مردانہ کووڈ وارڈ کی کچھ یادداشتیں


کووڈ وارڈ میں کسی اپنے کو لے جانے اور اس کا مددگار ہونے کی پہلی یاداشت ہر کسی کے لیے بہت اداس، تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوتی ہے۔ مردانہ کووڈ وارڈ میں اپنے بھائی کی مددگار ہونے کی حیثیت سے میری پہلی یادداشت بہت کرب ناک ہے مگر ہر شام کے بعد صبح بھی آتی ہے۔

وارڈ کی پہلی صبح، بھائی کی طبیعت کافی سنبھل چکی تھی اور نو روز کے نہ ٹوٹنے والے بخار کے بعد جب ہم نے اسے کھانے کی فرمائش کرتے اور باتیں کرتے دیکھا تو جیسے رات کی ساری کلفتیں بھول گئی ہوں۔

وارڈ میں بھائی کے علاوہ تین مرد حضرات پہلے سے موجود تھے۔ بھائی کے بستر سے دائیں جانب ایک خان صاحب کا بستر تھا جن کا رخ کمرے کی کھڑکی کی جانب رہتا اور وہ زیادہ وقت یا تو سوئے رہتے یا شاید آنکھیں موندے رکھتے۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتے تھے۔ ہر روز ڈاکٹر کو تین سے چار بار اپنا پیٹ خراب ہونے کی شکایت کرتے جس میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی تھی۔ ایک خاتون ڈاکٹر نے جب انہیں کیلا، کھجور اور ٹماٹر کھانے سے منع کیا تو معصومیت سے پوچھنے لگے ’کیوں مجھے شوگر ہو گیا ہے؟‘

خاتون بولیں نہیں آپ کا پوٹاشیم بڑھ گیا ہے اس لیے۔ یہ سن کر دوبارہ کھڑکی کی جانب منہ موڑ کر آنکھیں بند کر لیں۔ کمرے میں سب سے آخر میں انہی کا کھانا آتا جو غالباً ان کا بیٹا لاتا۔ وہ ہر روز دو بار، صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا لاتا۔ آتے ہی ابا کو سینیٹائز کراتا، انہیں واش روم لے جاتا اور واپس لا کر کھانا کھلاتا۔ کھانے کے بعد وہ ان سے باتیں کرتا اور واپس چلا جاتا اور وہ پھر سے دیوار کی طرف منہ کر کے آنکھیں موند لیتے۔

ان صاحب کے بالکل سامنے ایک صاحب کا بستر تھا جو کہ انتہائی دلچسپ اور زندہ دل مریض تھا جو اپنے مددگار کے ساتھ خود جا کر ناشتہ لاتا اور کمرے میں موجود ہر مریض کو کھانے میں شامل ہونے کے لیے کہتا اور کھانے کے دوران پورے جوش و خروش سے گفت و شنید جاری رکھتا۔ مددگار کو بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ جب وہ ہسپتال میں داخل ہوا تو اس نے کس طرح اپنی تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر لگائی تو اس کی ہمشیرہ، رشتہ داروں اور دوستوں کے فکرمندانہ فون آئے اور کچھ تو باقاعدہ رو دیے۔

کھانے کے دوران جب اس کا فون بجا، تو بات کرتے ہوئے اچانک اس کی آواز مدھم اور لاغر ہو گئی اور جواب میں یہ کہتے سنا گیا کہ بس گزارا ہے ، آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ آپ مت آئیں۔ اگلے روز ایک اور کال پر وہ کسی پہ یہ عنایت کرتے پائے گئے کہ زیادہ تکلف کی ضرورت نہیں۔ روٹی مت بھیجنا وہ میں یہاں سے تازہ لے لوں گا۔ بس سالن اور سلاد۔ شاید کسی نے سلاد کی عدم دستیابی کا جواز دیا تو کہنے لگے تو نہ ہو سلاد۔ سالن بھی چلے گا۔ اپنے مددگار کو روز صبح کے ناشتے پر یہ کہہ کر رخصت کرتے کہ شام کو آنا، گپ شپ لگائیں گے۔

ان صاحب کے دائیں جانب ایک بزرگ مریض بستر پر تھے جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ نظم و ضبط کے پابند انسان ہیں۔ گھر بار بار فون کر کے، گھر لے جانے کی درخواست کرتے تھے تاکہ وہ نہا سکیں۔ میری موجودگی تک ان کی یہ درخواست پوری نہ ہو سکی۔ شام میں موبائل پر خوبصورت غزلیں سنتے اور سونے سے پہلے دیر تک کتاب پڑھتے۔ ان کی بیگم سے ایک ملاقات میں دلچسپ والے مریض نے کہا کہ بھابی آپ کے میاں کچھ نہیں کھاتے جس پر بھابی نے ان سے درخواست کی کہ اگر وہ اس معاملے میں کچھ کام آ سکیں کیونکہ یہ میری بات نہیں مانتے۔

میرا بھائی جو سمجھ رہا تھا کہ اس کے آخری دن چل رہے ہیں اور اس کے بعد اس کی دو سال کی بیٹی اور ایک ماہ میں نئی آنے والی اولاد کا کیا ہو گا، آج جب کھانے کی فرمائش کرتا ہے اور تیمارداری کے لیے آنے والے ہر مہمان کے ساتھ ہنستا ہے تو لگتا ہے جیسے مردانہ وارڈ میں بہار آ گئی ہو۔

میرے بھائی سمیت ان چار مریضوں کی اپنی جداگانہ عادات، انداز، حرکات اور رویوں کے میل سے مردانہ کووڈ وارڈ کی فضاء مختلف ذائقوں سے بھری، قابل قبول، پریشانی میں مسکرا دینے والی، اور کلفتیں بھلا کر لمحوں میں جینے کا سماں پیدا کر رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments