خودکشی کا رجحان کیوں؟


یونیورسٹی آف پنسلوینیا کی ایک تحقیق کے مطابق جتنا زیادہ وقت ہم سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں، اتنا ہی زیادہ ہم تنہا محسوس کر سکتے ہیں اور اداسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کا الٹا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا انسان کے اصل احساسات کے بارے میں بھی بتا سکتا ہے۔

اس تحقیق کی مصنف ملیسا ہنٹ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا عام طور پر معمول سے کم استعمال آپ کو تنہائی اور ڈپریشن میں کمی کی طرف لے کر جائے گا۔ یہ نتائج اور اثرات بطور خاص ان لوگوں کے بارے میں بتائے گئے جو اس تحقیق کا حصہ بنے اور بہت زیادہ ڈپریشن کا شکار تھے۔

سوشل میڈیا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ مشی گن یونیورسٹی میں علم نفسیات کے پروفیسر اوسکر یبارا کہتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر جو ہوتا ہے وہ کم ہی اصل زندگی کی عکاسی کرتا ہے، اگرچہ ہم اس میں مدد نہیں کر سکتے لیکن موازنہ کر سکتے ہیں‘ ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ سوشل میڈیا کے اثرات کے بارے میں پوری طرح آگاہ نہیں ہوتے کہ ایسا ہو رہا ہے لیکن یہ ہوتا ہے۔‘

حکومت سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی جانب سے ایک سمینار 25 مارچ کو منعقد کیا گیا۔ تقریب میں صوبہ سندھ میں پانچ برس کے دوران خودکشیوں کے حوالے سے ہوش ربا حقائق پیش کیے ۔ تحقیق کے مطابق 2016 تا 2020 تک کل 767 خود کشی کی کیس رپورٹ ہوئے۔ ڈسٹرکٹ تھرپارکر میں 79، بدین 77، دادو 73، میرپور خاص 70، سانگھڑ 66، عمر کوٹ 64، ٹنڈو اللہ یار 40، ٹنڈو محمد خان 33، نوشہرو فیروز 31، حیدرآباد 28، ڈسٹرکٹ ملیر 24، کراچی ویسٹ 19، کراچی ایسٹ 12، کراچی ساؤتھ 12، کراچی سینٹرل 08، شکار پور 23، شہید بے نظیر آباد 18، سجاول 18، جامشورو 14، ٹھٹہ 13، گھوٹکی 12، میٹیاری 10، جیکب آباد 07، قمبر شہداد کوٹ 05، خیر پور 04، لاڑکانہ 03، سکھر 03 اور کشمور میں ایک خودکشی کے واقعات رپورٹ ہوئے، ذرائع کے مطابق تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

جہاں عزت و غیرت کے نام پر قتل ہونے والے مبینہ واقعات کی پولیس میں رپورٹ نہیں کی جاتی۔ سندھ کے بیشتر اضلاع میں 462 مرد اور 301 خواتین نے خود کشیاں کیں۔ پانچ برس پر مشتمل تحیقیق کی رپورٹ کے مطابق 21 سے 30 برس کے درمیان خودکشی کرنے والوں کی تعداد 57.5 فی صد، جب کہ 31 سے 40 سال کے درمیان 24 فی صد، بتائی جاتی ہے۔ شادی شدہ افراد میں 33 فی صد افراد میں خود کشی کا رجحان زیادہ ہے۔ شہر کراچی میں 28.3 فی صد شادی شدہ جب کہ 21 فی صد غیر شادی شدہ افراد نے خود کشی کی۔

لاڑکانہ، سکھر، شہید بے نظیر آباد میں 50 فی صد شادی شدہ افراد نے خود کشیاں کیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہری علاقوں میں خودکشی کرنے کے رجحان میں اضافہ پایا جاتا ہے۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق صوبہ سندھ میں، پچھلے 5 برس میں 1300 سے زائد افراد نے اپنے ہی ہاتھوں زندگی کا خاتمہ کیا۔ عمرکوٹ، تھر اور میرپور خاص میں خودکشی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا، صرف عمر کوٹ، میرپور خاص اور تھر پارکر میں 646 واقعات رپورٹ کیے گئے، خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور خواتین کی ہے، پچھلے ایک سال میں ان تین اضلاع میں 160 افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ جب کہ دس سے 15 برس کی کم عمر بچوں کی 6.1 فیصد تعداد نے خود کشی کی۔

قابل غور امر یہ بھی ہے کہ معاشرے میں خودکشیوں کے رجحان کو سندھ کے دیہی علاقوں میں مذہب کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے، یا پھر غربت کو وجہ قرار دی جاتی ہے۔ ہمارے سامنے دنیا بھر میں کئی چونکا دینے والے ایسے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں کہ ایسی مشہور شخصیات نے بھی خود کشیاں کیں جن کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی نیز انہیں شہرت و احباب کی بڑی تعداد بھی میسر تھی، لیکن اس کے باوجود ڈیپریشن کی درست تشخیص نہ ہونے کے باعث انتہائی اقدام کے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح قدامت پسند معاشرے میں غیرت کے نام یا پھر فرسودہ رسم و رواج کے نام پر قتل کے متعدد واقعات کو مبینہ طور پر خود کشی سے جوڑ دیا جاتا ہے، انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ درست تفتیش نہ ہونے یا لاپروائی کے باعث ایسے کئی قتل کے واقعات کو مبینہ طور پر خود کشی قرار دے کر فائل بند کر دی جاتی ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی بھی بڑی تعداد خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، ماہر سماجیات کی رائے کے مطابق شادی کا فیصلہ کرتے وقت لڑکے اور لڑکی کی ذہنی و تعلیمی مطابقت کو نظرانداز کرتے ہوئے والدین اس خوف سے رشتے طے کر دیتے ہیں کہ کہیں اچھا رشتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔

میاں بیوی کے سماجی پس منظر، تعلیم، عمر اور سوچ میں فرق نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی خودکشی پر مائل کر دینے والے عوامل ہیں، جہیز کی لعنت سے متاثرہ لڑکیاں بھی خودکشی کرنے پر مجبور ہوتی دیکھی گئی ہیں، گزشتہ دنوں ایک نوجوان لڑکی نے اپنے سسرال والوں کی جانب سے جہیز کی مزید مانگ اور طعنوں سے تنگ آ کر خودکشی کی اور ویڈیو بنا کر معاشرے کے امتیازی و دوہرے معیار رویے کو بے نقاب کر دیا۔

ہراسانی اور گھریلو تشدد بھی دیگر محرک عوامل میں شامل ہیں جب کہ معاشی تنگی اور دیگر سماجی مسائل بعد کے عوامل ہوتے ہیں۔ آبرو ریزی اور جنسی ہراسانی سے بھی خود کشی کے کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ذہنی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان غیرمعمولی حالات میں ہی اپنی زندگی کے خاتمے جیسا انتہائی قدم اٹھاتا ہے۔

خودکشی کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن ہے، جس کی وجہ سے انسان خود کو بے بس اور بے یار و مددگار سمجھنے لگتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اب بہتری کی کوئی امید باقی نہیں رہی، تو مایوسی میں وہ اپنی زندگی ختم کر لیتا ہے۔ ماہرین ذہنی امراض کا کہنا ہے کہ جدید سماجی ڈھانچے کی بدولت لوگوں پر دباؤ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن، معاشرے نے اس دباؤ کو ختم یا کم کرنے کے لیے مدد کا کوئی نظام نہیں بنایا۔

سماجی طور پر کوئی مدد دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خودکشی جیسا قدم اٹھاتے ہیں۔ ماہرین اس خیال سے بھی متفق نہیں ہیں کہ خودکشی کرنے والے لوگوں کی اکثریت نے غربت کی وجہ سے اپنی جان لی، عمومی طور پر بنیادی وجوہ میں مرد کا اپنے مسائل کے بارے میں کم بات کرنا قرار دیا جاتا ہے، ماہرین ضروری خیال کرتے ہیں کہ مردوں کو اپنے مسائل سے متعلق زیادہ بات کرنے کی عادت کو اپنانا چاہیے۔ کسی بھی مرد و عورت کا ڈپریشن کا شکار ہو کر موت کی جانب رجحان پر مائل ہونا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کا اثر انسان کی ذہنی صحت پر ہو سکتا ہے۔

آکسفورڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مردوں کے لیے تہنائی سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے، تنہائی، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ انسانی رویے پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرد اپنے اندر کی گھٹن سے چھٹکارا نہیں پاتے، بچپن سے انہیں رونے سے بھی مرد کہہ کر منع کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے گھٹن ان کے اندر ہی رہ جاتی ہے، اور وہ تنہائی محسوس کرتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کہ رونے کے عمل سے انسان ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔

پاکستان ہی نہیں، بلکہ امریکا، برطانیہ اور یورپ تک میں لڑکوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مرد نہیں روتے، یہ کم زوری کی علامت ہے، جس کا بعد میں ان کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ماہرین نے ڈپریشن کی ایک اور وجہ بھی معلوم کی ہے، کہ مرد عموماً یہ سوچتے ہیں کہ انہیں گھر کے سرپرست کی حیثیت سے کمانا ہے اور زیادہ کمانا ہے، معاشی ذمہ داری کا یہ بوجھ اور معاشی طور پر کام یاب بننے کی تگ و دو ذہنی صحت کا مسئلہ بن سکتا ہے، اسی طرح بے روزگاری بھی ایک وجہ ہے۔

ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ بعض نوجوان اپنی جسمانی ساخت کو لے کر بہت زیادہ حساس ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ ڈپریشن کی طرف چلے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال 10 لاکھ انسان خود کشی کرتے ہیں۔ خود کشی کی یہ شرح فی ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے، اس حساب سے ہر 40 سیکنڈ میں دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں ایک مرد خودکشی کرتا ہے۔

یہ ریاست کے ساتھ ساتھ نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین یا گھروں میں عائلی مسائل کا اجتماعی مسئلہ ہے، خود کشی ایک بڑا انتہائی اقدام ہے جس کے اثرات سے اس شخصیت کا پورا خاندان براہ راست متاثر ہو جاتا ہے اور آنے والی نسل میں خودکشی کے رجحان کو تقویت ملتی ہے۔

سندھ حکومت نے دیہی و شہری علاقوں میں خودکشی کے بڑھتے واقعات کے نتیجے میں آگاہی کی فراہمی کے لئے ایک مثبت عمل کا آغاز کیا ہے، سماجی طور پر اہمیت رکھنے والی شخصیات نے ذمہ داریوں کے تعین اور سدباب کے لئے لائحہ عمل پر مشاورتی عمل کا آغاز کیا ہوا ہے، تاہم سرکاری اداروں کا ہر فرد یا اس کے گھر پہنچنا ممکن نہیں ہو سکتا ، اس کے لئے معاشرے کے ہر فرد کو انفرادی فرض سمجھ کر ذمہ داری اٹھانا ہو گی اور ڈپریشن کے شکار افراد کو معاشرے کا اہم فرد قرار دے کر، سماجی ذمہ داری کو نبھانا ہو گا۔

ہم ریاست یا حکومت پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے، لیکن حکومت کو ایسے اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے جس کے باعث معاشرے میں ناہمواری کم ہو ،  مختلف حالات کے سدباب کے لئے ان اداروں کے مالکان بھی ملازمین کے مسائل کو دیکھیں، انہیں دباؤ کے حوالے کرنے کے بجائے ایک ایسا ماحول فراہم کریں جس سے وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ترقی کی منازل بھی طے کریں اور درپیش مسائل کو اپنے احباب کے ساتھ شیئر کرنے میں تامل یا بہانے تراشنے سے گریز کریں تاکہ وہ خود کشی کے انتہائی اقدام کا سوچنے سے بھی گریز کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments