بہاولپور ریاست اور ڈی ایچ اے میں وِلا کا ہمارا ادھورا خواب


کچھ سال پہلے میرے بابا نے پاکستان منتقل ہونے کا سوچا تو وہاں سکونت کے لئے نظر انتخاب بہاولپور پر ٹھہری۔ انہی دنوں ڈی ایچ اے بہاولپور کی الیکٹرانک میڈیا پر خوب تشہیر کی جا رہی تھی اور کمپیوٹرائزڈ تصویروں میں ڈی ایچ اے ولاز کو اس ہنر مندی سے دکھایا جا رہا ہے تھا کہ دیکھنے والے پاکستانی چاہے دنیا کے کسی بھی ملک میں دیکھیں تو ان ولاز کے حصول کے لئے حسین خواب سجاتے ہوئے درخواست کی فیس بلا تاخیر پہلی فرصت میں دے ڈالیں۔ اور پھر ان کے چنگل میں پھنس کر جو جمع پونجی زندگی میں اکٹھی کی ہے ، وہ خوشی خوشی ان کے حوالے کر دیں۔

ہم لوگ چونکہ بچپن سے پاکستان سے باہر ہی رہے تو تجسس بڑھا کہ بہاولپور ہی بابا کا انتخاب کیوں بنا؟ بابا کہنے لگے کہ کچھ شہر خود رو پودوں کی طرح پیدا ہو جاتے ہیں۔ کچھ شہر زمین پر میخوں کی طرح گاڑ دیے جاتے ہیں اور بعض شہروں کو تاریخ اور دعا جنم دیتی ہے اور پھر وہاں کے لوگ انہیں لاڈلے بچوں کی طرح پالتے ہیں۔ ایسا ہی ایک شہر بہاولپور ہے جسے ایک ریاست کی فراست نے جنم دیا۔ تو پھر چلیں اس شہر کے بارے میں مزید جانتے ہیں۔

بہاولپور ڈویژن تین اضلاع پر مشتمل ہے۔ وسط میں بہاولپور، اس کے مغرب میں رحیم یار خان اور مشرق میں بہاولنگر کے اضلاع ہیں۔ یہ ایک قدرتی طور پر علیحدہ خطہ ہے۔ اس کے شمال میں پانچ دریا ہیں جو اس کی حد بندی کرتے ہیں، اور اس کو پنجاب سے الگ کرتے ہیں۔ مشرق میں انڈیا کا صحرا اس کی حد بندی کرتا ہے۔ اسی طرح سندھ کا صوبہ اس کے جنوب مغرب میں ہے۔ بہاولپور برصغیر کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک تھی۔ اس نے جو ترقی ریاست کے دور میں شروع کی وہ صوبے کی حیثیت تک جاری رہی، مگر پھر تھم گئی اور آج تک جامد ہے۔

ریاست بہاولپور تعلیم کا مرکز گردانا جاتا تھا۔  1886 میں یہاں پہلا کالج قائم ہوا تھا۔ برصغیر کے تمام بڑے تعلیمی اور سماجی ادارے بہاولپور کی طرف رجوع کرتے تھے۔  1947 میں بٹوارے کے بعد ریاست بہاولپور نے پاکستان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔

بہاولپور یونیورسٹی میں تاریخ کے وزٹنگ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر بہاولپور کے تاریخی صادق ایجرٹن کالج کے شعبہ تاریخ کے سابق صدر ہیں اور ریاست بہاولپور کی تاریخ پر خصوصاً گہری نظر رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر کے مطابق بہاولپور کے اندر بھی زیادہ لوگ نہیں جانتے مگر 1955 میں ون یونٹ میں شامل ہونے سے قبل تین برس تک بہاولپور کی حیثیت ایک صوبے کی تھی۔ بہاولپور کی علیحدہ منتخب اسمبلی تھی اور وزیر اعلیٰ بہاولپور کو وہی اختیارات حاصل تھے جو دوسرے صوبائی وزرائے اعلیٰ کو حاصل ہوتے تھے۔ ان کے مطابق بہاولپور کے حکمران نواب صادق محمد خان خامس نے پاکستان کی حکومت کے ساتھ متعدد معاہدے کیے۔

’ان معاہدوں کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ریاست بہاولپور سے اختیارات لے لیے گئے تھے اور ایک ریاست سے ایک صوبے کا مرحلہ طے ہوا تھا۔‘

ایک خود مختار ریاست کے طور پر بہاولپور کی تاریخ دو سو برس سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ریاست بہاولپور کے امور خارجہ، دفاع اور کرنسی برصغیر کے حاکم راج برطانیہ کے سپرد تھے جبکہ دیگر معاملات ریاست کے بانی عباسی خاندان کے نواب چلاتے تھے۔ پاکستان میں شامل ہونے کے بعد کچھ عرصہ یعنی 1955 تک بہاولپور کی حیثیت ایک صوبے کی رہی ہے۔

سنہ 1951 کے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن جو کہ ایک ضمنی معاہدہ ہے، اس کے تحت ریاست بہاولپور کے تمام مرکزی امور حکومت پاکستان نے لے لیے تھے۔ ’صوبائی امور جو باقی صوبوں کو حاصل تھے ان کا اختیار بہاولپور کو دے دیا گیا تھا۔‘

1955 میں بہاولپور صوبے کے طور پر ون یونٹ میں شامل ہوا، مگر  1970 میں ون یونٹ کے خاتمے پر اسے بہاولپور صوبے کے درجے پر بحال نہیں کیا گیا۔

 1955 میں وزیر اعظم چوہدری محمد علی بوگرہ کی حکومت نے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو ملا کر ون یونٹ اور مشرقی پاکستان کو علیحدہ یونٹ بنا دیا تھا۔

بہاولپور بھی باقی چاروں صوبوں کی طرح ون یونٹ میں شامل ہوا۔ 1970 میں لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے ون یونٹ تحلیل کر دیا گیا۔

ڈاکٹر طاہر کے مطابق 1969 میں ’جب اس وقت کے آمر جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ ختم کرنے کا اعلان کیا تو بہاولپور کے لوگوں کو امید تھی کہ وہ علیحدہ یونٹ کے طور پر بحال ہو جائے گا، مگر بحال نہ ہوا۔

پروفیسر ڈاکٹر طاہر کے مطابق 1970 کا انتخاب بہاولپور میں صوبے کی بحالی کی بنیاد پر لڑا گیا تھا۔ اس میں ماسوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے باقی تمام جماعتوں نے ایک متحدہ محاذ اسی بنیاد پر بنایا تھا۔ اس محاذ میں مسلم لیگ، تحریک استقلال، جماعت اسلامی وغیرہ شامل تھیں۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

بہاولپور نور محل کے مرکزی ہال کو نمائش کے لیے عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ یہ محل ملکہ نور کے لیے تعمیر کیا گیا تھا مگر وہ خود یہاں کبھی نہیں رہیں، اس کے باوجود یہ محل آنے والے وقتوں کے لیے بہاولپور کی شناخت بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ  1906 میں علاقے کا سب سے بڑا بہاول وکٹوریہ ہسپتال تعمیر ہوا۔  1924 میں لائبریری قائم کی گئی۔ 1945 میں لڑکیوں کے لیے کالج بنایا گیا تھا۔  1950 کی دہائی کے اوائل ہی میں بہاولپور میں ڈرنگ اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا۔ اس وقت بہاولپور کا ہاکی گراؤنڈ ایشیا میں سب سے بڑا تھا۔ اس میں موجود کرکٹ گراؤنڈ نے مغربی پاکستان میں پہلے ٹیسٹ میچ کی میزبانی کی تھی، جو انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں کے درمیان جنوری 1955 میں کھیلا گیا تھا۔

ہم بابا کی زبانی اس سیر سے بے حد محظوظ ہوئے، ڈی ایچ اے ولاز کے لئے درخواست کی پیشگی فیس 15 ہزار ناقابل واپسی اور چار لاکھ ڈاؤن پیمنٹ جو کہ الاٹیز کو بعد میں جمع کرانی تھی وہ غلطی سے ادا ہو گئی اور یہی زندگی کی بڑی غلطی ثابت ہوئی کہ مہینوں انتظار کے بعد قرعہ اندازی کا دن آیا اور ہمارا تو کیا دور دور تک کسی جاننے والا کا نام نہیں نکلا، سننے میں آیا کہ بیشتر ڈی ایچ اے کے اپنے ہی ایجنٹس کے نام نکلے ہیں جو کہ بعد میں اپنا کمیشن وصول پا کر ان ولاز کو چوگنی قیمت پر فروخت کرنے میں ڈی ایچ اے کے سہولت کار بننے کا شرف پائیں گے۔

مگر یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ ہماری غلطی سے ادا ہو جانے والے وہ چار لاکھ جو سنگل کلک سے ہمارے اکاؤنٹ سے ان کے اکاؤنٹ میں گئے تھے، وہاں سے بھی سنگل کلک ہی سے ہمارے اکاؤنٹ میں واپس آ جانے کی بجائے اس طرح پھنس گئے کہ گویا چاند پر چلے گئے ہوں، چار لاکھ کے لئے لاکھ نہ سہی ہزاروں کالز میرے بابا نے کر ڈالیں مگر آئیں بائیں شائیں ختم نہ ہوئی، یہاں تک کہ میرے بابا کو پاکستان جانا ہی پڑا کہ گھی سیدھی انگلی سے نکلنے والا نہ تھا۔

دفتر کے چار پانچ چکر لگا چکنے کے بعد بھی بات نہ بنی تو بابا سمجھ گئے کہ ایک منظم ادارے کی سربراہی میں کام کرنے والا ڈی ایچ اے محض اونچی دکان پھیکا پکوان ہے اور اونچائی بھی اتنی کہ عوام کی پہنچ میں ہرگز نہیں لہٰذا اسی منظم ادارے میں اپنے دوست کی وساطت سے انتہائی خجل خواری کے بعد اپنے ہی پیسے یوں واپس ملے جیسے کسی نے احسان کر ڈالا ہو اور یہی حال ڈی ایچ اے ویلی 2008 کے متاثرین کا ہے جو پلاٹ کی پوری قیمت ادا کر چکنے کے باوجود آج تک انصاف اور پلاٹ کے منتظر ہیں کہ مبینہ 74 بلین روپے کا کوئی اتا پتا نہیں اور اتنی بڑی عوامی رقم سے کی گئی سرمایہ کاری کا منافع تصور سے باہر ہے۔

رئیل اسٹیٹ کا یہ بڑا نام فقط اپنے مفاد میں کام کرتا ہے کہ ایک دن بھی قسط کی ادائیگی میں تاخیر ہو تو کلائنٹ کو سرچارج دینا پڑتا ہے مگر برسوں پہ محیط خواری پر اس ادارے کو نہ تو کوئی ندامت ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں متاثرین کے لئے کوئی متبادل منصوبہ۔

طاقت کے نشے میں مخمور یہ لوگ بھول چکے ہیں کہ دوزخ کے بھاری دروازے کو ہلانے کے لئے مظلوم کی چھنگلیا یا پھر درد بھری آہ ہی کافی ہوتی ہے۔ بہاولپور میں ہمارے ولا کا خواب بھی اسی طرح ادھورا ہے جیسے بہاولپور کو الگ صوبہ بنانے کے وعدے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments