وفاقی ہایئر ایجوکیشن کمیشن کا بحران


ہایئر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان آج کل خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ وجہ یہ کہ ہفتہ دس دن قبل وفاقی حکومت نے کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ مئی 2018 میں اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈاکٹر بنوری کی تقرری کی تھی۔ ان کی نوکری کی چار سالہ مدت میعاد مئی 2022 میں ختم ہونا تھی۔ لیکن وفاقی حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی مدت ملازمت چار کے بجائے دو سال مقرر کی اور ڈاکٹر بنوری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔

ڈاکٹر بنوری نے بھی سندھ ہائی کورٹ کی راہ لی اور وہاں سے حکومتی نوٹیفیکیشن کے خلاف اسٹے آرڈر لے آئے۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ ڈاکٹر صاحب سندھ ہائی کورٹ سے اپنی بحالی کا حکم نامہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ عدالتی فیصلہ خواہ ڈاکٹر طارق بنوری کے حق میں آئے یا وفاقی حکومت کی حمایت میں، اس سے زیادہ فرق نہیں پڑنے والا۔ جو جگ ہنسائی ہونا تھی، وہ ہو چکی ہے۔ ادارے کی ساکھ اور مقام کو جو زک پہنچنا تھی، پہنچ چکی۔

وفاقی ہایئر ایجوکیشن کمیشن ایک ریگولیٹری ادارہ ہے۔ یہ ادارہ ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی نگرانی کرتا ہے، انہیں مقدور بھر امداد فراہم کرتا ہے، حکومت کو پالیسی سازی کے ضمن میں مشاورت اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ آدھی رات کو جاری ہونے والے ایک حکم نامے کے ذریعے کس آسانی کے ساتھ اس کے قانون اور سربراہ کو چٹکیوں میں اڑا دیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر بنوری سے متعلقہ حلقوں کو بہت سی شکایات تھیں۔ بیشتر وائس چانسلر صاحبان کو گلہ رہتا تھا کہ ان سے رابطہ رکھنا اور ملاقات کرنا نہایت دشوار ہو چکا ہے۔ میڈیا کو شکایت تھی کہ متعلقہ عملہ اور خود ڈاکٹر بنوری کمیشن کے مختلف معاملات سے متعلق معلومات دینے کے لئے دستیاب نہیں ہوتے۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد میں ڈاکٹر بنوری کی وضع کردہ بہت سی پالیسیوں کے بارے میں عدم اطمینان پایا جاتا تھا۔

برسوں سے جاری بی۔اے اور ایم۔ اے پروگراموں کو ختم کر دینا۔ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام شروع کرنا۔ بی۔ ایس کے بعد ڈاکٹریٹ کی اجازت دینا، یہ اور ایسے کئی معاملات پریشانی اور بے چینی پھیلانے کا باعث بنے۔ خود کمیشن کے ملازمین سراپا احتجاج تھے کہ ڈاکٹر بنوری ریٹائرڈ افراد کو بھاری بھرکم تنخواہوں پر بھرتی کر رہے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر ایسے افراد بھی بھرتی ہوئے جو فقط گریجویشن کی ڈگری کے حامل تھے۔

دوسری طرف ڈاکٹر طارق بنوری کا موقف ہے کہ ان پر حکومتی افراد کا بہت زیادہ دباؤ تھا۔ان کے کام میں مداخلت کی جاتی تھی۔ کچھ حکومتی شخصیات اپنی مرضی کے ناجائز کام کروا کر مالی فوائد سمیٹنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر بنوری یہ بھی بتاتے ہیں کہ انہیں دباؤ میں لانے کے لئے ہی ان کے خلاف نیب تحقیقات شروع کروائی گئیں۔ وہ دباؤ میں نہیں آئے تو ان سے استغفے طلب کیا گیا۔ انکار پر ایک صدارتی آردیننس کے ذریعے انہیں فارغ کر دیا گیا۔

ان تمام باتوں سے قطع نظر، پاکستان کی اعلیٰ تعلیم سے متعلق کمیشن کے سربراہ کو جس نامناسب طریقے سے عہدے سے فارغ کیا گیا اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ یہ روایت چل نکلی تو لٹھ لے کر کسی بھی ادارے کے سربراہ کو فارغ کرنا نہایت آسان ہو جائے گا۔ کم از کم تعلیم (خاص طور پر اعلیٰ تعلیم) کے شعبے کو ایسے فیصلوں سے پاک رکھنا نہایت ضروری ہے۔

اگر ڈاکٹر طارق بنوری کو خراب کارکردگی کی وجہ سے ہٹایا گیا ہے تو کیا دیگر تمام اداروں کے سربراہان بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ بہت سے سرکاری اداروں کی کارکردگی نہایت خراب ہے۔ بیشتر ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔ عوام کے ٹیکس کے اربوں روپے مہیا نہ ہوں تو ان اداروں کے سانسوں کی ڈور ٹوٹ جائے۔

اسی طرح ایسے وفاقی وزراء بھی ہیں، جن کی کارکردگی سے خود عمران خان مطمئن نہیں تو کیا ایک ایک کر کے ان سب سربراہان اور وزراء کو اسی طریقے سے عہدوں سے ہٹا دینا چاہیے؟ اگر اداروں کے سربراہان کو اسی طرح ہٹانے کا سلسلہ واقعتاً شروع ہو جائے، تب بھی اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اس روایت سے استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے۔ دکھاوے کے لئے ہی سہی، لیکن شعبہ تعلیم کی ساکھ اور وقار بہرحال قائم رہنی چاہیے۔

پہلے ہم نے اپنے پائیلٹوں کی ڈگریوں کو تحقیقات سے قبل جعلی قرار دے کر دنیا بھر میں اپنی قومی ایئر لائن پر پابندیاں لگوائیں۔ اپنے سیاست دانوں کو چور ڈاکو لٹیرے کہہ کر دنیا بھر میں پاکستانیوں پر بدعنوانی اور بے ایمانی کا ٹھپہ لگوایا۔ اب خود اپنے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے سربراہ کی تذلیل کر کے بدنامی کا سامان کیا ہے۔ بھارت ہمیشہ ایسی خبروں کی تاک میں رہتا ہے۔

اندازہ کیجیے کہ برطانیہ اور دیگر اہم ملکوں میں قائم اس کے سفارت خانے اس کام پر مامور ہیں کہ پاکستان کی اعلیٰ تعلیم سے متعلق منفی خبروں کو اکٹھا کر کے وہاں کے اہم اداروں تک پہنچائیں تاکہ پاکستانی نوجوان وہاں کی جامعات میں داخلے حاصل کر سکیں اور نہ انہیں وہاں کے اداروں میں نوکریاں مل سکیں۔ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے سربراہ اور وفاقی حکومت کے مابین ہونے والی رسہ کشی یقیناً بھارت کی توجہ کا باعث بنی ہو گی۔ وفاقی ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ کو ہٹانا مقصود تھا تو کوئی مناسب طریقہ کار اختیار کیا جا سکتا تھا۔ حکومتیں کمزور بھی ہوں تو لامحدود وسائل اور اختیارات کی حامل ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر بنوری کو استعفی کے لئے قائل کرنا حکومت کے لئے کچھ ایسا مشکل کام نہیں تھا۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود بھلے آدمی ہیں۔ اگر ڈاکٹر بنوری سے متعلق شکایات تھیں تو شفقت محمود انہیں آگاہ کر سکتے تھے۔ انہیں معاملات کی اصلاح احوال کی تلقین کر سکتے تھے۔ اگر کمیشن کے قانون میں ترمیم اس قدر ضروری تھی تو پارلیمنٹ میں زیر بحث لا کر یہ معاملہ حل کیا جا سکتا تھا۔

ایچ ای سی ایک نہایت اہم ادارہ ہے۔ اس کی ساکھ، وقار، اور مقام مستحکم رہنا چاہیے۔ 2002 میں ڈاکٹر عطاء الرحمان کی سربراہی میں اس ادارے نے نہایت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہزاروں افراد کو باہر پڑھنے کے لئے بھجوایا۔ جو پڑھ کر آئے انہیں نوکریوں کے حصول میں مدد دی۔ ڈاکٹر عطاءالرحمان کی قابلیت سے انکار نہیں۔ تاہم ان کی خوش بختی کہ انہیں بھاری بھرکم فنڈز اور لامحدود اختیارات حاصل تھے۔ وگرنہ مشرف دور کے بعد ، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسی ایچ ای سی کی حالت انتہائی دگرگوں تھی۔ فنڈز کی اس قدر کمی تھی کہ وہ نوجوان جو سکالر شپ پر مختلف ممالک میں زیر تعلیم تھے، فنڈز کی بندش کی وجہ سے ان ممالک میں بھیک مانگنے پر مجبور رہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں کمیشن کے حالات بہتر ہوئے۔ کمیشن کا بجٹ بڑھتے بڑھتے 112 ارب روپے تک جا پہنچا۔

اس بات کا ذکر نہیں ہو رہا۔ لیکن جامعات، وائس چانسلر صاحبان، اساتذہ اور طالب علموں کی ڈاکٹر بنوری سے ناراضگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کمیشن انہیں مناسب فنڈز مہیا کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ کمیشن نے جامعات کے فنڈز میں اچھی خاصی کٹوتی کی۔ مالی بحران اتنا بڑھا کہ بہت سی جامعات دیوالیہ ہونے کے دہانے پر جا پہنچیں۔ کمیشن بھی کیا کرے؟ جامعات کو دینے کے لئے فنڈز کہاں سے لائے؟ گزشتہ برسوں میں مہنگائی تو تیزی سے بڑھی، لیکن اعلیٰ تعلیم کا بجٹ بڑھنے کے بجائے گھٹتا چلا گیا۔

سال 2020۔ 21 کے لئے کمیشن نے وفاقی حکومت سے 105 ارب روپے کا تقاضا کیا تھا۔ لیکن حکومت نے کمیشن کو صرف 64 ارب روپے فراہم کیے ۔ پاکستانی روپے کی قدر و قیمت میں ہونے والی تقریباً 40 فیصد گراوٹ کے بعد ، ان 64 ارب روپوں کی قدر کا اندازہ لگا لیجیے۔ ایسی صورت میں جامعات کو علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے لئے مناسب فنڈز کہاں سے مہیا ہوں؟

اس سارے قضیے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اس وقت ہر جانب سے وفاقی حکومت پر کڑی تنقید ہو رہی ہے کہ اس نے کمیشن کے سربراہ کو غلط طریقے سے ہٹایا ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ اس سارے قصے میں صرف حکومت اور سیاست دانوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ سب راتوں رات ہرگز نہیں ہوا۔

پنجاب کے وزیر ہایئر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں نے درست کہا ہے کہ ”ہر طرح کے غلط کاموں کے لئے صرف سیاست دانوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ شعبہ تعلیم میں ایک مافیا اس کے لئے کافی عرصے سے کوشاں تھا اور آخر کار کامیاب رہا۔“

وزیر تعلیم کے اس بیان پر تبصرہ اگلے کسی کالم میں۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments