بے نظیر کے جذبات اور جنرل ضیا کا مشورہ


رہنما ہو یا عام آدمی، سیاستدان ہو یا جج، سرکاری افسر ہو یا پولیس والا اگر جذبات نہ ہوں تو انسان گوشت پوست اور ہڈیوں سے بنے ڈھانچے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جذبات محبت، خوشی، غم یا غصے کی حالت میں انسان کی اصلیت ظاہر کرتے اور شخصیت کی شناخت بھی کراتے ہیں۔ ہر دوسرا شخص جذباتی ہو سکتا ہے مگر کم ہوتے ہیں وہ لوگ جو دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ ہمیں اگر دوسروں کے جذبات اور احساسات کو سمجھنے کا ادراک ہو جائے تو دنیا ہی جنت بن جائے۔ آئین ٹوٹے نہ قانون کیونکہ یہ لوگوں کے اجتماعی جذبات کی روشنی میں پارلیمنٹ کے ذریعے بنائے جاتے ہیں۔

ضیا الحق نے جس طرح 1977 میں آئین کو روندتے اور عوامی جذبات کا قتل عام کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور پھر بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے لیکن یہاں میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی سعید مہدی کی طرف سے سنائے گئے ایک واقعے کا تذکرہ کر رہا ہوں جو کم ہی لوگ جانتے ہیں۔

جب بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا تو ان کی اہلیہ نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کو سہالہ کے ریسٹ ہاؤس میں نظربند رکھا گیا تھا۔ ماں بیٹی کو بھٹو کی تدفین سے قبل اور فوری بعد کی رسومات میں شرکت کی اجازت نہ دی گئی۔ خطرہ یہ تھا کہ دونوں ضیا حکومت کے خلاف کوئی عوامی احتجاج ہی شروع نہ کردیں۔

4 اپریل 1979 کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں بھٹو کی پھانسی کے کم و بیش ایک ماہ بعد ضیا الحق کو نجانے کیا خیال آیا۔ انہوں نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پنڈی سعید مہدی، مقامی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بریگیڈئیر راحت لطیف اور ایس ایس پی راولپنڈی جہانزیب برکی کو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظربند نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے پاس ایک پیغام دے کر بھیجا۔

تینوں افسران جب سہالہ ریسٹ ہاؤس پہنچے تو نصرت بھٹو نے عدت کے باعث ملاقات سے انکار کر دیا۔ اس وقت 24 سالہ بے نظیر بھٹو ریسٹ ہاؤس کے ڈرائنگ روم میں آئیں تو وہ باوردی بریگیڈئیر کو دیکھتے ہی مخاطب ہوئیں اور بولیں، جنرل تم نے میرے باپ کو مار دیا ہے؟ راحت لطیف بولے، میڈم میں جنرل نہیں بریگیڈئیر ہوں، بے نظیر نے کہا اوہ تو کیا تمہیں میرے باپ کو مارنے کے انعام میں جنرل کے عہدے پر پرموٹ نہیں کیا گیا؟

راحت لطیف بولے، نہیں میڈم میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، جب آپ باہر آئیں گی تو آپ کو حقیقت کا خود پتہ چل جائے گا۔ بے نظیر نے راحت لطیف سے مزید گفتگو کرنے سے گریز کیا اور ان کے جواب کو نظر انداز کرتے ہوئے پولیس وردی میں ملبوس ایس ایس پی پنڈی جہانزیب برکی سے مخاطب ہوئیں اور بولیں آپ کا کیا تعارف ہے؟ برکی بولے میڈم میرا نام جہانزیب برکی ہے اور میں ایس ایس پی راولپنڈی ہوں۔ بے نظیر نے ان کا نام سنتے ہی غصے سے کہا، آپ وہی ہیں ناں جس نے میرے والد کو کمرہ عدالت سے کھینچ کر نکالا تھا۔ برکی بولے جی میڈم مجھے چیف جسٹس کا حکم تھا۔ بے نظیر نے پھر سوال کیا، اگر چیف جسٹس آپ کو کہے کہ اپنی پستول نکال کر خود پر فائر کر دیں تو کیا آپ کردیں گے؟ یہ سن کر برکی کی سٹی گم ہو گئی۔ بے نظیر نے اشارہ دیدیا کہ اب وہ ان افسران سے بات نہیں کریں گی۔

دونوں افسران کے بعد اگلی باری سعید مہدی کی تھی۔ بے نظیر کے استفسار پر سعید مہدی نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی ہیں۔ ایک ٹھنڈی سانس کے بعد بے نظیر نے سعید مہدی سے کہا، ڈپٹی کمشنر صاحب اس وقت میرے اور آپ کے درمیان خدا ہے آپ مجھے ایمانداری سے بتائیں کہ کیا میرے والد کو تشدد کر کے ہلاک کیا گیا ہے؟ بھٹو کے حوالے سے ان دنوں یہ بات مشہور تھی کہ انہیں فوجی حکومت نے پھانسی نہیں دی بلکہ تشدد کے ذریعے ہلاک کیا ہے۔ متجسس بے نظیر کا سوال سن کر سعید مہدی بولے، میڈم آپ کے والد کو پھانسی دی گئی ہے۔ بے نظیر یہ سنتے ہی شاید یقین اور عدم یقین کی کیفیت کا شکار ہو گئیں۔

مہدی بولے میڈم حکومت آپ کو بھٹو صاحب کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے لاڑکانہ بھیجنا چاہتی ہے۔ صدر مملکت نے اس مقصد کے لیے اپنا طیارہ دینے کی پیشکش بھی کی ہے۔ بے نظیر بولیں وہ طیارہ ضیا الحق کا نہیں میرے والد کا ہے جو انہیں شاہ فیصل نے تحفے میں دیا تھا۔ بے نظیر نے کہا وہ کہیں نہیں جا رہی ہیں۔ یہ کہہ کر بے نظیر رخصت ہونے لگیں تو سعید مہدی کے دل میں نجانے کیا آئی کہ انہوں نے بے نظیر سے کہا کہ بھٹو ایک عظیم رہنما تھے ان کی وفات پر انہیں خود اور پوری قوم کو بڑا دکھ ہوا۔ مہدی نے کہا کہ وہ بھٹو کی تعزیت کرنا چاہتے ہیں۔ بے نظیر نے مہدی کی طرف دیکھا اور وہ چلی گئیں۔

تینوں افسران واپس اپنے اپنے دفاتر کو چلے گئے۔ اگلے روز سعید مہدی کو آرمی ہاؤس سے پیغام ملا کہ ”جنرل صاحب یاد کر رہے ہیں“ ۔ تھوڑی دیر میں سعید مہدی جنرل ضیا کے سامنے بیٹھے تھے۔ ضیا الحق بولے، مجھے آپ نصرت بھٹو اور بے نظیر کے ساتھ ملاقات کا احوال سنائیں۔ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے ملاقات کی ساری کہانی سنا دی تاہم اس میں بھٹو کی وفات پر اظہار کیے گئے جذبات کا ذکر نہ کیا۔

ضیا الحق نے سعید مہدی کی بات سنی اور کہا کیا آپ نے مجھے ساری کہانی بیان کردی ہے؟ مہدی بولے سر میں نے اپنی یادداشت کے مطابق ساری کہانی بیان کردی ہے۔ اس پر ضیا الحق نے ایک ٹیپ میز پر رکھی اور پلے کا بٹن دبا دیا۔ کمرے میں ٹیپ سے سعید مہدی کی بھٹو کے بارے میں کہے گئے الفاظ کی آواز گونجی اور ساتھ ہی ضیا الحق بولے، کیا یہ آپ کی آواز ہے؟

سعید مہدی پریشان ہو گئے اور بولے جی سر، میں ایک بیٹی کو دیکھ کر جذبات سے مغلوب ہو گیا تھا، سر آپ بھی تو جذباتی ہیں آپ بھی تو انہیں جذبات کے پیش نظر اپنا طیارہ دے رہے تھے۔ ضیا الحق نے سعید مہدی کی طرف دیکھا اور کہا، ”آپ جائیے لیکن آئندہ اپنے سرکاری کام کی انجام دہی میں کبھی جذباتی نہ ہوں“ ۔
ختم شد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments