ڈرونز اور شہد کی مکھیوں کے اشتراک سے بارودی سرنگوں کو کیسے تلاش کیا جا رہا ہے؟


Bees from the training programme

Bee4exp
شہد کی مکھیوں کو باروری سرنگ میں استعمال شدہ کیمیکل کو سونگھنے کی تربیت دی جا سکتی ہے

آپ کو شاید شہد کی مکھیوں کی اس خوبی کا علم نہ ہو کہ وہ بمبوں کو ڈھونڈنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

شہد کی مکھیاں دھماکہ خیز مواد کو سونگھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور کروشیا میں ماہرین برسوں سے شہد کی مکھیوں کو بارودی سرنگیں کی تلاش کی تربیت دے رہے ہیں۔

لیکن ایک مسئلہ ہے۔ شہد کی مکھیوں جب خوشی خوشی بارودی سرنگوں کے علاقوں میں گھس جاتی ہیں تو انسانوں کے لیے ان کا پیچھا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ بارودی سرنگوں والے علاقوں میں مکھیوں کے پیچھے بھاگنا بلکل بھی اچھا خیال نہیں ہے۔

لیکن انسان نے اس مسئلے کا بھی حل ڈھونڈ نکالا ہے۔

بلقان کے علاقے جہاں نوے کی دھائی میں جنگ اپنے عروج پر تھی وہاں بوسنیا، ہرزگوینا اور کروشیا میں ایک ٹیم ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہی ہے جس میں ڈرونز کے ذریعے اور تربیت یافتہ شہد کی مکھیوں کا پیچھا کر کے ان جگہوں کی فوٹیج تیار کی جاتی ہے جن کا بعد میں کمپیوٹر پر تجزیہ کر کے بارودی سرنگ کا پتہ چلا لیا جاتا ہے۔

بارودی سرنگیں دنیا کے مختلف حصوں میں اب بھی انسانوں کے لیے مشکلات کا باعث ہیں اور بلقان کے علاقوں میں ہزاروں بارودی سرنگیں بچھائی گئی تھیں جن میں بعض آج بھی وہیں موجود ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق بوسنیا ہرزگووینا میں 80 ہزار اور کروشیا میں 30 ہزار بارودی سرنگیں اب بھی موجود ہیں۔ علاقوں کو بارودی سرنگوں سے صاف کرنا ایک طویل اور محنت طلب کام ہے لیکن ٹیکنالوجی اس میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

شہد کی مکھیوں کی ’ملکہ ترنم‘

خاتون کی آنکھ سے چار زندہ مکھیاں برآمد

دنیا کی سب سے بڑی شہد کی مکھی زندہ مل گئی

لاک ڈاؤن سے شہد کی مکھیوں کو کیسے فائدہ ہو رہا ہے؟

بلقان کے علاقے.

خیال کیا جاتا ہے کہ بلقان کی جنگ کے دوران بچھائی گئی ہزاروں بارودی سرنگیں اب بھی موجود ہیں

بوسنیا ہرزگوینا کی بانجا لوکا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ولادی میر ریسوجوچ کا کہنا ہے: ’ہم انسانوں کو ممکنہ خطرے سے بچانا چاہتے تھے اور ڈرون استعمال کرنے کی کوشش کی۔‘

اس سے قبل تحقیق کارروں کی ایک اور ٹیم نے شہد کی مکھیوں کو بارودی سرنگوں کو ڈھونڈنے کی تربیت دی تھی۔ تحقیق کاروں نے شہد کی مکھیوں کو چینی کے استعمال کے ذریعے ٹی این ٹی بارودی مواد کو سونگھنے کی تربیت دی۔

تربیت یافتہ مکھیاں خوراک کی امید پر ایسی جگہوں پر جمع ہو جاتی ہیں جہاں ٹی این ٹی کیمیکل سے لبریز بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔

اس طرح کی کوششیں کئی برسوں سے جاری تھیں۔ پروفیسر ریسوجوچ کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کو یہ احساس ہوا کہ وہ کمپیوٹر کے ذریعے بارودی سرنگوں کو ڈھونڈنے والی مکھیوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور آسانی کے ساتھ ایسی جگہوں تک پہنچ سکتے ہیں جہاں باردوی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔

لیکن اس میں بھی مشکلات تھیں۔

پروفیسر ریسوجوچ کا کہنا ہے کہ یہ انسانی آنکھ کے لیے بھی مشکل ہے کہ وہ محو پرواز مکھیوں کو دیکھ سکے اور کمپیوٹر کی آنکھ کے لیے تو یہ اور بھی مشکل تھا ’کئی ایسے لمحے بھی آئے جب مجھے لگا کہ ہم بیوقوف ہیں جو یہ کر رہے ہیں لیکن نتائج دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔‘

Practise minefield

Bee4exp
ڈرونز کی افادیت کو جانچنے کے لیے ایک تجرباتی بارودی سرنگ تیار کی گئی

تحقیق کاروں کی ٹیم نے ڈرون کے ذریعے بیرونی ایریا کی حاصل کردہ فوٹیج کے اوپر نقلی مکھیوں کو سپر امپوز کیا۔ جب نقلی مکھیاں دوسری مکھیوں میں گم ہو گئیں اور انھیں شناخت کرنا ممکن نہ رہا تو پھر سائنسدانوں نے مصنوعی ذہانت کے پروگرام ایلگوریتھم کو استعمال کر کے ساری فوٹیج کا جائزہ لیا۔

ایلگوریتھم کی مدد سے ڈیجیٹل مکھیوں کو ڈھونڈا گیا اور اس میں ان کی کامیابی کی شرح 80 فیصد تھی۔

اس کے بعد تحقیق کاروں نے یہ جانچنے کے لیے کہ یہ پروگرام اصلی حالات میں کتنا کارگر ہے، کروشیا کی ایک اصلی لیکن اب مکمل طور پر محفوظ بارودی سرنگ کا رخ کیا۔

Drone testing

Bee4exp
تجرباتی بارودی سرنگ میں ڈروانز کو شہد کی مکھیوں کے جھرمٹ کو ڈھونڈنے کے لیے استعمال کیا گیا

ابھی تک اس تحقیق کو ایک تعلیمی مقالے کی شکل میں تو شائع نہیں کیا گیا لیکن پروفیسر ریسوجوچ کا کہنا ہے کہ بارودی سرنگ میں ہونے والے تجربے کے دوران شہد کی مکھیوں کے جھرمٹ بنانے اور بارودی مواد میں ایک تعلق سامنے آیا ہے۔

ابھی تک ڈرونز پہلے سے طے شدہ راستوں پر اڑتے ہیں اور اس دوران وہ شہد کی مکھیوں کے جھرمٹ کی فوٹیج تیار کرتے ہیں۔ پھر اس فوٹیج کا تجزیہ کر کے ایسی جگہوں کا پتہ چلایا جاتا ہے جہاں شہد کی مکھیوں نے جھرمٹ بنائے۔

پروفیسر ریسوجوچ کا کہنا ہے بارودی سرنگوں کا پتہ لگانے کے لیے اس نئے طریقہ کار کے موثر ہونے میں کچھ برس لگ سکتے ہیں لیکن اس طریقہ کار کی مدد سے پہلے سے موجود بارودی سرنگوں کو ڈھونڈنے کے طریقوں کو مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔

بارودی سرنگوں کو ڈھونڈنے کے لیے جو ٹیکنالوجیز استعمال ہوتی ہیں ان میں ایک ہاتھ میں اٹھانے والا میٹل ڈیٹیکر ہے جس میں زمین کے اندر تک مشاہدہ کرنے والا ریڈار بھی نصب ہوتا ہے۔

اس طرح کی ٹیکنالوجیز کے استعمال سے بھی ایسی جگہوں کو مکمل طور پر محفوظ بنانا ممکن نہیں جہاں باروری سرنگیں بچائی گئی تھیں۔ ایسی جگہوں پر باقی ماندہ بارودی سرنگوں کا پتہ چلانے کے لیے شہد کی مکھیوں اور ڈرونز کا استعمال کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

Matthew Breay Bolton at Pace University

Pace University
باردوی سرنگوں کو ہٹانے کی راہ میں روکاٹیں ٹیکنالوجی سے زیادہ سیاسی عوامل کار فرما ہوتے ہیں: میتھو بولٹن

نیویارک کی پیس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے میتھو بولٹن کے خیال میں ٹیکنالوجیز میں جدت کے ذریعے بچھائی گئی بارودی سرنگوں کی حدوں کا تعین ممکن ہے لیکن اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل ابھی ممکن نہیں ہے۔

میتھو بولٹن کے خیال میں بارودی سرنگوں کو ہٹانے میں بڑی رکاوٹیں سیاسی جھگڑے اور وسائل کی کمی ہے جس کی وجہ سے بارودی سرنگوں کو ہٹانے کے منصوبے التو کا شکار ہو جاتے ہیں بیشک کیسی ہی ٹیکنالوجیز موجود ہوں۔

میتھو بولٹن پولیٹکل مائن فیلڈ: خودکار ہلاکتوں کے خلاف جدوجہد (Political Minefields: The Struggle against Automated Killing) کے مصنف ہیں۔

اس کے علاوہ یمن جیسے ملکوں میں آج بھی بارودی سرنگیں بچھائی جا رہی ہیں۔

تمام رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود پروفیسر ریسوجوچ پرامید ہیں کہ ان کی ٹیم نے جو طریقہ کار وضح کیا ہے اس سے کروشیا، بوسنیا اور ہرزگوینا ایک دن بارودی سرنگوں سے پاک ہو جائیں گے۔

اور یہ طریقہ کار دوسری جگہوں پر بھی استعمال ہو سکے گا۔

حالیہ برسوں میں ایسا کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کیا گیا ہے جو حشرات الارض کو قدرتی ماحول میں ٹریک کر سکتا ہے۔

پروفیسر ریسوجوچ اور ان کی ٹیم کا خیال ہے کہ ایسے طریقوں کو بروئے کار لا کر ان چیزوں کا بھی پتا چلایا جا سکے گا جو فصلوں کی صحت اور قدرتی ماحول کے لیے انتہائی اہم ہیں۔

لیکن انسانی کارروائیوں کی وجہ سے حشرات الارض کی تعداد دن بدن کم ہو رہی ہے۔ اگر حشرات الارض اور ٹیکنالوجی مل کر کام شروع کریں تو یہ ہماری دنیا کے بھی اچھا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp