تحقیق کی ایک غلطی پر معذرت


\"mujahid\"میرا ایک مضمون بعنوان ’مذہب کی مخالفت کیوں؟‘ گذشتہ ہفتے ’ہم سب‘ میں شائع ہوا تھا جس میں میں نے اعتراف کیا تھا کہ کارل مارکس سے منسوب ایک بیان نے مجھے چونکا دیا۔ یہ بیان یوں تھا ”اپنی زندگی کو داو پر لگاتے ہوئے انہوں نے بت پرستوں کو ایک خدا کی عبادت کی دعوت دی تھی اور ایک ابدی زندگی کی نوید سنانا شروع کی تھی۔ انہیں تاریخ انسانیت کی عظیم ہستیوں میں شمار نہ کرنا نا انصافی ہوگی۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کی رسالت کو اور اس بات کو کہ وہ زمین پر بھیجے گئے اللہ کے نبی ہیں، تسلیم کریں“۔
میں نے چونکنے کا ذکر اس لیے کیا تھا کہ عرصہ ہوا مارکس کی بہت سی تحریریں زیر مطالعہ رہی تھیں مگر مذہب اور خصوصاً پیغمبروں اور وہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ان کی کہی یا لکھی کوئی ایسی بات نگاہ سے نہیں گذری تھی۔
مجھ سے پہلی بار غلطی ہو گئی کہ میں نے روس کے مفتیوں کی کونسل کی ویب سائٹ اسلام ڈاٹ آر یو سے لیے گئے ان مقولات میں سے ایک کو اپنے مضمون کا موضوع بنا لیا تھا جو مجھے میرے دفتر والوں نے ترجمہ کرنے کی خاطر دیے تھے۔ اگر میں تھوڑی سی تحقیق کر لیتا تو سبکی نہ ہوتی۔
سب سے پہلے دانشور اور ٹریڈ یونین کارکن شمعون سلیم نے اس کا حوالہ مانگا اور پھر ’ہم سب‘ پر محمد سرور بوٹا صاحب نے ایسا تقاضا کیا۔ میرا ہر دو کو جواب تھا چونکہ یہ ویب سائٹ ایک موقر تنظیم کی ہے اور یہ تنظیم صدر روس کی انتظامیہ کے زیر نگرانی ہے، اس لیے غلطی کا احتمال شاید ممکن نہ ہو۔
پھر میرے ذہن میں یہ بھی تھا کہ مارکسزم کے مقلد کارل مارکس کو ’نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب‘ کی رو سے ’برگذیدہ‘بھی خیال کرتے ہیں چنانچہ مقلدین کے لیے رہنما سے منسوب غلط بات ضعیف و غیر مستند حدیث کی مانند ہو سکتی ہے جس کی نفی کی جاتی ہے یا کم از کم دل ضرور دکھتا ہے۔
میں غلط تھا۔ غلطی میری اپنی تھی کہ میں نے تحقیق نہیں کی۔ تھوڑی سی محنت کے بعد حسام عیتانی کا مصر کے اخبار \”الحیات\” میں 28 ستمبر 2012 کو شائع شدہ انگریزی زبان میں لکھا مضمون بعنوان :” مارکس، ایک اسلامی مفکر“ مل گیا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ یہ گھڑا ہوا قول 23 ستمبر 2012 کو مصر کے ایک ثقافتی رسالے \”اخبار الادب\” میں شائع ہوا تھا تاکہ پیغمبر اسلام کی زندگی سے متعلق غلط انداز میں بنائی گئی کسی مذموم فلم کی مذمت کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کا دفاع کیا جائے۔
اس سے پیشتر میں نے حوالہ طلب کرنے کی خاطر اسلام ڈاٹ آر یو کو بھی لکھا لیکن ان کا جواب نہ موصول ہونا تھا نہ ہوا کیونکہ انہوں نے لامحالہ ’آئیے آج کل کی تازہ ترین خبریں سنیے‘ کے مصداق کسی پرانے عربی جریدے سے ہی اسے نقل کیا ہوگا۔
اوقات نماز کے لیے اس اسلامی ویب سائٹ سے رجوع کرنے میں حرج نہیں لیکن مجھے البتہ کان ہو گئے ہیں کہ میں اس سے استفادہ نہ کروں۔ ویسے میں نے کبھی کیا بھی نہیں تھا۔ البتہ اب یہ کر سکتا ہوں کہ \”سپتنک اردو\” والوں کو مشورہ دوں کہ اس سے رجوع نہ کریں۔ ممکن ہے یہ ویب سائٹ والوں کی سہو ہو جس کا میں بھی مرتکب ہو گیا لیکن یہ بھی تو امکان ہے کہ اسی طرح بے حوالہ غلط اقوال و احادیث کے تحت لوگوں کے سوالات کا جواب دیا جاتا ہو۔
بہرحال میں ذاتی طور پر ایسی غلطی کرنے پر شرمسار ہوں اور قارئین سے معذرت کا طلب گار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments