سلیم سہیل کے مضامین کا مجموعہ ’حرفِ حیرت‘


سلیم سہیل ہمارے عہد کے ان چند نقادوں میں آتے ہیں جنہوں نے تنقید کو محض لفظوں کی جگالی نہیں سمجھا اور نہ ہی مکھی پر مکھی ماری بلکہ اپنے لیے الگ راستے کا انتخاب کیا ، یہی وجہ ہے کہ سلیم سہیل نے کم لکھا مگر معیار پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔ جس فن پارے پر بات کی، انتہائی ذمہ داری سے کی اور تنقید کو ایک سنجیدہ عمل کے طور پر لیا۔ ورنہ ہمارے ہاں نقادوں کی تعداد بھی اتنی ہی تیزی سے بڑھ رہی ہے جتنی تیزی سے شاعروں کی۔

پہلے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاعر بہت ہو گئے ہیں ، اب ہم یہی بات ناقدین کے بارے میں کہتے ہیں۔ تنقید ایک مشکل میدان ہے، نقاد کا پہلا کام یہ ہے کہ اس نے جو کچھ سنا یا پڑھا ، اس کو بغیر بدلے ہوئے اس کی ترکیب کا تجزیہ کر سکے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اصل کارنامہ تو تخلیق کار کا ہوتا ہے جس نے ایک فن پارہ تخلیق کیا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود نقاد کی حیثیت مسلم ہے۔ اگر نقاد میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ تخلیق کی اندرونی کائنات اور بیرونی ہیئت کا تجزیہ کر کے اس کو ازسر نو ویسی ہی شکل دے سکے جیسی کے تخلیق کار نے دی تھی تو وہ نقاد کا حقیقی فرض ادا کرنے سے قاصر ہے۔

نقاد کے لیے بھی کائنات اور انسانی زندگی کا مطالعہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا ایک تخلیق کار کے لیے، ورنہ نقاد کبھی فن پارے کی اندرونی اور بیرونی پرتوں کو نہیں کھول سکے گا۔ سلیم سہیل کا شمار بلاشبہ ان گنے چنے نقادوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تنقید میں ایمان داری سے کام لیا اور ذاتی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہو کر محض فن پارے کو اہمیت دی۔

سلیم سہیل نے تنقید کے قاری کو کسی گنجلک تھیوری میں نہیں الجھایا بلکہ انتہائی سادہ انداز میں فن پارے کو پرکھا اور اسے بالکل نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی۔ میں خود بھی ادب اور تنقید کا ایک ادنیٰ سا قاری ہوں اور میں کسی تنقیدی تھیوری کا انکار بھی نہیں کر رہا مگر مجھے سلیم سہیل کے ایک جملے نے اپنی جانب متوجہ ضرور کیا۔

اپنے تنقیدی مضمون ”رہائی“ (جو حسن منظر کے لگ بھگ پینتیس برس پرانے افسانے پر لکھا گیا مضمون ہے ) میں کچھ یوں فرمایا ”آج کل ادب میں مشینی ایجادات کے ساتھ ساتھ نئی نئی تھیوریوں کی آمد آمد ہے۔ مشینی ایجادات کے کارآمد یا بے کار ہونے کا تو مجھے علم نہیں البتہ تنقید کی یہ نت نئی نظری بنیادیں، تخلیق کی بچی کھچی تاثیر (ختم تو خیر کیا کریں گی) کم ضرور کر دیں گے“ ۔

اسی مضمون میں ایک جگہ لکھا کہ ”تنقیدی تھیوریوں کے معمار اپنی تحریروں میں انسانی زندگی کے تضادات تو بہت بیان کرتے ہیں مگر افسوس کہ وہ تضادات سماجیات کی معاشیات سے اخذ کرتے ہیں، ادب سے ہرگز نہیں“ ۔

یہاں سلیم سہیل نے جس قسم کے نقادوں کا رگڑا لگانے کی کوشش کی ، وہ یقیناً ایک الگ بحث ہے مگر میرا خیال ہے کہ تنقیدی تھیوریوں کی حیثیت بھی مسلم ہے اور نئی تھیوریاں ہمیں فن پارے کے نئے زاویوں سے پرکھنے کا پیغام دیتی ہیں۔ باقی سلیم سہیل نے فن پارے کو پرکھنے کا اپنا ایک پیمانہ مقرر کیا ، لہٰذا وہ اسے تھیوری کی بنیاد پر پرکھیں یا ادب سے انسانی زندگی کے تضادات اخذ کریں ، یہ بات واضح ہے کہ سلیم سہیل کی تنقیدی تحریروں میں ایک خاص طلسم ہے جو قاری کو اپنے سے دور نہیں جانے دیتا۔

میں ان دنوں سلیم سہیل کی تازہ تنقیدی کتاب ”حرفِ حیرت“ پڑھنے میں مصروف ہوں اور اس کتاب میں ہر مضمون نے مجھے حیرت کے سفر پر روانہ کیا۔ انتہائی خوبصورت اور کاٹ دار جملے، سادہ اور زندہ رہنے والا اسلوب، انسانی زندگی کے مطالعے سے بھرپور تنقیدی رویہ، تخلیق اور تخلیق کار کی کائنات کا بیک وقت مطالعہ، فن پارے کی اندرونی اور بیرونی کائنات کی تفہیم سلیم سہیل کے مضامین کا خاصہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب ”حرفِ حیرت“ کا مطالعہ شروع کیا تو ایک نشست میں کئی مضامین پڑھ ڈالے ، کچھ مضامین ایک سے زیادہ بار بھی پڑھے اور لطف لیا۔ جیسا کہ اسد محمد خان کے افسانے ”باسودے کی مریم“ ، اقبال کے ”جاوید نامہ“ اور نیر مسعود کے افسانے ”مراسلہ“ پر مضامین انتہائی جاندار ہیں۔

”حرفِ حیرت“ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں نہ صرف اہم ترین فکشن لکھنے والوں کو موضوع بنایا گیا بلکہ شاعری میں میر ، غالب، اقبال ، مجید امجد اور احمد مشتاق کی شاعری پر بھی تنقیدی تحریروں نے حیرت میں ڈال دیا۔ اسی طرح معاصر اردو تنقید سمیت ادبی اور تنقیدی تحریکوں پر مضامین بھی اپنی جگہ بہت اہم ہیں۔ مشرقی ادب کے ساتھ ساتھ مغربی نقادوں کی تحریروں‘ کتب اور فن پاروں کا جائزہ ، نوبل انعام یافتگان کی تحریروں کا تنقیدی جائزہ، قدیم ہسپانوی ناول اور بالخصوص ترجمے کی روایت پر مضامین بھی قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہیں۔

سلیم الرحمٰن کے ترجموں پر مضمون بھی ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے، ایک شاگرد کے قلم سے استاد کے لیے اتنا اچھا مضمون سلیم سہیل ہی لکھ سکتے تھے۔

اب یہاں سوال یہ ہے کہ سلیم سہیل اگر ایک بہترین نقاد ہیں تو انہیں ہمیشہ نظر انداز کیوں کیا گیا تو اس کا جواب سادہ سا ہے کہ سلیم سہیل کے پاس کوئی مضبوط لابی نہیں تھی کیونکہ موجودہ ادبی صورت حال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ کانفرنسیں ہوں یا مشاعرے ، اگر آپ کی لابی اور آپ کا گروپ مضبوط نہیں تو آپ کی ادب حلقوں میں کوئی جگہ نہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ سلیم سہیل میری طرح منہ پھٹ اور سیدھا انسان ہے۔ اس کو منافقت، چاپلوسی ، خوشامد اور جی حضوری نہیں آتی۔ سلیم سہیل کا خیال ہے کہ تخلیق کار اپنی تخلیق سے ، نقاد اپنی تنقیدی تحریر سے اور شاعر محض اپنی شاعری سے پہچانا جانا چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کانفرنسوں کے لیے کسی کا سہارا نہیں لیا۔ بندوق کسی دوسرے کے کندھے پر رکھ کر نہیں اٹھائی اور ہمیشہ قلم کی طاقت کو اہم سمجھا حالانکہ سلیم سہیل اس معاملے میں غلط ہے۔ قلم کی طاقت اہم ہو گی مگر تعلقات اور لابیوں کی اہمیت زیادہ ہو چکی ہے۔

میرا خیال ہے کہ ادب یا تنقید کے ہر سنجیدہ قاری اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو ایک بار ”حرفِ حیرت“ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ انہیں ایک بہترین نقاد کی خوبیوں کا اندازہ ہو سکے اور انہیں پتا چلے کہ تنقید ایسے بھی لکھی جا سکتی ہے۔

میں اپنے سینئر دوست ڈاکٹر سلیم سہیل کو نئے تنقیدی مجموعے ”حرفِ حیرت“ پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے لاک ڈاؤن میں اتنی خوبصورت کتاب پڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ جو دوست کتاب خریدنا چاہتے ہیں وہ القمر انٹر پرائزز ’غزنی سٹریٹ اردو بازار رابطہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments