نواز شریف جواب دیں: پی ڈی ایم کا اظہاروجوہ اہم ہے یا عوام کا ’شو کاز نوٹس‘


سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے سوال پر پیدا ہونے والے تنازعہ میں اب پاکستان جمہوری تحریک نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو باقاعدہ ’شو کاز نوٹس ‘ جاری کیا ہے۔ اس طرح پی ڈی ایم کی تقسیم کا بالواسطہ اعلان کردیا گیا ہے۔ مبصرین پہلے ہی یہ اشارہ دے رہے تھے کہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازعہ کے بعد اپنا راستہ علیحدہ کرسکتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے اس کا اشارہ بھی دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ ہوجائے پیپلز پارٹی موجودہ حکومت کے خلاف جد و جہد جاری رکھے گی خواہ اس کے لئے اسے تن تنہا ہی کیوں نہ لڑنا پڑے۔ بلاول کا یہ اعلان کسی سیاسی جد و جہد سے زیادہ موجودہ حکومت کے ساتھ اشتراک کا اشارہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی نے آج ایوان میں تقریر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اپوزیشن عوامی بہبود کے لئے ہونے والی قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دے گی۔ یہ لب و لہجہ اس تند تیز لہجے سے مختلف ہے جو بلاول بھٹو زرداری تحریک انصاف اور عمران خان کے بارے میں اختیار کرتے ہیں۔ شدید زبانی حملوں کے باوجود پیپلز پارٹی کے چئیرمین بدستور پارلیمنٹ میں سیاسی لڑائی جاری رکھنے کی بات کرتے ہیں ۔ یہ حکمت عملی نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کے اس نقطہ نظر سے مختلف ہے کہ لانگ مارچ، دھرنے اور اسمبلیوں سے بیک وقت استعفوں کے ذریعے حکومت کو مستعفی ہونے اور نئے انتخابات پر مجبور کیا جائے۔
پی ڈی ایم کی طرف سے اتحاد میں شامل دو پارٹیوں کو اظہار وجوہ کا نوٹس جنرل سیکرٹری شاہد خاقان عباسی کی طرف سے جاری کیا گیا ہے جنہوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ یہ نوٹس پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کو واٹس ایپ کے ذریعے بھیجے گئے ہیں ۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران ان دونوں رہنماؤں کو اس کی ہارڈ کاپی بھی فراہم کردی جائے گی۔ دونوں پارٹیوں سے ایک ہفتہ کے اندر اپنا مؤقف دینے کےلئے کہا گیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اس معاملہ پر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ پیپلز پارٹی کو یہ نوٹس یوسف رضا گیلانی کو یک طرفہ طور سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوانے اور اے این پی کو پی ڈی ایم کے فیصلہ کے برعکس پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے پر دیاگیا ہے۔ البتہ شاہد خاقان عباسی نے اس کی تفصیلات بتانے سے انکار کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم شو کاز نوٹس کے مندرجات کا اعلان نہیں کرے گی تاہم اگر متعلقہ پارٹیاں خود یہ نوٹس یا اس کے مندرجات میڈیا کو فراہم کرنا چاہیں تو انہیں اس کا حق حاصل ہے۔
دس جماعتوں پر مشتمل پاکستان جمہوری تحریک نے گزشتہ کچھ عرصہ سے کسی خاص سیاسی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ بظاہر اس کی وجہ اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی علالت بھی ہوسکتی ہے۔ مریم نواز کی طبیعت بہتر ہونے کی اطلاع آئی تھی لیکن گلے میں سوزش اور بخار کی وجہ سے انہوں نے ایک بار پھر کورونا ٹیسٹ کروایا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مزید کچھ عرصہ صاحب فراش رہیں اور کسی سیاسی تقریب میں شریک نہ ہوں۔ اس کے علاوہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملہ پر پیدا ہونے والے تنازعہ نے بھی پی ڈی ایم کی حیثیت اور حکومت پر سیاسی دباؤ ڈالنے کی صلاحیت کے بارے میں سنجیدہ سوال اٹھائے ہیں۔ اتحاد میں شامل دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں گزشتہ کچھ عرصہ سے حکومت کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ اس طرح حکومت کو ضرور اطمینان سے سیاسی تصادم کی بجائے دیگر امور پر توجہ دینے کا موقع ملا ہے۔ تحریک انصاف کا یہ تاثر درست ہے کہ پی ڈی ایم میں پیدا ہونے والا تنازعہ اس کےلئے ایک اچھی خبر ہے۔ تاہم پارٹی کو اسی وقت فائدہ ہوسکتا ہے جب مرکز اور پنجاب میں اس کی حکومتیں ٹھوس اقدامات سے عوامی دلچسپی کے شعبوں میں کارکردگی بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اب بھی سارا زور بیان بازی اور حکومت کی کارکردگی کے بارے میں ’تگڑے ‘ترجمان مقرر کرنے پر ہی صرف کیا گیا تو عوام کی مایوسی میں اضافہ ہی ہوگا۔
پی ڈی ایم کا قیام ضرور عمران خان کے لئے ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آیا تھا لیکن سیاسی لیڈروں کی عاقبت نااندیشی اور مصلحت کوشی نے اس اتحاد کو عملی طور سے ختم کردیا ہے۔ حیرت ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی سودے بازی کا راز فاش کرنے میں تو صلاحیت صرف کررہی ہیں لیکن اتحاد کو فعال بنانے، غلط فہمیاں دور کرنے اور نئی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ الزام تراشی کے ماحول میں اب دو سیاسی پارٹیوں کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کرکے ایک نیا پنڈورا باکس کھولا گیا ہے۔ اول تو پی ڈی ایم کوئی زیادہ پرانا اتحاد نہیں ہے کہ اس میں شامل پارٹیوں سے مکمل ’وفاداری و اطاعت گزاری‘ کی توقع کی جائے۔ دوسرے سیاسی اتحاد کسی ایک یا دو نکات کی بنیاد پر مل کر کام کرنے کا چارٹر ہوتا ہے۔ اگر کوئی پارٹی اس میں فٹ نہیں ہوتی تو وہ خود ہی اپنا راستہ علیحدہ کرلیتی ہے اور باقی ماندہ پارٹیوں کو اسے قبول کرنا پڑتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کے ذریعے دو پارٹیوں کو شو کاز نوٹس بھیجنے کا فیصلہ بے مقصد ہے۔ اس سے باہمی شبہات میں اضافہ کے سوا کوئی مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ بہتر ہوتا کہ پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس طلب کرکے تمام لیڈر دوبدو بات کرلیتے اور طے کرلیا جاتا کہ اب بھی سب مل کر ایک ہی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کےلئے مل کر کام کرسکتے ہیں یا نہیں۔ یا پھر معروضی سیاسی صورت حال یعنی باہمی اختلافات کو قبول کرکے اس مقصد کے لئے کام جاری رکھا جاتا جس کے لئے یہ اتحاد قائم کیا گیا تھا۔ جو پارٹی اس میں فعال نہ ہوتی ، اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا۔
نوٹس دینے اور جواب طلب کرنے کے طریقہ سے اس بنیادی احترام کو ٹھیس پہنچے گی جو سیاسی گروہوں کے درمیان قائم رہنا چاہئے تاکہ سیاست میں ناممکن کو ممکن بنانے کی کہاوت کو عملی شکل دی جاتی رہے۔ یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب سیاسی لیڈر اختلاف کے باوجود بنیادی ذاتی احترام قائم رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی رائے سے عدم اتفاق کے باوصف اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہر شخص، گروہ یا پارٹی اپنا مؤقف رکھنے میں آزاد ہے۔ تاکہ سیاسی سفر کے کسی نئے موڑ پر اگر پھر سے مل بیٹھنے کی ضرورت پیش آئے تو تعاون کی تفصیلات طے کرتے ہوئے زیادہ تردد نہ کرنا پڑے اور ماضی کی تلخیاں زنجیر پا نہ بنیں۔ سیاسی حوالے سے عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کا سب سے بڑا نقص یہی ہے کہ وہ اپوزیشن کو تسلیم کرنے اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی بجائے، ہر مخالف آواز کو کسی بھی طرح روند کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اب اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی ایک دوسرے کے بارے میں وہی رویہ اختیار کریں گی تو ملکی سیاسی ماحول میں کسی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔
مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی ماضی میں ایک دوسرے کے مد مقابل رہی ہیں۔ تاہم فوجی آمریت میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے طویل جلاوطنی کے دوران ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور ملک میں آئینی جمہوریت کی بحالی کے لئے 2006 میں ’میثاق جمہوریت‘ کے نام سے ایک دستاویز پر دستخط کئے تھے۔ اس معاہدہ کا مقصد یہی تھا کہ غیر آئینی طریقہ حکومت کے خلاف کسی قسم کی سودے بازی نہیں کی جائے گی۔ تاہم دونوں پارٹیاں اس عہد پر قائم نہ رہ سکیں اور بعض عمدہ اصولوں پر استوار میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق ملکی سیاست میں تعاون کی روایت استوار نہیں کی جاسکی۔ پی ڈی ایم کا قیام بھی دراصل ملک میں آئینی جمہوریت بحال کروانے اور سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت رکوانے کی جد و جہد کا نام تھا۔ بدقسمتی سے اسے موجودہ حکومت اور عمران خان کے خلاف تحریک بنانے کی کوشش کی گئی۔ ناکامی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔
مظاہروں، لانگ مارچ یا دھرنوں سے حکومتیں گرانا جمہوری طریقہ نہیں ہے۔ تاہم ملک میں چونکہ حکومت سے بالا حکومت کی صورت حال موجود ہے اس لئے پی ڈی ایم نے ملک کے غیر جمہوری اداروں تک سیاسی بادشاہ گری کے خلاف عوامی ناراضی پہنچانے کےلئے جلسوں، ریلیوں اور لانگ مارچ کا پروگرام بنایا۔ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو تسلیم کرنے کے باوجود اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف نے عوام کے ایک بڑے حصے کو متاثر کیا۔ ان کی عوامی قبولیت کو مسترد کرنا بھی ویسا ہی غیر جمہوری طریقہ ہوگا جس کا مظاہرہ حکومت پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کے ذریعے کرتی ہے۔ حکمران جماعت کی غلطیوں کی نشاندہی ایک بات ہے لیکن اس کے حق حکمرانی سے انکار بالکل دوسرا معاملہ ہے۔
پی ڈی ایم کی پارٹیاں اب اسی غلطی کا ارتکاب کررہی ہیں۔ اسی لئے وہ آئینی بالادستی کی جد و جہد کی بجائے سیاسی عہدوں اور مستقبل میں پوزیشن کے جوڑ توڑ میں ملوث ہو رہی ہیں۔ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) اگر یہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ’ووٹ کو عزت دو ‘ کے عظیم مقصد میں ان کے ساتھ نہیں چل پارہی تو اس میں پریشان ہونے اور اس ایک نکتہ کو سیاسی ہیجان کا سبب بنانے کی بجائے ، انہیں اپنی جد و جہد جاری رکھنی چاہئے۔ نواز شریف بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان کے اسٹبلشمنٹ مخالف مؤقف کی وجہ سے ان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہؤا ہے ۔ حالانکہ نواز شریف کے پاس بھی ملکی مسائل حل کرنے کے لئے کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ لیکن عوام یہ واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کو طاقت ور بنانے اور سیاسی عمل کو ووٹوں کے ذریعے مؤثر کرنے کے اصول کو مانتے ہیں۔
نواز شریف کو یہی امید دلانے پر عوامی قبولیت وحمایت حاصل ہورہی ہے۔ لیکن اگر وہ بھی اس مقبولیت کو پیپلز پارٹی کے ساتھ حساب برابر کرنے یا کسی طرح دوبارہ اسٹبلشمنٹ کو ’رجھانے‘ کے لئے استعمال کریں گے تو عوام کو مایوس کرنے کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوگی۔ نواز شریف یاد رکھیں کہ عوام اپنا شو کاز نوٹس ووٹ کی پرچی کے ذریعے جاری کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments