کشمیر:ترجیحات طے کیجیے


یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاسی منظر نامے میں تیزی سے ایسی تبدیلیاںرونما ہورہی ہیں جو طویل المعیاد اثرات کی حامل ہیں۔بھارت بتدریج لیکن مستقل مزاجی سے زمینی حقائق تبدیل کر رہا ہے۔ چنانچہ کشمیری مسلمانوں کی معاشی، سیاسی اور انتظامی بالادستی تیزی کے ساتھ کم ہورہی ہے۔ علاوہ ازیں آبادیاتی تبدیلی بھی ایک حقیقت کے طور پر متشکل ہورہی ہے۔

ایک بھرپور ثقافتی یلغار بھی جاری ہے تاکہ صدیوں پرانی قدیم کشمیری تہذیب اورمسلم تشخص کو تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ فوجی چھاؤنیوں کی توسیع، نئے آبادکاروں کے لیے رہائشی منصوبے یا اراضی الاٹ کرنے کے لئے کشمیریوں کی ملکیتی اراضی کا ضبط کیا جانا معمول بن چکا ہے۔ بھارتی حکام نے کچھ علاقوں کواسٹرٹیجک زون قرارد ینے کے لیے قوانین میں تبدیلی بھی کی ہے تاکہ بھارتی فورسز کو جہاں ضرورت ہو وہاں تعمیرات کی جاسکیں۔

لہلہاتے کھیتوں، گھنے جنگلات اورلدے پھندے باغات شہریوں سے ان کی رضامندی کے بغیر ہتھیالیے جاتے ہیں۔شہریوں کی زمین ہتھیانے کا اسرائیلی ماڈل پوری ریاستی قوت کے ساتھ آزمایاجارہاہے۔ موجودہ حالات میں کشمیری مسلم تشخص اور صدیوں پرانی تہذیب جسے عام طور پر کشمیریت کہا جاتا ہے، کے وجود کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

کشمیری مسلمانوں نے گذشتہ سات دہائیوں کے دوران بتدریج جو سیاسی اور انتظامی طاقت حاصل کی تھی وہ 5 اگست 2019سے مسلسل زوال پذیرہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت تمام بڑے انتظامی عہدوں پرغیر کشمیری فائز کردیے گئے ہیں۔ آبادیاتی تبدیلی بی جے پی کی کشمیر پالیسی کا ایک اہم جزوہے۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مقامی رہائشی حقوق یعنی ڈومیسائل بڑے پیمانے پر غیر کشمیریوں کو دیئے جاتے ہیں۔خاص کر سابق فوجی اہلکاروں کو نوازا جاتاہے۔

معاشی طور پر کشمیریوں کو پسماندہ کرنے کے لیے بھی کئی ایک ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جو رفتہ رفتہ کشمیری کاروباری اداروں کو کنگال کردیں گے۔ مثال کے طور پر حکومت کشمیر میں کان کنی کے لئے غیر ریاستی کمپنیوں کو لیزدے رہی ہیں۔ اس اقدام نے مقامی کارباری اداروں کے لیے شدید مشکلات پیدا کردی ہیں جو بڑی غیر ریاستی کمپنیوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔چنانچہ مقامی کمپنیوں کے لیے بولی جیتنے کے امکانات میںنمایاں کمی آئی ہے۔

مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندو وزیراعلیٰ لانے کے سنگ پری وار کے دیرینہ خواب کی تکمیل کے انتخابی حلقوں کو ازسر نو تشکیل دینے کے لیے ایک حد بندی کمیشن تشکیل دیا گیا۔یہ کمیشن ہندو اکثریتی جموں میں اسمبلی کی نشستوں کو بڑھائے گا جہاں بی جے پی گہرا سیاسی اثر ورسوخ رکھتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پانچ ہزارکے قریب مندر تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی اب خفیہ نہیں رہا۔ متعدد تاریخی مساجد اور درگاہوں کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ ان کی جگہ مندرتعمیر کیے جاسکیں۔

دعوی کیاجاتاہے کہ یہ مساجد قدیم ہندو مذہبی مقامات کو منہدم کرکے تعمیر کی گئیں۔ بی جے پی حکومت نے ستمبر 2020 میں جموں و کشمیر کی واحد سرکاری زبان اردو کا یہ درجہ ختم کردیا حالانکہ یہ131 سال سے کشمیر میں سرکاری زبان کے طور پر راج تھی۔ کشمیریوں کا معاشی دیوالیہ نکالنے کے لیے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔اطلاع ہے کہ انٹرنیٹ کی عدم فراہمی ،مسلسل کرفیو اورلاک ڈؤان کے باعث گذشتہ 20 ماہ کے دوران کشمیر یوں کو چھ ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔

سیاحت کے شعبے، باغبانی، مقامی تعمیرات، تعلیم، اسپتالوں اور طبی سرگرمیوں کو بھی بے پناہ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ 5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں ریاستی تشدد کے واقعات میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ قابض فورسز عسکریت پسندوںکی تلاش کے بہانے مقامی لوگوں کے گھروں کو بھسم کردیتی ہیں۔ نوجوان اور پڑھے لکھے لوگوں کا قتل روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک 10 ایم فل / پی ایچ ڈی سکالرز، 15 ماسٹرز ڈگری ہولڈرز اور 47 گریجویٹس مختلف پرتشدد واقعات میں مارے گئے ہیں۔ پوری آبادی مستقل عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہے۔

مختصراً مقبوضہ کشمیر کے عوام کے وجود اور بقا کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کشمیر پر قبرستان کی طرح کی خاموش طاری ہے اور کشمیری صدمے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔اس تناظر میں حق خود ارادیت جیسے کشمیریوں کے طویل مدتی اہداف پر سمجھوتہ کیے بغیر فوری درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے قلیل مدتی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ شناخت اور آبادیاتی تبدیلی کو تمام کشمیری سیاسی گروہوں کے اتحاد سے ہی ناکام بنایا جاسکتاہے ۔

جموں وکشمیر کے مستقبل کے لیے کم سے کم مشترکہ ایجنڈے پر کام کیاجانا ضروری ہے۔اس ایجنڈے کا بنیادی محور کشمیریوں کی زندگی ،عزت وآبروکا تحفظ قرارپانا چاہیے۔ ریاست جموں وکشمیر کی وحدت بھی ایک ایسا نکتہ ہے جس پر عمومی طور پرتمام سیاسی گروہ یک جان ہوجاتے ہیں۔ ریاست کی پانچ اگست سے پہلے کی صورت کی بحالی کے علاوہ آبادیاتی تبدیلیاںکو روک لگانا ایسے اقدامات ہیں جو وسیع البنیاد اتحاد کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ بھارت نواز کشمیری سیاسی جماعتیں آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی کا مطالبہ کررہی ہیں ۔

اگر یہ مطالبہ مان لیا جاتاہے تو متعدد قوانین خودبخود کالعدم قرار پاسکتے ہیں ۔اس طرح کشمیریوں کی شناخت اور ریاست کا تحفظ کافی حد تک یقینی بنایاجاسکتاہے۔لیکن اس کے امکانات بہت کم ہیں۔کم سے کم بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے کو روکنے یا سست کرنے کے لئے ایک متفقہ حکمت عملی ضروری ہے۔ عالمی برادری اور پاکستان کے دباؤ کے بغیرکشمیر کے بارے میں موجودہ بھارتی حکمت عملی اور سیاسی سوچ لگام نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان نے بے حد تحمل کا مظاہرہ کیا ہے ا۔تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

یہ وقت ہے کہ امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے بھارت پہل قدمی کرے۔ یکطرفہ دوستی کے پیغامات وقت کا زیاں اور سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔ بی جے پی حکومت کوباور کرنا ہوگا کہ خطے میں امن اور استحکام کا ہر راستہ سری نگر سے گزرتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ  نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments