت اگانے پر انحصار ہی تمام مسائل کا حل تسلیم کرلیا جائے تو ملک روز بروز ماحولیات کے اعتبار سے ایسے ممالک میں شامل ہوتا جائے گا جہاں زندگی دو بھر ہو رہی ہے۔

امریکہ کا ماحولیات کے حوالے سے پاکستان کو دو مواقع پر نظر انداز کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ۔ پاکستان، افغانستان میں قیام امن اور طالبان کے ساتھ معاہدہ کروانے میں امریکہ کا داہنا ہاتھ بنا ہؤا ہے۔ شاہ محمود قریشی افغان امن معاہدہ کو اپنی حکومت کی شاندار سفارتی کامیابی قرار دیتے ہیں اور اسے پاکستان کی عالمی تنہائی ختم کرنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ امریکہ میں نئے صدر کے عہدہ سنبھالنے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ واشنگٹن اب پاکستان کی طرف زیادہ توجہ دے گا اور اسے صرف افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنے میں ہتھکنڈے کے طور پر ہی استعمال کرنا کافی نہیں سمجھا جائے گا۔ یہ بات تو طے ہے کہ اس خطے میں امریکہ کی پہلی ترجیح بھارت ہی ہے کیوں کہ سرمایہ کاری اور صنعتی مصنوعات کی منڈی کے علاوہ چین کے خلاف اختیار کی گئی عسکری، معاشی اور سفارتی حکمت عملی میں امریکہ اور بھارت کے مفادات مشترکہ ہیں۔ پاکستان نے امریکہ کو اس خطے میں اپنی اہمیت و ضرورت کے بارے میں مطلع کرنے کا کام بخوبی سرانجام نہیں دیا۔ اسی لئے کسی بھی معاملہ میں پاکستان کو اہمیت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سفارتی حکمت عملی کی شدید ناکامی ہے جسے صرف دوحہ مذاکرات کے نام پر کامیابی نہیں کہاجاسکتا۔

اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بھی اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔ عمران خان کو کابینہ کی آڑ میں بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنے کے سوال پر جس طرح قلابازی کھانا پڑی ہے، اس سے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کے علاوہ ریاست کے اداروں کے درمیان مواصلت اور ہم آہنگی کے شدید فقدان کا پتہ چلتا ہے۔ ملک کے ممتاز انگریزی روزنامہ ڈان نے اپنے اداریے میں واضح کیا ہے کہ ’ اس سے عمران خان کی قائدانہ صلاحیت کے بارے میں شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں قوم کو بتانا چاہئے کہ اس صورت حال کا کون ذمہ دار ہے اور مستقبل میں ایسی غلطیوں کے تدارک کے لئے کیا اقدام کئے جائیں گے‘ ۔ بدنصیبی سے عمران خان کی حکومت کا کوئی رکن بھی مشکل حالات میں معاملہ فہمی اور زیرکی سے بات کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر سیاسی طور سے بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی ایک مشکل فیصلہ تھا تو عمران خان نے وزیر تجارت کے طور پر اس تجویز پر مشتمل سمری پر دستخط کیوں کئے تھے۔

قومی سلامتی کے مشیر جیسے عہدے پر فائز معید یوسف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسے تحریک انصاف کی کامیابی قرار دیا ہے کہ موجودہ حکومت میں ادارے ’خود مختاری‘ سے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان ایک ہی شخص ہے لیکن اس کے پاس مختلف عہدے ہیں اور ہر پوزیشن میں وہ اس کی ضرورت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ وزیر تجارت کے طور پر انہوں نے بھارت سے درآمد کے معاشی فائدے پر نگاہ رکھی لیکن کابینہ کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے اس معاملہ کے سیاسی پہلو کو پیش نظر رکھا۔ کچھ ایسا ہی مؤقف وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی اختیار کیا۔ باقی وزیروں میں سے کوئی عمران خان کو اس معاملہ سے بے خبر کہتا ہے اور کوئی ای سی سی کو محض مشاورتی ادارہ کہہ کر معاملہ کو ’غیر اہم‘ بتانے کی کوشش کرتا ہے۔

بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ پر چوبیس گھنٹے میں حکومت کے دو متضاد رویوں سے درحقیقت عمران خان کی اتھارٹی مشکوک ہوگئی ہے۔ واضح ہؤا ہے کہ اہم معاملوں پر فیصلے کرنے کا اختیار وزیر اعظم اور حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اسی لئے چوبیس گھنٹے میں ایک ’ناقابل قبول‘ اعلان کو تبدیل کیا گیا اور اب اسے اداروں کی خود مختاری بتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان قیاس آرائیوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت کو اپنا ہی فیصلہ اسٹبلشمنٹ کی مختلف رائے کی وجہ سے تبدیل کرنا پڑا۔ سوال ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے معاونین نے کسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے اس اہم مسئلہ پر ریاست کے دیگر اسٹیک ہولڈرز سے رائے کیوں طلب نہیں کی ۔ اور اگر اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تو عمران خان کا وہ گھمنڈ اور خودداری کیا ہوئی کہ وہی امور حکومت کے نگران ہیں، آرمی چیف ان کے نیچے کام کرتے ہیں۔

عمران خان ٹھنڈے دل سے غور کریں تو انہیں کابینہ کے ذریعے ای سی سی کا فیصلہ تبدیل کرنے کی خفت اسی لئے اٹھانا پڑی تاکہ انہیں بھی نواز شریف کی طرح کسی ڈان لیکس یا پاناما اسکینڈل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس موقع پر کبھی ’ہار نہ ماننے اور کبھی نہ گھبرانے‘ والا عمران خان دکھائی نہیں دیتا۔ نہ ہی وہ عمران خان نظر آتا ہے جو کہتا تھا کہ وزارت عظمی کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں کیوں کہ اس نے بدعنوانی سے مال نہیں بنانا۔ وہ کام نہ کرسکے تو استعفی دے کر گھر چلے جائیں گے۔ جناب وزیر اعظم وقت آگیا ہے کہ اس عہد پر عمل کیا جائے۔ یہی خودداری کا تقاضہ ہے اور اسی طرح بچی کھچی عزت محفوظ رہ سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments