چنانچہ نیا سال مبارک ہو…


\"\"

پیش گوئی کرنے میں کیا جاتا ہے۔ پوری ہوگئی تو واہ واہ۔ نہ ہوئی تو ڈھیلے منہ سے کہہ دیا کہ بھئیا یہ کوئی حتمی بات تھوڑا تھی پیش گوئی ہی تو تھی۔مگر بہت سے ماہرینِ معیشت کی طرح کچھ ماہرِ پیش گوئیات پھر بھی اڑے رہتے ہیں کہ اگر فلاں فلاں شے میں فلاں فلاں تبدیلی نہ ہو جاتی تو میرا اندازہ بالکل سچ ثابت ہوتا۔اس سہولت کے سبب میں بھی کچھ پیش گوئیاں کر رہا ہوں۔

سال دو ہزار سولہ جیسے گذرا سال دو ہزار سترہ بھی ویسے ہی گذر جائے گا۔جہاں تک پاکستانی سیاست کا معاملہ ہے تو یہ انتخابی مہم کے انداز میں جس طرح دو ہزار چودہ سے چل رہی ہے اگلے برس اس میں مزید شدت آجائے گی۔عمران خان پانامہ لیکس کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے قابل ِ اعتماد اتحادی تلاش کرتے رہیں گے اور اتحادی ایک مستقل مزاج عمران خان کو۔

بلاول بھٹو زرداری بھلے سال دو ہزار سترہ میں قائدِ حزبِ اختلاف بن جائیں مگر اندازِ تقریر میں محترمہ والدہ صاحبہ جھلکتی رہیں گی ( کم ازکم والدہ صاحبہ نے اپنا تقریری انداز بلاول کے نانا سے الگ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی لیکن بلاول کے تقریری اتالیق ایسی ہر کوشش ناکام بنا دیں گے )۔جب تک بلاول اپنا انفرادی اندازِ خطابت نہیں بناتے تب تک انھیں دیکھ اور سن کر محترمہ شہید کی یاد آتی رہے گی اور بلاول کا اندازِ سیاست بھی والد اور والدہ کے نرم اور گرم لہجے کا قیدی بنا رہے گا۔

جہاں تک قسمت کے دھنی میاں نواز شریف کا معاملہ ہے تو بھلے وہ کچھ کریں کہ نہ کریں۔تاثرات سے عاری سپاٹ سرخ و سفید چہرہ دو ہزار سترہ میں بھی یونہی دمکتا رہے گا اور وہ ’’ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ’’ کا زندہ معجزہ بنے رہیں گے۔ایسی اپوزیشن تو بچہ سقہ کے سامنے بھی ہوتی تو کم ازکم پچاس برس حکمرانی کرتا۔ان حالات میں قوی امید ہے کہ میاں صاحب نہ صرف ڈٹے رہیں گے بلکہ اپنے ہاتھوں چھٹے آرمی چیف کو فیتیاں لگانے کی تمنا بھی پالتے رہیں گے اگر دل نے ساتھ دیا تو…

جہاں تک پانامہ کیس کا معاملہ ہے تو پانامہ بطور ملک تو قائم رہے گا لیکن کیس شو کیس ہو جائے گا اور پھر دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کی ہڑا ہڑی میں داخلِ گودام ہو جائے گا جہاں بیسیوں دیگر اسکینڈلز بھی پڑے پڑے رزقِ زنگ ہو چکے ہیں۔

سدا بہار مولانا فضل الرحمان کا جہاں تک تعلق ہے تو ان کی سیاسی فراستوں کا سال یا سرکاریں بدلنے سے کوئی لینا دینا نہیں۔نہ وہ جھکتے ہیں نہ بکتے ہیں۔یہ کام تو سرکاریں کرتی ہیں۔مولانا نئے برس میں بھی عملی سیاست کی زندہ نصابی کتاب کے طور پر قومی اثاثہ ثابت ہوں گے۔

سال دو ہزار سولہ میں ایم کیو ایم کی سی ایم ایچ میں ڈینٹل سرجری تو ہو چکی تاہم اس کے ماپ کی نئی بتیسی نہیں بن پا رہی۔نئے برس میں بھی ایم کیو ایم کے تین بچوں کے درمیان سیاسی جائداد کے بٹوارے کا تنازعہ جاری رہے گا۔ جب تک انیستھیسیا کا اثر باقی ہے مریضِ کراچی آپریشن ٹیبل پر رہے گا۔اگر انتخابی نتائج مثبت آنے کی امید ہوئی تو مریض کو آپریشن تھیٹر سے باہر جا کر چہل قدمی کی محدود اجازت مل سکتی ہے۔

پاک چائنا اکنامک کاریڈور نئے برس میں مزید مقدس گائے ہو جائے گا۔دلائل ، مخالفت اور بھانت بھانت کے سوالات اپنی جگہ رہیں گے مگر سڑک کا کام نہیں رکے گا۔ویسے ابھی تک سی پیک کا پورا ہاتھی کوئی بھی نہیں دیکھ پایا۔کوئی سونڈ کو ، تو کوئی دم کو تو کوئی پاؤں کو ہاتھی سمجھ رہا ہے۔اصل ہاتھی دو ہزار اٹھارہ کے بعد سامنے آئے گا اور اس کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوگا۔چین کے لیے یہ گیم ہے ، حکمران طبقات کے لیے منی چینجر اور عام آدمی کے لیے گیم چینجر۔بالکل ویسا ہی گیم چینجر جیسا ہر ماہرِ ختنہ دکھاتا اور بتاتا ہے۔دیکھو دیکھو منے میاں اوپر دیکھو وہ چڑیا اڑ رہی ہے۔ جیسے ہی منا اوپر دیکھتا ہے نیچے گیم چینج ہو جاتی ہے…

اب کچھ علاقائی پیش گوئیاں۔

نریندر مودی کا بھارت اپنے لیے بھی اور اپنے ہمسائیوں کے لیے بھی ایک تکلیف دہ رولر کوسٹر بنا رہے گا۔ چین ، روس ، ایران ، ترکی اور پاکستان کے درمیان جو نئی علاقائی گیم ڈل رہی ہے اس کے ہوتے کابل تا دمشق حالات میں گہری تبدیلی آئے گی۔کابل حکومت بھارت اور امریکا سے فاصلہ کر کے نئے علاقائی اتحاد کی طرف جھکنے پر مجبور ہو جائے گی اور طالبان بھی داعش کا بڑھتا بخار دیکھ کر ہوش مندی کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ویسے بھی جس گیم سے امریکا اور بھارت باہر ہوگا اس کا حصہ بننا طالبان کے لیے نظریاتی طور پر زیادہ آسان ہو گا۔

بیس جنوری کو اوباما کی جگہ ٹرمپ کے آنے سے دنیا میں واضح صف بندی سب کو دکھائی دینے لگے گی۔امریکا کے دائیں طرف اسرائیل ، بھارت ، جاپان ، فلپینز ، تائیوان اور برطانیہ ہوں گے اور بائیں طرف باقی دنیا۔اس صف بندی کے سبب نئے سال میں پہلی عالمگیر اقتصادی و ماحولیاتی جنگ کا آغاز ہو گا۔کوئی ملک غیر جانبدار نہیں رہ پائے گا۔یورپی یونین غیر جانبدار رہنے کی کوشش ضرور کرے گی مگر اسے جلد احساس ہو جائے گا کہ ٹینکوں کی لڑائی میں تو نیوٹرل رہا جا سکتا ہے مگر ماحولیات اور اقتصادیات کی جنگ میں سب سے پہلی ہلاکت غیر جانبداری کی ہوتی ہے۔اس جنگ کے سبب اقوامِ متحدہ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے ڈھانچوں پر بے پناہ دباؤ آئے گا۔دعا ہے کہ وہ یہ دباؤ سہار سکیں۔

جہاں تک نئے سال میں پاکستانی میڈیا کا معاملہ ہے تو گذرے برس کی طرح نئے برس میں بھی نئے آئیڈیاز سے خالی میڈیا اس دہاڑی مزدور کی طرح حالاتی چوک پر ہتھوڑی چھینی کدال پھاوڑہ لیے ایسے خبری گاہک کا انتظار کرتا رہے گا جو اس کا ایک دن اور اچھا نکال دے۔
بارہواں کھلاڑی بھی کیا عجب کھلاڑی ہے
کھیل ہوتا رہتا ہے ، شور مچتا رہتا ہے ، داد پڑتی رہتی ہے
اور وہ الگ سب سے انتظار کرتا ہے
ایک ایسے لمحے کا ، ایک ایسی ساعت کا
جس میں حادثہ ہو جائے ، جس میں سانحہ ہو جائے
پھر وہ کھیلنے نکلے
تالیوں کے جھرمٹ میں
ایک جملہِ خوش کن، ایک نعرہِ تحسین، اس کے نام ہوجائے
سب کھلاڑیوں کے ساتھ وہ بھی معتبر ہو جائے (افتخار عارف)

(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments