روزنامہ امت، ریپ اور رنڈیاں


ہمارے ملک کا عظیم ترین اور معتبر ترین اخبار روزنامہ امت ہے جس کا مقدس مشن قوم کو راہ راست پر رکھنا ہے۔ یہ بات ہمیں روزنامہ امت پڑھ کر ہی پتہ چلی ہے ورنہ پہلے ہم کچھ اور ہی سوچے بیٹھے تھے۔ آج اس کے کراچی، حیدر آباد، پشاور اور راولپنڈی کے ایڈیشنز میں صفحہ اول پر وقائع نگار خصوصی کے تحریر کردہ ایک فیچر کو خبر کی صورت میں شائع کیا گیا ہے جس کی سرخی ہے ”14 ملکوں میں سب سے زیادہ عورتوں سے زیادتی ہوتی ہے۔ امریکہ، جاپان، سویڈن، جنوبی افریقہ، بھارت، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک شامل ہیں۔ عورت مارچ کی رنڈیوں کو یہ غیر مسلم ملک نظر نہیں آتے“ ۔

روزنامہ امت پڑھ کر ہمیں ہمیشہ کوئی نئی بات پتہ چلتی ہے۔ مثلاً اس خبر سے ہمیں یہ علم ہوا کہ بنگلہ دیش ایک غیر مسلم ملک ہے، ہم آج تک یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ وہاں 89 فیصد تعداد مسلمانوں کی ہے۔ خیر مزید معلومات کی تحصیل کی خاطر ہم نے نہایت دلچسپی سے یہ فیچر نما خبر پڑھنا شروع کی۔ اس کے چیدہ چیدہ نکات یوں ہیں۔ ۔ ۔

”خود قائداعظم کا ساتھ محترمہ فاطمہ جناح نہ دیتیں تو پاکستان کبھی نہ بنتا۔ اس بات کا اعتراف خود قائد نے کیا۔ یہ ساری خواتین ہماری رول ماڈل ہیں۔ لیکن آج ہماری بہنوں اور بچیوں کا رول ماڈل کسے بنایا جا رہا ہے؟ مریم نواز؟ بے نظیر؟ فلم اور ٹی وی پروگرام کی رنڈیاں؟ چند ڈالر پر بک جانے والی ٹی وی اینکرز؟ آج کی لیڈیاں ہماری ماؤں بہنوں بچیوں کو کیا سکھائیں گی؟ عورت مارچ؟ یا ویلنٹائن ڈے؟ چلیں اسی پر بات آگے بڑھاتے ہیں۔ دنیا بھر میں جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات کہاں ہوتے ہیں؟ کسی نے اس پر تحقیق نہیں کی؟ عورت مارچ کی رنڈیوں نے بھی؟“

اس کے بعد کسی ”دی بزنس سٹینڈرڈ“ نامی اخبار کی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر چودہ ممالک کے بارے میں کچھ اعداد و شمار دیے گئے ہیں جن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امت کے وقائع نگار خصوصی نے ابھی فی صد نکالنے کا فارمولا نہیں سیکھا اس وجہ سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک لاکھ میں سے 66 ہزار کا مطلب 4.132 فیصد ہوتا ہے اور 90.92 فیصد کا مطلب ان کے خیال میں ایک لاکھ میں سے 1865 ہوتا ہے۔

اس طرح مختلف ممالک میں خواتین کے ریپ کے بہت سے فیصد نکالنے کے بعد وقائع نگار خصوصی بتاتے ہیں کہ ریپ رپورٹ کے آخر میں پاکستان کا نام آتا ہے جہاں بائیس کروڑ کی آبادی میں 3832 بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوئے۔ پھر وہ نہایت جذبے سے فرماتے ہیں کہ ”اب کیا فرماتی ہیں عورت مارچ کی رنڈیاں بیچ اس مسئلے کے؟ سوال یہ ہے کہ یہ رنڈیاں پاکستان سے اوپر چودہ ملکوں میں ہونے والے ریپ کیسز پر احتجاج کیوں نہیں کرتیں؟ وہاں بھی تو مظلوم عورتیں ہیں؟ کیا ان کے لیے آواز اٹھانا ان کی ذمہ داری نہیں؟ عورت تو عورت ہے افریقہ کی ہو یا امریکہ کی۔ پھر یہ رنڈیاں افریقی ملکوں، امریکہ، بھارت، جاپان، بنگلہ دیش اور سویڈن کے سفارت خانے کے سامنے احتجاج کیوں نہیں کرتیں؟“

بہرحال اس خبر یا فیچر سے چند اہم چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ جو یوسفی نے بتایا تھا کہ ان کے بچپن میں حساب میں فیل ہونے کو مسلمانی کی نشانی جانا جاتا ہے، اس کے مطابق روزنامہ امت کے وقائع نگار خصوصی پکے مسلمان ہیں ورنہ اس طرح فیصد نہ نکالتے کہ ایک لاکھ کا نوے فیصد وہ اٹھارہ سو قرار دیتے۔

دوسری بات یہ پتہ چلی کہ ان کی رائے میں ٹی وی پر آنے والی خواتین اور نیوز کاسٹرز رنڈیاں ہیں۔ لفظ رنڈی کا مطلب قدیم اردو میں عورت یا بیوی ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ بیوہ یا رانڈ کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ آج کل اس لفظ کا مطلب ”جسم فروشی کرنے والی عورت، کسبی، قحبہ، بیسوا، طوائف“ ہے۔ غالباً دفتر میں کام کرنے والی خواتین کو بھی وہ یہی سمجھتے ہوں گے۔ ہم اس مقام پر رک کر روزنامہ امت میں کام کرنے والی خواتین سے اظہار ہمدردی کرنا چاہیں گے۔

تیسری بات یہ ظاہر ہوئی کہ وہ سر پر دوپٹہ نہ لینے والی اور جدید تراش خراش کے لباس پہننے والی محترمہ فاطمہ جناح کو اپنی بہنوں بچیوں کا رول ماڈل قرار دیتے ہیں، لیکن سر پر ہر وقت آنچل لینے والی اور شلوار قمیض پہننے والی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور مریم نواز شریف کو وہ بہت برا جانتے ہیں۔ ان دو محترم ناموں کے ساتھ انہوں نے رنڈی کا لفظ تو استعمال نہیں کیا لیکن سیاق و سباق دیکھا جائے تو امت کا مفہوم واضح ہے۔

لیکن سب سے اہم بات چوتھی ہے۔ اس میں وقائع نگار خصوصی نے چودہ ممالک میں خواتین کے ریپ کے واقعات کے فیصد نکالنے کے بعد فرمایا ہے کہ پاکستان آخری نمبر پر ہے جہاں 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 3832 بچوں سے زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ یعنی وقائع نگار خصوصی اس بات پر خوشی سے نہال ہو گئے ہیں کہ دوسرے ملکوں کے بدمعاش تو عورتوں کا ریپ کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں عورتوں کا ریپ نہیں ہوتا، چھوٹے چھوٹے بچے بچیوں کا ہوتا ہے۔

بہرحال ایک فیچر کو صفحہ اول پر تمام ایڈیشنوں میں خبر کے طور پر شائع کرنا، اور رنڈی کا لفظ استعمال کرنا کچھ عجیب تھا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یہ محض ”وقائع نگار خصوصی“ کا ہنر نہیں بلکہ اس میں ادارتی عملہ بھی شامل ہے۔ بلکہ ایک دوست نے تو اس خبر کی زبان اور انداز دیکھ کر نام بھی لے دیا کہ یہ خصوصی کیچڑ کس خصوصی وقائع نگار نے اچھالا ہے۔ دوسرے دوست نے نام تو نہیں لیا مگر یہ کہہ کر اشارہ دے گئے ”اسلام آباد کے وقائع نگار خصوصی کی تحریر ایڈٹ کرنا اس اخبار کے کسی ملازم کے بس میں نہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں بولا جا سکتا“ ۔

ہم تو بس یہی کہیں گے کہ خدا اس امت پر رحم کرے جس کا خیال ہے کہ پاکستان میں ہزاروں ننھے بچوں کا ریپ ہوتا ہے اس لیے وہ دوسرے ممالک سے بہتر ہے۔

چلیں چھوڑیں امت کو اور اس کے خوابوں کو، آئیے ہم ایک ایسے اونٹ کے بارے میں ایک شہرہ آفاق نظم سے لطف اندوز ہوتے ہیں جس کی کی کوئی کل سیدھی نہیں۔

کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں
کہا تم اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے
کہا کوہان تو ہو گا

کہا کابل کو جانا ہے
کہا کابل چلے جاؤ
کہا افغان کا ڈر ہے
کہا افغان تو ہو گا

بشکریہ روزنامہ امت
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments