کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولوں:شوکت علی خود بہت دور چلے گئے


ہردل عزیز اور میرے پسندیدہ گلوکار شوکت علی چل بسے، بچپن سے ہی پنجابی سے بہت محبت ہے، بچپن میں جب بھی پی ٹی وی پر شوکت علی کا کوئی بھی گانا چلتا، سب کام چھوڑ کر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتا، ان کی آواز میں عجیب کشش تھی۔ ان کا گانا سنتے ہوئے پنجاب کا کلچر ذہن میں گھومتا رہتا، پنجابی فوک گانے میں ان کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں تھا، ملی نغمہ گائیں تو سنتے ہوئے لہو جوش مارتا بلکہ کھولنے لگتا اور دل کرتا تھا کہ سب کچھ وطن پر ہی قربان کر دیا جائے، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم ہر جگہ اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب نام کمایا، بیرون ملک بھی پرفارم کرتے تھے مگر بھارت میں پرفارمنس کے وقت جس لگن سے پنجابی گانے اور صوفیانہ کلام پڑھتے اس کا رنگ ہی الگ ہوتا تھا۔

شوکت علی کے گائے ہوئے گانوں اور صوفیانہ کلام کو ایک کالم میں بیان کرنا ممکن نہیں، مجھے یہ گانا بہت زیادہ پسند ہے، اکثر سنتا رہتا تھا، ”کدی تے ہس بول وے ناں جند ساڈی رول وے“ پھر ایک دن خوشی کی انتہا ہی نہ رہی جب علم ہوا کہ یہ گانا شوکت علی کا گایا ہوا ہے، اب اسے ری مکس کیا گیا ہے، اسی دن شوکت علی کی آواز میں گایا ہوا گانا ڈاؤن لوڈ کیا اور اب بھی کار کی یوایس بی میں چلتا ہے۔

جب کاروں میں ٹیپ ریکارڈر ہوتے تھے تو شوکت علی کی ایک کیسٹ ضرور ہوتی جو لاہور سے ملتان کے درمیان سفر میں ضرور چلتی تھی، (آج سے چند سال پہلے تک لاہور تا ملتان کا سفر کم ازکم 7 گھنٹوں کا ہوتا تھا)

ان کا گایا ہوا ہر گانا آج تک امر ہے جسے شاید ہی کوئی دوسرا گلوکار اسی انداز میں گا سکے گا، شوکت علی (مرحوم لکھتے ہوئے دل ڈوب جاتا ہے ) نے صوفیانہ کلام بھی ڈوب کر گایا، ”چھلہ“ کی گائیکی میں کمال ہی کر دیا، اکثر تنہائی میں سنتا ہوں، اس کے ایک شعر کی ادائیگی اتنی محبت سے کی کہ آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آ جاتے ہیں، ”پتر مٹھہرے میوے، اللہ سب نوں دیوے“

مرحوم اشفاق احمد نے کہا تھا کہ شوکت گاتا نہیں نہ ہی یہ گلوکارہے یہ تو گانے کا سادھو ہے، غزل ہو، گیت ہو، ماہیا ہو، سیف الملوک ہو، یہ سادھو اپنی دنیا میں الاپتا چلا جاتا ہے۔

ملی نغمے گائے تو قوم میں جذبہ حب الوطنی ایسا پیدا کیا کہ لہو ”ابالے“ مارنے لگتا ہے، معروف گلوکار مسعود رانا کے ساتھ ”ساتھیو، مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن“ ، ۔ ۔ گایا، معروف گلوکارہ ناہید اختر کے ساتھ ”اے پیارے لوگو سجدے میں جا کر مانگو دعا یہ خدا سے“ ۔ گایا، شازیہ کے ساتھ ”اپنا رستہ، اپنی منزل، اپنی دھوپ اور چھاؤں ایک گایا،“ اے ہم سفرو، ہم قدمو۔ تو زندہ تو ہم زندہ ” گایا، یہ ملی نغمے آج کی نئی نسل بھی سنے تو ان کا خون بھی جوش مارنے لگتا ہے اس کی وجہ ان کی حب الوطنی اور عقیدت تھی کہ شوکت علی نے ملی نغمے پاکستان کی محبت میں ڈوب کر گائے۔

فنکار کیا ہوتا یہ تو دنیا سے پوچھا جائے جہاں فنکاروں کے مجسمے بنتے ہیں، آرٹ سنٹر، آرٹ گیلریاں ان کے ناموں سے منسوب ہوتی ہیں ۔ ہمارے ہاں تو فنکار وقتی تفریح فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے، جس کو سنا، رقص دیکھا یا اداکاری کو سراہا اور بس۔ سنیما ہال، تھیٹر، کنسرٹ سے باہر نکلے تو کون سا فنکار، کہاں کا فن۔

شوکت علی نے بیماری کے آخری دنوں میں گلہ بھی کیا، میں اسے گلہ نہیں سمجھتا بلکہ یہ قوم اور حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ تھا جو شوکت علی نے بڑے خوبصورت انداز میں مارا، ایک کلپ میں موجودہ وزیراعظم عمران خان سے گلہ کرتے ہوئے کہا ”جو خود بھوکا ہو گا وہ دوسرے کو کیا دے گا، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ بہت شو کیے اور ان کو کروڑوں روپے اکٹھے کر کے دیے“ مگر عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد شوکت علی کو بھول گئے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان بیماری کی حالت میں شوکت علی کے گھر جاتے اور ان سے ہمدردی کے دو بول بولتے مگر بے حس لوگوں کو فن سے کوئی محبت نہیں ہوتی، عمران خان نے ملک کے بڑے بڑے تمام فنکاروں کو اپنے ”کاز“ کے لئے بھرپور استعمال کیا، ان بڑے فنکاروں نے اپنے عروج میں ثابت کیا کہ وہ نہ صرف بڑے فنکار ہیں بلکہ بڑی شخصیات بھی ہیں جن میں نصرت فتح علی خان، دلدار پرویز بھٹی، اے نیئر، شوکت علی شامل ہیں، ان شخصیات نے فلاحی ہسپتال کے لئے دنیا بھر میں کنسرٹ کیے اور چندہ جمع کیا لیکن عمران خان وزیراعظم بن کر بھی یہ ثابت نہیں کر سکے وہ ایک عظیم کھلاڑی اور فلاحی شخصیت ہیں۔

شوکت علی کی قدر حقیقت میں سندھ حکومت نے کی، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے میڈیا پر شوکت علی کی حالت بگڑنے کی خبر سن کر انہیں سندھ بلایا اور ان کو گمبٹ کے بہترین ہسپتال میں علاج کے لئے داخل کرا دیا جہاں لیور ٹرانسپلانٹ کا جدید ہسپتال سندھ حکومت نے بنایا ہے، وہاں میڈیکل بورڈ بنا جس نے تفصیلی معائنہ کیا اور کئی روز علاج کیا پھر میڈیکل بورڈ نے شوکت علی کی عمر اور طبی حالت کے پیش نظر لیور ٹرانسپلانٹ کرنے سے معذرت کر لی اور ایک تقریب میں ڈائریکٹر گمبٹ اور ڈاکٹروں نے شوکت علی کو خراج تحسین پیش کیا اور ان سے گانے کی فرمائش کی تو شوکت علی نے ’جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘ سنایا۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے فنکار دوستی کا مظاہرہ کیا، پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات ایم پی اے ندیم قریشی اور پیارے دوست صابر بخاری نے شوکت علی کو 3 لاکھ روپے دیے ، بعد میں لاکھوں روپے کا ایک اور چیک بھی دیا، مگر بہتر تھا کہ عثمان بزدار خود عظیم گلوکار کے گھر جاتے اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے، ایسے زندگی میں ایک بار ہی آتے ہیں، عمر کے آخری حصے میں چند لاکھ روپے فن کار کے لئے کوئی اتنا بڑا احسان نہیں ہوتا، جس نے ساری عمر ملک و  قوم کی خدمت اور عزت میں گزار دی ہو وہ عمر کے آخری حصے میں ریاست کی جانب سے اپنی قدر کی امید لگا بیٹھتا ہے، اس کو یہ بھی احساس کمتری بھی ہوتا ہے کہ شاید اب دنیا کو اس کی ضرورت نہیں رہی، یہ سب سے بڑی اذیت ہوتی جو ہم اپنے ہر بڑے فنکار کو دیتے ہیں۔

مر تو سب نے جانا ہے آج جو حکومت میں بیٹھے ہیں کیا پتہ کل ان کے جنازے کو کوئی کندھا دینے والا بھی نہ ہو کیونکہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا، شوکت علی ’کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولوں‘ گاتے ہوئے خود ہم سب سے بہت دور چلے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments