گیلانی ناگزیر نہ نواز شریف!


راوی کہتا ہے بھٹو سے قبل سیاست میں عوام اسٹیک ہولڈر تھے ہی نہیں۔ سیاست اور ریاست کی سہولت اس وقت تک اشرافیہ ہی کے لئے مختص ہوگی جب تک جمہوریت ناگزیر نہ ہو گئی۔ خیر اب جب عوام سیاست کے اسٹیک ہولڈر ہیں، وہ دن دور نہیں جب جمہوریت میں بھی ”مکمل“ اسٹیک ہولڈر ہو جائیں گے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ آگے بڑھیں، آگے بڑھنے کے لئے لازم ہے کہ کسی بھی گیلانی اور ربانی کا موازنہ کیا جائے، کسی بھی سنجرانی اور حیدری کو ماضی و حال کے پلڑوں میں تولا جائے اور یہ کہا جائے کہ نواز شریف اور آصف زرداری سے آگے بڑھ کر ذرا بلاول بھٹو اور مریم نواز پر غور کیا جائے، کہ انہوں نے اپنے والدین سے کیا سیکھا یا انہوں نے انہیں کیا سکھایا؟

تبدیلی کے لئے عمران خان نے کن کن رویوں اور صعوبتوں کو برداشت کیا اور کہاں کہاں کی خاک چھانی؟ پھر آخرکار قسمت کی مہربانی کا راز کیا ٹھہرا؟ کان اس پر بھی دھرنا ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کا راگ اور راگنی کیسی ہے اور ادراک کا منہ کس جانب؟ سیاسیات گواہ ہے کہ اقوام ترقی اس وقت کرتی ہیں جب ان کے چار شعبوں میں مکمل ہم آہنگی ہو : 1۔ معاشیات۔ 2۔ خارجہ امور۔ 3۔ ریسرچ اینڈ ایجوکیشن اور 4۔ پارلیمنٹ۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ کب کب تاریخ پاکستان میں ہمارے کرم فرماؤں نے اس سمیت دیگر اہم امور کی کوآرڈینیشن اینڈ کوآپریشن کو تقویت بخشی؟

ایک غیر سیاسی گزارش اپنی جگہ غورطلب ہے کہ 2013 تا 2018 اسد عمر کی معاشی بازگشت قومی اسمبلی میں راج کرتی تھی حالانکہ پارلیمانی اپوزیشن پیپلز پارٹی تھی اور خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر۔ لیکن بات زمانہ اسد عمر کی سنتا تھا جو پٹرول سستا کرنے اور ڈالر گرانے کے گر بتایا کرتے تھے، یہ وہ پاپولر باتیں تھیں جو سب کے کانوں میں رس گھولتی تھیں۔ پھر دن بدلے اور نصیب بھی، اسد عمر کی پی ٹی آئی سیاسی و غیر سیاسی دوستوں کے سبب سرخرو ہوئی، اسد عمر کرتا دھرتا بنے، معیشت کو ساتویں آسمان پر اٹھانے کا بیڑا اٹھایا، ناکام ہوئے، وزارت سے ہاتھ دھوئے، منظم ہو کر واپس آئے، دیگر ذمہ داریاں بھی ملیں اور دن رات تبدیلی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے تگ و دو کرتے رہے مگر وقت ساتھ ساتھ ثابت کرتا رہا کہ، نہیں، نہیں نہیں!

کوئی ہوم ورک نہیں تھا محض شیریں بیانی اور ریشمی لفاظی کے بل بوتے پر حصول اقتدار کی خاطر پاپولر بات کا روایتی سہارا لیا گیا جو بات ہمیشہ سے تبدیلی کے راستہ کی دیوار رہی ہے۔ حکومت کی الٹی گنگا بہنے لگی کہ تحریک انصاف کے پاس وزیر خزانہ کا بندوبست ہی نہیں۔ یہ قلم دان کبھی وزیر اعظم کے پاس، کبھی عارضی شکل میں ابن میاں اظہر کے ہاتھ میں، تو کبھی پیپلز پارٹی کے پرانے ماہر معاشیات کے پاس (جس کے دادا کا بھی بقول ان کے تعلق بھٹو کے ساتھ تھا) اور اب دو تین روز سے کاوشیں عروج پر ہیں ’پیپلز پارٹی کے سابق وزیرخزانہ و سابق سینیٹر شوکت ترین کو منایا جا رہا ہے کہ، آپ معیشت کو پٹری پر چڑھا دیں۔

اڑتی ہوئی ملی ہے خبر بزم ناز سے کہ شوکت ترین نے کچھ شرائط عائد کی ہیں‘ وہ پوری ہونے پر شرف قبولیت بخشیں گے، سنا ہے وہ بھی تاحال نیب کی زلف کے اسیر ہیں گویا ”رہائی“ چاہتے ہیں (کوئی خوف جہانگیر ترین بھی تو ہو سکتا ہے ) بہرحال شوکت ترین نے واضح کہا ہے، ”معیشت کی سمت کا پتا نہیں۔ کپتان کو مضبوط ہونا پڑے گا۔ ورنہ کشتی آگے نہیں بڑھے گی۔“ آہ! 22 سال ہم کیا کرتے رہے جو کشتی بھنور ہی میں ہے؟ وہ جو معاشی ٹیم تیار کی تھی اس میں آئیوڈین کی کمی رہ گئی یا پولیو کے ٹیکے نہ لگوا سکے؟

اجی ڈر لگنے لگا ہے کہ تبدیلی والوں نے جو بیک گیئر لگا رکھا ہے، آخر تان اس پر نہ ٹوٹ جائے ”جاؤ نی اونہوں موڑ لیاؤ میرے نال گیا جے لڑ کے“ اور اسحاق ڈار کا ترلہ منت کرنا پڑ جائے۔ بات وہی ہے تحقیق سماجیات پر ہی ہوجاتی تو جمہوریت اور معیشت بیساکھیوں کے سہارے پر نہ ہوتی۔ اب تو بجلی کو آگ لگی دیکھ کر دل سے آواز آتی ہے ”شکر ہے راجہ رینٹل تھا مینٹل تو نہ تھا!“ جدید دور میں جس طرح جنیٹیکس اور مالیکیولر بائیالوجی کو الگ، ایسے ہی سوشیالوجی سے کریمنالوجی کو الگ نکال کر جانچا جانے لگا ہے حالیہ چیلنجز پکار رہے ہیں کہ شخصی کرپشن کی الگ اور سیاسی کرپشن کی الگ ریسرچ مقصود ہے علاوہ ازیں ان دونوں کو مالی کرپشن کی کسوٹی پر الگ الگ پرکھنا ہوگا، اگر، جمہوریت کی ہموار شاہراہ مطلوب ہے۔

اب دو تین دن پہلے عجب نہیں ہوا کیا، کہ وزیراعظم نے بطور ”وزیر خزانہ“ منظوری دی کہ کپاس اور چینی بھارت سے درآمد کر لیں مگر اگلے ہی دن کیبنٹ میٹنگ میں مزاری صاحبہ و قریشی صاحب اور شیخ صاحب و اسد صاحب نے اس کی مخالفت کردی اور اگست 2019 میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو سبوتاژ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا یاد آ گیا پس عوام کو یہ نہ لگے کہ ہم فیصلوں میں کمزور ہیں، کشمیر کارڈ زندہ باد۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعظم سے اختلاف کی بنیاد پر درآمد کا فیصلہ بدلا گیا یا اچانک شعور نے انگڑائی لی؟

واضح رہے کہ ‏وزیراعظم نے یکم ستمبر 2018 میں 18 رکنی اقتصادی مشاورتی کونسل بنائی جس میں نیشنل اور انٹرنیشنل ماہرین تھے تاہم وزیر اعظم کے فیصلوں میں اس کونسل کی مشاورت کہیں نظر نہ آئی، اب وزیراعظم ایک اور اقتصادی مشاورتی کونسل بنا رہے ہیں، کیا 5 سال یہی چلے گا؟ رہی یہ بات کہ، گیلانی ناگزیر نہ نواز شریف، مطلب یہ کہ جمہوریت مقدم رہنی چاہیے اور استقامت بھی، پیپلز پارٹی کو ”باپ“ کا محتاج نہیں ہونا چاہیے تھا۔

گیلانی صاحب کے لئے سینیٹ کی اپوزیشن لیڈرشپ کچھ بھی نہیں تھی۔ میاں نواز شریف جمہوریت نازل ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں مگر اعتدال ضروری ہے۔ بہرحال چاہتے نہ چاہتے ہمیں بلاول بھٹو اور مریم نواز ناگزیر لگنے لگے ہیں، بات پھر وہی، کہ بلاول بھٹو اور مریم نواز پر غور کیا جائے، کہ انہوں نے اپنے والدین سے کیا سکھا یا انہوں نے انہیں کیا سکھایا؟، تبدیلی کے بعد تکیہ کریں بھی تو کس پر؟ احساس ہونے لگا ہے کہ جمہوریت اور نئی نسل کا فہم ناگزیر ہے بشرطیکہ بناؤ کے دریچے کھلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments