پاکستان میں فیصلے کون کرتا ہے؟


وزیر اعظم بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنا چاہتے تھے لیکن مجبوری نے ہاتھ باندھ دیے۔ آرمی چیف بھارت کے ساتھ امن قائم کرکے پورے خطے میں خوشحالی اور مواصلاتی ترقی چاہتے ہیں لیکن تجارتی مراسم کے محتاط آغاز پر ان کی بھی ’ایک نہیں چلتی‘۔ جاننا چاہئے کہ اگر ملکی کابینہ دو سب سے باختیار افراد کی خواہش کے برعکس فیصلہ کرنے پر مجبور ہے تو اس کے عوامل کیا ہیں۔ آخر کون ہے جو اس ملک کے فیصلے کرنے کا مجاز ہے؟

عمران خان نے آج براہ راست ’عوام‘ کی ٹیلی فون کالز سنیں اور انہیں درپیش مسائل کا جواب دیا۔ اس کی تفصیل پڑھیں تو ناطقہ سربگریباں والی حالت ہوتی ہے۔ سوال : چیزیں مہنگی ہیں حکومت کچھ کرے۔ جواب: کسان اپنی پیداوار کی زیادہ قیمت چاہتا ہے، حکومت کیا کرے؟ اس کے علاوہ مڈل مین زرعی پیداوار منڈی میں لانے کے لئے غیر ضروری منافع خوری کرتا ہے۔ سوال : گیس کی قیمتیں آسمان پر ہیں۔ جواب: ملک میں گیس نہیں ہے۔ مہنگی گیس خرید کر فراہم کرنے میں حکومت پہلے ہی زیر بار ہے۔ جب مہنگی گیس ملے گی تو اسے سستا کیسے کیا جاسکتا ہے۔سوال: کرپشن کیسے ختم ہوگی۔ جواب: سابقہ وزرائے اعظم لوٹ مار کرکے قومی دولت بیرون ملک لے گئے، اور ہم قرضے اتارنے پر مجبور ہیں۔ کرپشن سرطان کی طرح ہے۔ یہ ملکی وسائل کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے۔ بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے پوری قوم کو مل کر کام کرنا ہوگا، اکیلا عمران خان کچھ نہیں کر سکتا۔

وزیر اعظم نے قوم کو تشفی دی ہے کہ ان کے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں آسکتی کیوں کہ امیر ملک اسے واپس نہیں کرتے۔ لہذا اسی صورت حال اور حکومت کے ساتھ گزارا کریں۔ تحریک انصاف نے کم از کم ملک میں دو پارٹی نظام کو توڑا ہے۔ وہ جمہوری تبدیلی لے کر آئی ہے۔ ورنہ فرانس اور ایران کو دیکھیں، وہاں کیسے خونی انقلاب برپا ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کہتی ہے کہ دنیا کے غریب ملکوں سے ایک ہزار ارب ڈالر چوری کرکے منی لانڈرنگ کے ذریعے ترقی یافتہ ملکوں کو بھیجا گیا۔ ’میں ان چند عالمی لیڈروں میں شامل ہوں جو مطالبہ کرتے ہیں کہ اس دولت کو ان ملکوں کے عوام کو واپس کیا جائے۔ لیکن امیر ملک اسے واپس نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ انہیں اس دولت کا فائدہ ہورہا ہے‘۔

وہ دن گئے جب عمران خان نے آخری وقت تک تن تنہا لڑنے کا دعویٰ اور اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر سب ساتھ چھوڑ گئے پھر بھی وہ بدعنوانی اور چور سیاست دانوں کے خلاف اکیلے لڑتے رہیں گے۔ یہ دعویٰ بھی اسی اعلان کی طرح ثابت ہورہا ہے جو 2014 کے دھرنے میں ’سب کا ساتھ چھوڑنے پر بھی تن تنہا ڈٹے رہنے‘ کے بارے میں تھا۔ دسمبر 2014 میں اس ملک کے سب لوگوں نے دیکھا کہ جب امپائر کی انگلی نے اشارہ کیا تو عمران خان اپنے کنٹینر سمیت غائب ہوگئے۔ ان کے سیاسی کزن علامہ طاہر القادری چونکہ تجربہ کارتھے، اس لئے وہ پہلے ہی ’پتلی گلی‘ سے نکل لئے تھے۔ شاید اسی لئے عمران خان اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں اور طاہر القادری کینیڈا میں بیٹھے کف افسوس مل رہے ہیں کہ انہیں یہ موقع نہیں ملا حالانکہ خدمت تو انہوں نے بھی مقدور بھر کی تھی۔

ہائے کیا وقت تھا جب کہہ سکتے تھے ’میں اوپر ہوں وہ نیچے ہیں‘۔ اب تو اوپر نیچے کی تفریق من و تو کے فاصلے کی طرح ختم ہوئی۔ اب ہر طرف تو ہی تو ہے۔ واہ قربان تیرے اختیار کے عمران خان۔ پھر بھی دعویٰ ہے کہ حکومت کا ہاتھ باگ پر ہےاور معیشت کا گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ جس معیشت میں نگران وزیر کو فیصلے کرنے کا اختیار نہ ہو (اس میں وزیر خزانہ حماد اظہر کے ساتھ وزیر تجارت عمران خان بھی شامل ہیں) اس میں بہتری کی ذمہ داری کون قبول کرسکتا ہے۔ کون بتائے گا کہ اس ابتری سے کیسے باہر نکلا جائے گا۔ اس کا ایک ہی حل ہے جو عمران خان کی حکومت اختیار کررہی ہے کہ اسٹیٹ بنک کو غیر مشروط خود مختار کردیا جائے اور جن کا کام ہے، انہیں فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا جائے یعنی آئی ایم ایف کو پاکستانی معیشت کو درست کرنے کا ٹھیکہ دیا جائے۔ اس کے بعد یہ امید باندھ لی جائے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ شاید اسی لئے وزیر اعظم نے ایک فون کال کے جواب میں بتایا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب سے سستا قرض دیتے ہیں۔ چلیں دیر سے ہی سہی، عمران خان نے بھی آئی ایم ایف سے قرض لینے کا حقیقی راز دریافت کرلیا ورنہ وہ دن بھی تھے جب آئی ایم ایف کے آگے دست سوال دراز کرنے سے خدا نخواستہ خود کشی کرنا بہتر سمجھا جاتا تھا۔

موجودہ حکومت کی قیادت میں معیشت کا گلا گھونٹنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پیداواری صلاحیت بڑھانے کے سب امکانات ختم کرکے منڈیوں پر اعتبار مفقود کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی قسط آنے میں دیر سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لئے عالمی مالیاتی منڈیوں میں اڑھائی ارب ڈالر کے بانڈز لگ بھگ دو گنا منافع پر پیش کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ اسے پاکستانی معیشت پر عالمی سرمایہ کاروں کے اعتبار کی علامت بتاتے ہیں۔ وہ اس کے علاوہ کچھ اور کہہ بھی نہیں سکتے۔ کثیر منافع ادا کرنے کے بعد جو ڈالر دستیاب ہوں گے، وہ جاں بلب مریض کے منہ میں پانی کا قطرہ ٹپکانے کی مثل ہی ہوگی۔ اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے جس قوت اور سہارے کی ضرورت ہے، وہ فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے ادارے اسی بات پر متفق نہیں ہیں کہ ملک کا فائدہ کس فیصلہ میں ہے۔ عمران خان کے مشیر جس افراتفری کو اداروں کی خود مختاری اور حکومت کی جمہوریت نوازی بتا رہے ہیں، اسے معیشت کے لئے زہر قاتل سمجھا جاتا ہے۔ حکومتی اداروں کے علاوہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور پارلیمنٹ کی سب سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے، کسی بھی بیمار معیشت کو بحال کرنے کا مؤثر اور واحد نسخہ ہے۔ ملک میں صنعتوں کو خبر نہیں کہ ان کےلئے اگلا دن کون سی خبر لانے والا ہے۔ سرمایہ دار کو معلوم نہیں کہ یہ حکومت کے دن کی مہمان ہے یا اس کا کون سا فیصلہ نافذ العمل ہے اور کسے کسی بھی دباؤ میں تبدیل کردیا جائے گا۔ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے نہیں جانتے کہ وہ نادہندگان کا بازو مروڑنے کا اختیار رکھتے ہیں یا حکومت کسی سیاسی مجبوری میں ایک بار پھر ایسے تجارتی شعبوں کو رعایت دینے پر راضی ہوجائے گی جو اس ملک میں بلیک مارکیٹ اور ٹیکس نیٹ کو محدود رکھنے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔

ایسے میں بلند بانگ سیاسی دعوؤں اور اصلاح احوال کی طفل تسلیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ پھر وزیر اعظم کو ان ایک ہزار ارب ڈالر کا خواب دکھا کر اپنے لوگوں کو یہ تاثر ہی دینا پڑتا ہے کہ اب تو عالمی ادارہ بھی تصدیق کر رہا ہے۔ اگر امیر ملک لوٹی ہوئی دولت واپس ہی نہیں کرتے تو بیچارہ عمران خان کیا کرے۔ عمران خان لیکن یہ بتانے پر تیار نہیں ہے کہ جس جھوٹے خواب کی تکمیل کے لئے پاکستانی عوام کے اربوں روپے بے مقصد براڈ شیٹ نامی اداروں کو ادا کر دیے جاتے ہیں، ان کا ان ایک ہزار ارب ڈالر میں کتنا حصہ ہوگا۔ اور جن امیر ملکوں پر منی لانڈرنگ کے ذریعے غریب ملکوں سے ایک ہزار ارب ڈالر وصول کرنے اور واپس نہ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے، ان کی معیشتوں کا حجم کیا ہے۔ کیا ایک ہزار ارب ڈالر کی ایسی بھاری بھر کم معیشتوں میں کوئی حیثیت بھی ہے؟

یا پھر یہ سادہ سوال کہ ان ایک ہزار ارب ڈالر میں پاکستان کا حصہ کتنا ہے۔ کیا عمران خان اسد عمر کے 200 ارب ڈالر والے حساب کتاب پر اب بھی یقین رکھتے ہیں۔ اگر اس کا جواب اثبات میں ہو تو مان لینا چاہئے کہ انہوں نے حکومت میں لگ بھگ تین برس گزارنے کے باوجود معیشت اور امور حکومت کے بارے میں کچھ نہیں سیکھا۔ اور اگر یہ جواب نہ میں ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ عمداً اس معاملہ پر ملک کے غریب اور کم فہم لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کی سیاست پر سوال نہ اٹھائے جا سکیں۔ جہاں تک منی لانڈرنگ سے غریب سے امیر ملکوں میں دولت منتقل ہونے کا سوال ہے تو یہ معاملہ کسی ٹیلی فون کالر کے سوال پر بیان کرنے کی بجائے، عمران خان کے چہیتے حماد اظہر ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں کیوں نہیں اٹھاتے جہاں یہی امیر ممالک پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھتے ہوئے منی لانڈرنگ جیسے مسائل کا بوجھ پاکستان پر عائد کرتے ہیں۔ اور پاکستانی وفد نہایت اطاعت گزاری سے اصلاح احوال پر راضی ہو جاتا ہے۔

پاکستان کے معاشی، سیاسی، سفارتی اور اسٹریٹیجک معاملات کا واحد مرکز بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت ہے۔ لیکن وزیر خارجہ کو ہر ہفتے اپنی پشتینی گدی کے معاملات دیکھنے کے لئے ملتان جانا پڑتا ہے۔ شاہ محمود قریشی شاید دنیا کے واحد وزیر خارجہ ہیں جو ہمسایہ ملک ایران میں دوست ملک چین کے وزیر خارجہ سے منسوب ایک بیان پر یہ کہتے ہوئے تبصرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ: ’ایران ایک فون پر پالیسی تبدیل نہیں کرتا، چین کا یہ بیان پاکستان کے لیے نہیں تھا‘۔ پوچھا جائے کہ اگر یہ بیان پاکستان سے متعلق نہیں ہے تو آپ چور کی داڑھی میں تنکا کی مثال کیوں بنے ہوئے ہیں۔ آپ کو ایک دوسرے ملک میں تیسرے ملک کے وزیر خارجہ کے کسی ایسے تبصرہ پر رائے دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے جو میڈیا رپورٹنگ کے ذریعے منظر عام پر آیا ہے۔ جس کے ترجمہ کی صحت یا پس منظر کے بارے میں کوئی تفصیل دستیاب نہیں ہے۔ اگر ایسی معلومات شاہ محمود قریشی کے پاس موجود ہیں تو بہتر ہوگا انہیں عام کیا جائے۔

حکومت کو امید ہے کہ اپوزیشن جماعتیں باہمی سر پھٹول میں مصروف ہوچکی ہیں، اس لئے اس کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ عمران خان کو یہ بھی زعم ہے کہ ان کا کوئی متبادل ’کسی‘ کے پاس موجود نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی مختصر جمہوری تاریخ میں سب وزیر اعظم اسی موقع پر ٹھوکر کھاتے رہے ہیں۔ عمران خان ثابت کر رہے ہیں کہ اقتدار کی چاہ میں وہ کسی دوسرے ’بدعنوان‘ لیڈرسے پیچھے نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments