روزنامہ امت کی شرمناک حرکت


کچھ دنوں سے ایک اہم تاریخی واقعہ کی تحقیق میں لگا ہوا تھا کہ میرے ایک دوست نے میری توجہ ایک خبر کی جانب مبذول کی۔ وہ خبر اخبار ”روزنامہ امت کراچی“ میں 5 اپریل 2021 کو شائع ہوئی تھی۔ اور خبر تھی بھی اخبار کے فرنٹ پیج پر مین ہیڈلائن کے اوپر لیکن لکھا ہوا بھی بڑا بڑا تھا اسے۔ خبر تھی:

” 14 ملکوں میں سب سے زیادہ عورتوں سے زیادتی ہوتی ہے۔“
لیکن اس کے نیچے انتہائی شرمناک عبارت تھی۔ وہ عبارت تھی:
”عورت مارچ کی رنڈیوں کو یہ غیر مسلم ممالک نظر نہیں آتے۔“

اب یہ اخبار چار شہروں سے نکالتا ہے۔ کراچی، حیدرآباد، راولپنڈی اور پشاور۔ میں نے سوچا باقی شہروں کے اخبار بھی دیکھ لوں کیونکہ کئی بار ہوتا ہے کہ مختلف شہروں سے نکلنے والے ایک ہی اخبار کی خبر میں فرق ہوتا ہے۔ جب ان کی ویب سائٹ پر جا کر میں نے دیکھا تو یہ خبر پشاور، حیدرآباد اور راولپنڈی کے اخبار میں بھی آئی تھی۔ یہ ایک انتہائی فحش اور گھٹیا حرکت ہے۔

لفظ ”رنڈی“ عرف میں ایک انتہائی غلیظ گالی ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے لفظ ”SLUT“ استعمال ہوتا ہے۔ رنڈی ایک ایسی عورت کو کہا جاتا جو خراب کردار کی حامل ہو، جس کا چال چلن ٹھیک نہ ہو اور اس کے متعلق یہ بات حد تواتر کو پہنچ جائے کہ یہ عورت شریف نہیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی عورت کو رنڈی کہنا سیدھا اس کے کردار پر حملہ کرنا ہے یا اس کو عیب لگانا ہے۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں :

” اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، تو ان کو اسی کوڑے لگاو، اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود فاسق ہیں۔“ ( آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی مدظلہ، سورۃ نور، سورۃ 24، پارہ 18، صفحہ 687۔ 688، آیت 4 ) ۔

اس آیت کے تحت مفتی تقی عثمانی مد ظلہ نیچے حاشیہ میں لکھتے ہیں :

”جس طرح زنا ایک انتہائی گھناؤنا جرم ہے اور اس پر سزا بھی بڑی سخت رکھی گئی ہے، اسی طرح کسی بے گناہ پر زنا کی جھوٹی تہمت لگانے کو بھی نہایت سنگین جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سزا اسی کوڑے مقرر کی گی ہے۔ اس کو اصطلاح میں“ حد قذف ”کہا جاتا ہے۔“

اور اوپر جو آیا کہ ”اس کی گواہی کبھی قبول نہ کرو“ اس کے تحت مفتی تقی عثمانی مدظلہ لکھتے :
”یہ بھی جھوٹی تہمت کی سزا کا ایک حصہ ہے کہ ایسی تہمت لگانے والے کی گواہی کسی بھی مقدمے میں قبول نہیں کی جائے گی۔“

اس سے پتہ چلا کہ کسی عورت پر تہمت لگانا اسلام کی نظر میں انتہائی قبیح جرم ہے اور ایسا کرنے والے پر حد جاری ہوگی۔

اب میں پوچھتا ہوں ”روزنامہ امت“ کے ایڈیٹر سے کہ کیا آپ نے یہ آیت نہیں پڑھی تھی؟ کسی عورت کو رنڈی کہنا اس پر تہمت نہیں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ آپ ایک روزنامہ کے ایڈیٹر ہیں۔ یہ روزنامہ عورتیں اور بچے دونوں پڑھے گے کیا اثر پڑھے گا اس کا ان پر۔ اگر عورت مارچ والی خواتین نے آپ کے خلاف کسی شرعی عدالت میں مقدمہ کر دیا تو کیا آپ کے پاس ہیں چار گواہ؟ کیا آپ نہیں جانتے اگر آپ چار گواہ پیش نہ کرسکے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ کوڑے لگیں گے وہ تو الگ لیکن تا وفات گواہی دینے کے اہل نہیں رہیں گے اور قرآن ایسے لوگوں کو فاسق قرار دے رہا ہے۔ لیکن آپ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اگے جا کر بھی یہ لفظ استعمال کیا 3 بار۔ شرم آنی چاہیے اپ کو۔ عورت مارچ پر مجھے بھی تحفظات ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں میں تہمتوں پر اتر آوں۔

اوپر سے ظلم یہ ہے کہ اس خبر کو بیان کرنے سے پہلے ایک مشہور تاریخی واقعہ بیان کیا گیا۔ واقعہ ہے جلیل القدر حنفی فقیہ امام علا الدین سمرقندی رحمہ اللہ کا۔ انہوں نے ایک کتاب لکھی ”تحفتہ الفقہا“ جو آج تک متداول ہے۔ امام سمرقندی نے یہ کتاب لکھ کر اعلان کیا کہ جو شخص بھی میری اس کتاب کا جواب یا شرح لکھے گا میں اپنی بیٹی فاطمہ رحمہا اللہ ( جو کہ خود بھی اپنے والد کی طرح عالمہ تھیں اور فتوی دینے میں والد کی مدد کرتی تھیں ) کا نکاح اس سے کردوں گا۔

یہ پیشکش انہی کے شاگرد خاص امام کاسانی رحمہ اللہ نے قبول کی اور ”بدائع الصنائع“ کے نام سے شرح لکھی جس کے بارے میں امام ابن عابدین رحمہ اللہ ( جو علامہ شامی کے نام سے مشہور ہیں اور متاخرین احناف میں ان کے پائے کا کوئی عالم نہیں ) کہتے کہ میں نے اس سے بہتر کوئی کتاب حنفی فقہ میں نہیں دیکھی۔ امام سمرقندی نے جب اس کتاب کو دیکھا تو انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح امام کاسانی سے کر دیا۔ دونوں میاں بیوی درس بھی دیتے تھے اور فتوی بھی۔

لیکن لگتا ہے کہ ایڈیٹر صاحب یا ان کی ٹیم نے صرف بدائع الصنائع لکھنے کا سبب پڑھا ہے کتاب کو پڑھا نہیں۔ کیونکہ اگر وہ پڑھ لیتے تو ایسی بات ہرگز نہ لکھتے جو اپنے اخبار میں انہوں نے لکھی۔ کیونکہ جس بدائع الصنائع کی وجہ سے امام کاسانی اپنے استاد کی بیٹی کے شوہر بنے اس بدائع الصنائع کی جلد 7 صفحہ 63 پر امام کاسانی لکھتے ہیں :

”لان حد القذف حق العبد“ یعنی ”حد قذف بندے کا حق ہے۔“

تو اگر عورت مارچ کی کوئی خاتون امام کاسانی کی عدالت میں مقدمہ دائر کرتی تو امام کاسانی لازمہ حد جاری کر دیتے۔ روزنامہ امت والو کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ امام کاسانی زندہ نہیں ہیں۔ مجھے امید ہے اس پر ضرور غور ہو گا۔

نوٹ:یہ تحریر بیشک ”روزنامہ امت“ کی خبر پر ہے لیکن آج کل کے تمام مرد و زن بھی اسے پڑھیں کیونکہ عمل میں دونوں برابر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments