کورونا شاپنگ کرنے نکلے شہری


شام ساڑھے 4 بجے اپنے آفس کوٹ لکھپت انڈسٹریل ایریا سے نکلا تو ماڈل ٹاؤن لنک روڈ تک تو ٹریفک معمول (معمول سے مراد کہ لاک ڈاؤن سے پہلے والی صورتحال) کا تھا، یاد رہے کہ وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس میں 12 فیصد مثبت شرح والے اضلاع میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کر رکھا ہے۔

بہرحال امتحان ماڈل ٹاؤن لنک روڈ پر شروع ہوا جہاں ٹریفک کی لمبی لائن میری منتظر تھی، صحافی ہونے کے ناتے میرا پہلا اندازہ یہ تھا کہ شاید آگے کوئی مظاہرہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اتنی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں، مگر کوئی ٹائر جلنے کے آثار تھے نہ ہی کوئی نعرے بازی، بمپر ٹو بمپر ٹریفک میں تھوڑا آگے بڑھا تو عقدہ کھلا کہ کوئی احتجاج نہیں ہو رہا ہے بلکہ مارکیٹوں کے بند ہونے کا وقت ہے اور لوگ جلدی جلدی میں گاڑی لنک روڈ پر ہی کھڑی کر کے خریداری میں مصروف ہیں۔

اب صورتحال یہ تھی کہ تین لین والی سڑک کی ایک لین میں مظلوم شوہر یا ڈرائیور حضرات گاڑی لئے موجود تھے اور گاڑیوں میں بچے بھی موجود تھے ، جن کو شوہر حضرات سنبھالنے اور باہر جانے سے روکنے کی کوشش میں الجھے ہوئے لگ رہے تھے، اور خواتین خریداری میں لگی ہوئی تھیں، کسی نے پورا ماسک پہن رکھا تھا تو کسی کا ماسک آدھے منہ پر موجود تھا، کہنے کا مقصد ہے کہ خریداری اور مول تول کے چکر میں کسی کا بھی دھیان اپنے ماسک یا اپنے بچاؤ پر نہیں تھا بلکہ زیادہ سے زیادہ چیزیں خرید کر جانے پر توجہ مرکوز تھی۔

اب اگر تھوڑا سائنسی بنیادوں پر بات کی جائے تو کورونا آپ کو ناک، منہ آنکھوں اور کانوں کے ذریعے شکار کرتا ہے مگر اگر کسی کورونا مثبت نے کسی چیز کو چھوا ہے اور آپ نے بھی وہ چیز چھو لی ہے تو بغیر ہاتھ دھوئے یا سینی ٹائز کیے آپ کورونا کیرئیر بن جانتے ہیں اور یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔ خواتین آ کر انہی ہاتھوں سے بچوں کو بھی اٹھا رہی تھیں بلکہ اپنے شوہر حضرات کو شاپنگ بھی دکھا رہی تھیں اور کیونکہ ہماری یہ بطورمعاشرہ خوش فہمی ہوتی کہ کورونا صرف مارکیٹوں میں موجود تھا، ہماری گاڑیوں اور گھروں میں تو آ ہی نہیں سکتا تو گاڑیوں میں نہ بچوں نے ماسک پہن رکھا تھا اور نہ ہی شوہر حضرات نے۔

اب ایسے میں مجھے وہی محاورہ یاد آ گیا کہ ایک انار سو بیمار، جو خاتون خانہ شاپنگ دکھانے کی خوشی میں ہاتھ دھوئے بغیر بچوں کو اٹھا رہی تھیں وہ خدانخواستہ لاعلمی میں کورونا کے پھیلاؤ کا ہی حصہ بن رہی تھیں، اور جیسا میلہ لگا ہوا تھا وہاں نہ تو کوئی وارڈن موجود تھا جو ٹریفک کی بحالی میں کردار ادا کرتا یا پھر کوئی ضلعی انتظامیہ کا اہلکار جو اس رش میں کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بناتا۔

یہ کہانی تو تھی لاہور کے ایک نسبتاً پرسکون اور کم رش والے علاقے کی، اگر بات کی جائے کریم بلاک، انارکلی، اردو بازار، اندرون کی تو وہاں تو کھوے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ ٹریفک جام میں جھنجھلا کر جب میں نے بولا کہ بھئی یہ لوگ تو کورونا کی شاپنگ کر کے جا رہے ہیں تو مجھے ساتھ والی بائیک پر موجود ایک ادھیڑعمر شخص نے ایسی نظروں سے دیکھا کہ جیسے میرا تعلق کلبھوشن یادیو سے ہے یا پھر آئی ایم ایف کا پاکستان کے لئے نمائندہ میں ہوں اور تھوڑا توقف سے وہ بولے کہ بھیا کون سا کورونا کہاں کا کورونا؟ یہ سب آئی ایم ایف سے امداد لینے کا چکر ہے، اب ہمارے وزیراعظم کو دیکھ لو ، الیکشن کمیشن نے ذاتی حیثٰیت میں بلایا تو کورونا کا ڈرامہ رچا کر بیٹھ گئے، میں نے ٹوکنے کی کوشش کی تو کہتے بھیا سن تو لو، اگر واقعی وزیراعظم کو کورونا تھا تو پھر پانچویں ہی دن کیوں وزراء کو بلا کر بیٹھ گئے؟ہم نے تو سنا تھا کہ کورونا والے کو تو کسی کو پاس نہیں پھٹکنے دیتے اور وہ تو کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔

اب میں اپنی طرف سے صحافی بن کر سب سے باشعور ہونے اور اندر کی خبریں رکھنے کے زعم میں مبتلا جو ان کو ٹوکنے کے چکر میں تھا ، ہکا بکا رہ گیا کہ بھئی بڑی اندر کی معلومات ہیں تو انہوں نے کہا کہ کون سی اندر کی معلومات بھائی! فیس بک، واٹس ایپ گروپوں میں سب آ جاتا ہے آج کل، اور تو اور ان کے بقول ان کی بیگم ان کو وزیراعظم کی تصویر دکھا کر بول رہی تھیں کہ یہ دیکھو ہمارے وزیراعظم کورونا میں سب سے مل رہے تو کوئی کورونا ورونا نہیں ہے۔

اب ایسی صورتحال کو مدنظررکھتے ہوئے میں چاہتے ہوئے بھی انہیں نہ کہہ سکا کہ بھیا نہیں کورونا واقعی ہے اور ٹیسٹ کم ہو رہے ہیں ، ورنہ تو ہمارے ہاں شاید انڈیا سے بھی زائد لوگوں میں نکل آئے۔ اس رش سے نکل کر آیا تو پتہ چلا میرے ہوسٹل کے ساتھ والے بلاک میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگا ہے مگر وہ سمارٹ لاک ڈاؤن ایسا تھا کہ باڑ لگی ہوئی تھی اور جو بائیک پر آتا تھا وہ باڑ اٹھاتا اور یہ جا وہ جا۔

بہرحال میری سب حضرات سے گزارش ہے کہ خدارا کورونا کو سنجیدہ لیں ، اس سے پہلے کہ کورونا آپ کو سنجیدہ لینا شروع کر دے۔ اس وقت زیادہ کیسز کی شرح والے اضلاع میں اگر آپ شاپنگ کے لئے نکل رہے ہیں تو خدانخواستہ آپ عید یا رمضان نہیں بلکہ کورونا شاپنگ کر رہے ہیں۔ اور میری حکومت سے اپیل ہے کہ بجائے پریس ریلیزیں جاری کرنے کے فیلڈ میں نکل کر کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments