”بے سمتی کے دن“ کی بے چہرگی


مجھے کیا معلوم تھا کہ آج صبح جب میں ”بے سمتی کے دن“ کھولوں گا تو ایک جہان حیرت میں غرق ہو جاؤں گا۔ آج کی صبح کا منظر بہت جان لیوا تھا۔ ہلکی ہلکی بوندیں گر رہی تھیں اور نیو ہاسٹل کے لان میں لگے پام کے درخت رقصاں تھے۔ بادلوں نے سایہ کر رکھا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے اپریل کی گرماہٹ کو زیر کر رکھا تھا۔ ایسے میں عرفان شہود کی آزاد نظموں کی پہلی کتاب ”بے سمتی کے دن“ پڑھنے کو جی مچل اٹھا۔

یہ کتاب گزشتہ دو ماہ سے میرے سرہانے پڑی ہے، مگر کبھی ہمت نہ ہوئی کہ دو تین نظموں سے زیادہ پڑھ سکوں۔ ان نظموں کو پڑھنا جتنا آسان ہے ہضم کرنا اتنا ہی کٹھن ہے۔ یقیناً انہیں پڑھنے کے لیے ایسا ہی موسم درکار تھا جیسا آج صبح تھا۔

ایک سیلانی جس نے دستیاب کرۂ ارض کا کونہ کونہ چھان رکھا ہو، زنگہ، سرنا، سروز، میر دوستین ہوتھ، صحرائے نوشکی، دوچ اور شال سے جڑی قدیم داستانیں اور رزمیہ کہانیاں پڑھ رکھی ہوں۔ جو اردن کے قدیم سرخ چٹانوں کے تاریخی شہر پیٹرا، اٹلی کے شہوت زدہ جزیرے کیپری اور کنعان کے سامی النسل قبائل سے واقف ہو۔ جو ہومر کے ترانوں اور لیودہ کے نوحوں کو سن چکا ہو۔ جس نے یمن کے سرسبز و شاداب شہر سبا کی تروتازگی اور وادی کشمیر میں مٹر کے کھلونوں سے پھیلی تباہی و تاریکی کا تخیلاتی مشاہدہ کر رکھا ہو، اسے پڑھنا اور اس کے لکھے کو پردۂ بصارت میں دیکھنا بہت جاں گسل ہے۔

 

باون آزاد نظموں پہ مشتمل یہ کتاب اپنے اندر ایک جہان سموئے ہوئے ہے۔ جہاں کہیں آپ کو عورتوں پہ ڈھائے گئے مظالم کے نوحے ملیں گے تو کہیں بلوچستان کے دورافتادہ علاقوں کی خشک سالی کے قصے، کہیں کوئے خموشاں و منار خموشاں کے فسانے ملیں گے تو کہیں بہتے دوڑتے سنتو کے گیت، کہیں نتیش کی محبت میں جنگ سے خوفزدہ ہونے کا عنصر نمایاں ہو گا تو کہیں ہماری پیاری بھتیجی مشعال فاطمہ کے لمس کی واشنا محسوس ہو گی۔ کہیں اقلیمیا کی سرمئی چوڑیوں کا پڑھ کر انسان ہابیل کے دکھ میں مبتلا ہوتا ہے تو کہیں ردالی پہ بلائی گئی پیشہ ور نوحہ گر عورتوں کا ذکر پڑھ کر بے شناخت میت کا گریہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔

آزاد نظم کو لمس، احساس، معنویت، اظہار اور ابلاغ کے نئی معانی سے متعارف کرواتا یہ شخص جانے انجانے میں حواس خمسہ پہ طاری ہوتا جاتا ہے۔ ایک ایسا سرور اور کیف اس کی نظموں میں جا بجا پھیلا ہوا دکھتا ہے جو عہد حاضر کے دیگر تخلیق کاروں میں خال خال نظر آتا ہے۔ گو کہ دوسرے تخلیق کاروں کا اپنا مقام و مرتبہ ہو گا اور اس مرتبے کے لیے ان کے پاس ٹھوس وجوہات اور تخلیق کاری بھی ہو گی مگر عرفان شہود کو آزاد نظم نگاری میں ایک منفرد مقام اور یکتائی حاصل ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس کی سیلانی روح ہے، جو اسے بھٹکاتی بھی ہے اور سیدھی راہ بھی لگاتی ہے، ہر وقت اسے نئی کھوج میں غلطاں رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی کوہ سلیماں و دیگر پربتوں سے نروان حاصل کرتا ہے تو کبھی جھیلوں اور دیگر قدرتی مناظر سے فطرت کشید کرتا ہے اور پھر اسے قرطاس پہ انڈیل دیتا ہے۔

گو کہ عرفان شہود میرا دوست بھی ہے اور بڑا بھائی بھی مگر میں نے اسے کبھی ایسا نہیں پایا جیسا وہ ان نظموں یا اس سے پہلے اپنے سفرانچوں میں نظر آیا۔ یہ حقیقت اب مجھ پہ وا ہوئی ہے کہ اس کے پاس دل نہیں درد کا ایک پیالہ ہے، جو دنیا میں کہیں بھی ہونے والے جبر اور ظلم کے خلاف ابلنے لگتا ہے۔ اپنی نظم ”مخنث“ میں یہ تیسری جنس کی نمائندگی یوں کرتا ہے کہ:

یہ نقص بھی عجیب ہے کہ دن کی روشنی گواہیوں سے منحرف ہوئی
یہ منصفوں کی رات میں، قبول تھے، قبول ہیں
شفیق ماؤں کی گداز پرسکون چھاتیاں، نہ باپ کی وہ جھڑکیاں
کھلی ہیں پوہ رات میں یہ بے بسی کی کھڑکیاں
خدائی آیتوں میں یہ ہنوز بے نشان ہیں
یہ بانیاں گرو کی گنگناہٹوں سے دور ہیں
یہ بے حیائی سے لدے ہوئے کثیف غول ہیں؟
یہ بانجھ زندگی کے قافلے ہیں کس قطار میں؟
یہ آبشار بھی اگر ہے پربتوں کی کوکھ سے
نہیں ہے کیوں کسی بھی دھار میں؟
کسی شمار میں؟

کہیں جبر کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے نام اٹلی کے مزدوروں کا مزاحمتی گیت گاتا ہے تو کہیں اپنے دفتر میں خوشامدی ٹولوں اور بڑوں کی بے رخی کا گلہ کرتا ہے۔ کہیں کورونا کی پھیلائی وحشت اور موت پہ سراسیمگی کا شکار نظر آتا ہے تو کہیں اچانک شاہراہ ریشم پہ قدرت کے حسن کے گن گانے لگتا ہے۔ اگلے ہی سمے چنیوٹ کی اس بے گناہ لڑکی کا راگ الاپنے لگتا ہے جسے اٹھارہ سال بے جرم سزا کاٹنی پڑی۔ پھر ماورائی حد بندیوں پہ کڑھتا ہے تو اگلے ہی لمحے خود لذتی اور نسوانی حسن کا اسیر نظر آتا ہے۔

کہیں کسی پری وش کے پاؤں کا حسن بیان کرتا ہے تو کہیں پہلی ملاقات اور کسی کی سماعت کا رزق ملنے پر لڈیاں ڈالتا نظر آتا ہے۔ ہائے میرا دوست کتنا خوبصورت اور پیارا ہے۔ پیار، محبت، درد اور انسانیت کی دولت سے مالامال۔ معصوم سا، خدائی اوصاف کا اوتار۔ دیکھیے اس نے سوارہ میں مظلوم لڑکیوں کا گریہ کیسے قلم بند کیا:

ہم ایسے ریوڑوں کا پاسبان،
یہ سماج ہے
ہم ایسی باندیوں کا کوئی کل نہیں،
نہ آج ہے
ابلتے موسموں کا کوئی داج ہے
خراج ہے، جو دے رہی ہیں ہم ازل سے ناخداؤں کو
ہمارے سر پہ جو سوار ہیں
وہ پیٹھ پہ خطا کے مرتکب ہوئے
ہماری چھاتیوں کی عظمتوں کے جو امین ہیں
بڑے منافقین ہیں

سماج کو، سماج کی برائیوں کو، جنسیات کو، ظالموں کو، حق مارنے والوں کو اور جنگ کے شوقین لوگوں کو یوں کھلے عام چیلنج کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ یہاں تک کہ امر جلیل نے اپنے افسانے میں خدا کے ساتھ جو کچھ کیا وہی کچھ اس نے ”کسی دن سڑک پر“ کے عنوان سے ایک نظم میں کر دیا ہے مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ پڑھے کون اور پھر اس سے بھی بڑھ کر اسے سمجھے کون۔ ایسی حساس اور بیک وقت چونچل طبعیت کا مالک ہے ہمارا دوست۔ آپ اسے پڑھتے جائیں گے اور سر دھنتے چلے جائیں گے۔

اگر تصدق حسین خالد کو کسی طور یہ نظمیں پڑھنے کو مل جائیں تو وہ بھی جھوم اٹھے گا کہ آزاد نظم ارتقاء کی اس منزل تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ ”بے سمتی کے دن“ نے اپنا لوہا منوایا ہے اور منوا رہی ہے۔ بلاشبہ یہ آزاد نظم کے دیوان میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔

ایک سو اکتیس صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت کتاب صریر پبلیکیشنز نے چھاپی ہے۔ اردو ادب اور شاعری سے شغف رکھنے والوں کو ضرور اس کتاب کو اپنی لائبریری کا حصہ بنانا چاہیے۔ یہ ایک بیش قیمت کتاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments