سوچ کے وائرس کی ویکسین (مکمل کالم)


پہلی مثال: ایک ڈاکٹر صاحب سے میری گفتگو ہوئی، یہ ڈاکٹر بہت قابل ہیں، امریکہ اور برطانیہ کی ڈگریاں اِن کے پاس ہیں، سانس کی بیماریوں اورانتہائی نگہداشت کے امور کے ماہر ہیں، آج کل اِن کے پاس کرونا کے مریضوں کا بہت رش ہوتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ روزانہ کرونا کے بیسیوں مریض دیکھتے ہیں، اَس سے آپ کو کرونا لگنے کا بہت خطرہ ہے تو کیا آپ نے ویکسین لگوا لی ہے ؟ اُن کا جواب میرے لیے بہت حیرت انگیز تھا۔ کہنے لگے ”میں نے ویکسین نہیں لگوائی، میں روسی ویکسین سپوتنک کا انتظار کر رہا ہوں، اُس کی تاثیر چینی ویکسین سے زیادہ ہے۔” میں نے کہا ”ڈاکٹر صاحب، چینی اور بھارتی ویکسین کی تاثیر تقریباً برابر ہے، ہندوستانی وزیر اعظم اور اُن کی کابینہ کے کچھ وزرا نے تو اپنی ویکسین ہی لگوائی ہے۔”اِس پر ڈاکٹر نے جواب دیا ”انڈیا کی بات آپ جانے دیں، وہاں کی کوئی بھی ویکسین آئی میں نہیں لگواؤں گا، اُن سے کوئی بعید نہیں کہ ہم پاکستانیوں کے لیے جعلی ویکسین تیار کرکے بھیج دیں!“ اِس نکتے پر میری اور ڈاکٹر صاحب کی گفتگو ختم ہو گئی۔

دوسری مثال: آج کل اسلام آباد کے ایک آرتھوپیڈک سرجن کا آڈیو کلپ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس میں وہ ڈاکٹر صاحب اپنی روداد سنا رہے ہیں کہ کیسے وہ کرونا ویکسین کا ٹیکہ لگوانے کے بعد اگلے ہی روز کرونا کا شکار ہو گئے اور جب انہوںنے کرونا کے ماہر ڈاکٹر سے اپنا علاج کروایا تو اُس ڈاکٹر نے انوا ع و اقسام کی ادویات دے کر انہیں ادھ موا کر دیا۔ آرتھو پیڈک ڈاکٹر نے بار با ر اپنی کہانی میں یہ الفاظ استعمال کیے کہ مجھے اینٹی بائیوٹک اور دواو ¿ں کے ’زہر‘ نے موت کے منہ میں پہنچا دیا، میرا ایکسرے ٹھیک نہیں تھا اِس لیے ڈاکٹر نے مجھے ہزاروں روپے کے اینٹی وائرل ٹیکے لگائے جبکہ میراا کرونا ٹیسٹ منفی آ چکا تھا، میں کرونا سے نہیں بلکہ دواؤں کے ’زہر‘ سے مرنے کے قریب پہنچ گیا، پھر مجھے کسی اور ڈاکٹر نے تمام دوائیں بند کرنے کا مشورہ دیا، اُس کے بعدسے میری طبیعت سنبھلنی شروع ہوئی اور خدا کا شکر ہے کہ پھر میں ٹھیک ہو گیا۔ یہ اُس گفتگو کا لب لباب ہے جو اُس آرتھوپیڈک سرجن نے کی۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے اسلام آباد کے ایک معروف ڈاکٹر، جو کرونا کے علاج کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، کو خوب لتاڑا کہ انہوں نے بے پناہ دوائیں دے کر اِن سرجن صاحب کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا۔

سب سے پہلے تو ڈاکٹر خواتین و حضرات سے معذرت کہ بظاہریہ کالم اُن کے خلاف ہے لیکن اصل میں کالم کا موضوع سوچ کا وائرس ہے جس کی کوئی ویکسین اب تک نہیں بن سکی اور یہ دونوں مثالیں سوچ کے اسی وائرس کی عکاسی کرتی ہیں۔ اگر یہ سوچ کسی عام آدمی کی ہو کہ میں وہ ویکسین لگواؤں گا جس کی تاثیر بہتر ہے تو اسے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن اگر کوئی پروفیسر آف میڈیسن یہ بات کہے توتشویش کی بات ہے۔ کسی بھی ویکسین کی تاثیرکا حساب مختلف آزمایشی تجربات کے بعد لگایا جاتا ہے۔ یہ تجربات کتنے لوگوں پر کیے گئے، کہاں کیے گئے، اُن کے نتیجے میں کتنے لوگوں کو مرض کی کیا علامات ظاہر ہوئیں، placebo کے مقابلے میں اصل تریاق کا کتنا اثر ہوا، وغیرہ۔

یہ ایک پوری سائنس ہے جس کے بعد کسی بھی ویکسین کی تاثیر کا تناسب بیان کیا جاتا ہے، کسی ویکسین میں یہ 94% بنتا ہے تو کسی میں 70% لیکن آخری تجزیے میں یہ دونوں یکساں طور پر ہی موثر قرار پاتی ہیں کیونکہ ویکسین کا اصل مقصد لوگوں کو مرض کے موذی اثرات سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ کسی کو بھی اسپتال جانے کی ضرورت پیش نہ آئے او ر اِس مقصد میں ہر ویکسین کی افادیت تقریباً سو فیصد ثابت شدہ ہے۔ کسی ’بہتر تاثیر والی ویکسین‘ کے انتظار میں بیٹھے رہنا ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص سمندر میں ڈوب رہا ہو اور اسے کوئی لائف جیکٹ پیش کی جائے اور وہ جواب میں کہے کہ نہیں میں بہتر میعار والی لائف جیکٹ کا انتظار کروںگا۔

اور جہاں تک اِس سوچ کا تعلق ہے کہ انڈیا ہمارے لیے خصوصی طور پر جعلی ویکسین تیار کرکے بھیج سکتا ہے تو ایسی ’دلیل‘ کا کوئی جواب ممکن نہیں کہ یہ سوچ اِس قدر غیر منطقی اور غیر سائنسی ہے کہ سوائے ماتم کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح جن آرتھوپیڈک سرجن صاحب نے اپنا قصہ بیان کیا ہے وہ قصہ اگر کوئی جاہل شخص بیان کرتا تو مجھے بالکل تشویش نہ ہوتی لیکن ایک آرتھوپیڈک سرجن اگر یہ کہے کہ کرونا ویکسین لگوانے کے اگلے ہی روز اسے کرونا ہوگیا تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ وائرولوجی کی اُس بنیادی سائنس سے ہی نا واقف ہے کہ ویکسین کا ٹیکہ فوری طور پر اثر نہیں کرتا بلکہ اسے لگوانے کے بعد جسم میں اینٹی باڈیز بننے میں کچھ ہفتے لگتے ہیں۔ اسی طر ح موصوف نے جس طرح بار بار اپنی گفتگو میں ’دواؤں کے زہر‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اُن سے صاف لگتا ہے کہ وہ اینٹی بائیوٹک اور اینٹی وائرل دواؤں اور ٹیکوں کو ’زہر‘ سمجھتے ہیں۔

مسئلہ دراصل سوچ کا ہے۔ اگر کوئی شخص ڈاکٹر بننے کے بعد بھی ایسی سوچ رکھتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس نے میڈیکل سائنس کو سائنس سمجھ کر نہیں پڑھا بلکہ محض اِس لیے پڑھا کہ اسے بتایا گیا تھا کہ چار سال کا ایم بی بی ایس کورس کرنے کے بعد مستقبل محفوظ ہو جاتاہے۔ گو کہ اِن ڈاکٹروں نے میڈیکل سائنس کی کتابیں پڑھی ہوتی ہیں مگر اِن کی سوچ سائنسی نہیں ہوتی کیونکہ انہوں نے یہ کتابیں سائنسی انداز میں نہیں بلکہ اِس سوچ کے ساتھ پڑھی ہوتی ہیں کہ کسی بھی دوسری ڈگری کی طرح یہ بھی ایک ڈگری ہے جسے حاصل کرنے کے بعد زندگی ’سیٹل‘ ہو جائے گی۔ سوچ کے اِس انداز کو ہم کسی حد تک Bounded Rationalityیعنی محدود عقلیت کہہ سکتے ہیں، یہ تصور نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات ہربرٹ اے سائمن نے پیش کیا تھا۔ جن دو ڈاکٹرز کی میں نے مثال دی یہ اِس تصور پر پورا اترتے ہیں۔

پہلے ڈاکٹر سے اگر کوئی شخص کرونا کا علاج کروائے گا تو ڈاکٹر صاحب اُس کا بہترین علاج کریں گے کیونکہ وہ اپنے کام کے ماہر ہیں اور اِس ضمن میں انہوں نے متعلقہ ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں لیکن مجموعی طور پر اُن کی سوچ سائنسی نہیں اور اسی رویے کو ہم محدود عقلیت کہتے ہیں۔ محدود عقلیت اُس کیفیت کا نام ہے جس میں کوئی شخص ایک مخصوص دائرے میں رہ کر عقلی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے مگر اُس دائرے کے باہر وہی شخص غیر منطقی اور غیر سائنسی انداز میں سوچنے لگتاہے۔ یہ اِس وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان اپنی تمام تر ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتے اور فیصلہ سازی کرتے وقت نہ صرف اُن کے پاس معلومات کی کمی ہوتی ہے بلکہ تمام ممکنہ عوامل کے نتائج کی پڑتال کی اہلیت بھی نہیں ہوتی۔

ایک پروفیسر آف میڈیسن کو یہ علم ہے کہ کرونا کے مریض کو کون سی دوا دینی ہے مگر وہی پروفیسر آف میڈیسن اسی سانس میں یہ بھی کہتا ہے کہ انڈیا والے ہمیں جعلی ویکسین بنا کر دے سکتے ہیں، یہ محدود عقلیت کی مثال ہے۔ یہی حال آڈیو کلپ والے آرتھوپیڈک سرجن کا بھی ہے، اگر کوئی مریض اُن سے اپنی ہڈیوں کا علاج کروائے گا تو شاید وہ اس شافی علاج کریں مگر اِس دائرے سے باہر اُن کی سوچ بھی غیر سائنسی ہے۔ سوچ کے اِس وائرس کی ویکسین کسی ٹیکے کی شکل میں تو موجود نہیں کہ جا کر لگوا لی جائے، اِس وائرس سے نجات پانے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ کسی بھی نظریے کو اپنانے سے پہلے خود سے ایک سوال پوچھیں کہ وہ کون سے عوامل ہوں گے جو اگر سامنے آگئے تو میں اپنا نظریہ غلط مان لوں گا /گی اور پھر اُن عوامل کو فرض کرکے اپنے نظریے کی پڑتال کریں۔ یہ کام کیسے کرنا ہے، اِس کا ذکر پھر کبھی!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments