ڈیانا ایوارڈ جیتنے والی 22 سالہ پاکستانی لڑکی علینہ اظہر: ’لوگ کہتے ہیں خواتین کی تولیدی صحت پر بات کرنا بے شرمی ہے‘

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو لاہور


کنیز بی بی (فرضی نام) کے تین بیٹے ہیں۔ مگر انھیں بیٹی کی خواہش تھی اور اب بھی ہے۔ انھوں نے بیٹی کے لیے منت بھی مانی تھی۔ انھیں لگتا ہے کہ شاید انھیں بیٹی مل بھی جاتی لیکن ان کے نو بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی ضائع ہو گئے تھے۔

آخری مرتبہ ایک سال قبل ان کا چار ماہ کا حمل ضائع ہوا تھا۔ زیادہ تر ان کے حمل تین ماہ یا اس سے بھی قبل ضائع ہو جاتے تھے اور دو بچے تو پیدائش سے صرف چند روز قبل ضائع ہوئے۔ کنیز کو صحیح سے نہیں معلوم کہ ان کے حمل ضائع ہونے کی وجوہات کیا تھیں۔

ان کے اتنے وسائل نہیں کہ تشخیص اور علاج معالجے پر پیسے خرچ کر پاتیں۔ وہ لاہور کے جوہر ٹاؤن میں ایک کچی بستی میں رہتی ہیں اور وہیں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی ہیں۔ کنیز کو لگتا ہے کہ انھیں لیکوریا کا مسئلہ ہے اور اسی مرض نے اُن سے اُن کے بچے چھینے ہیں۔

’مجھے ایک نرس نے بتایا تھا کہ لیکوریا کی وجہ سے ہوتا ہے ایسا۔ میں سارا دن کام کر کر کے تھک جاتی ہوں اور رات کو نیند نہیں آتی۔ سارے جسم میں درد ہوتا ہے۔‘ یہ باتیں جب وہ علینہ اظہر سے کر رہی تھیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

‘میرے درد کو سب لوگ تماشے کا نام دیتے تھے’

وہیل چیئر پر موجود لڑکی ماں بن سکتی ہے تو آپریشن کا مشورہ کیوں

’دوران حمل ذیابیطس کنٹرول میں نہ رہنے سے بچے کی موت بھی ہو سکتی ہے‘

’وہ سمجھتی تھی محض بوسا لینے سے حاملہ ہوجائے گی‘

علینہ کی عمر صرف 22 برس ہے تاہم وہ کنیز اور ان جیسی دیگر خواتین کی مدد کو پہنچ رہی ہیں۔ انھوں نے فلاحی کاموں کا آغاز سکول کے زمانے سے کیا تھا اور چھوٹی سی عمر میں ’متاثر کن فلاحی کاموں‘ کی وجہ سے وہ برطانیہ کا ڈیانا ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں۔

آغاز تو انھوں نے یتیم اور نادار بچوں کی کفالت، خواجہ سراؤں کی مالی امداد، حق دار بچوں میں کپڑوں کی تقسیم اور دیگر فلاحی کاموں سے کیا تھا تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے وہ کچی بستیوں میں رہنے والی خواتین میں ماہواری کے لیے سینٹری پیڈز تقسیم کر رہی ہیں۔

حال ہی میں انھوں نے ایک قدم مزید آگے بڑھایا ہے۔ اب وہ ان میں سے ایسی خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہیں جو ڈاکٹر کے پاس جانے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔ اسی ارادے سے وہ کنیز اور ان کے علاقے میں دیگر خواتین کے پاس پہنچی تھیں۔

کچی بستی کی خواتین خود ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں جاتیں؟

کنیز نے انھیں بتایا کہ ان کے دو بچوں کے درمیان وقفہ بہت کم ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنی استطاعت کے مطابق علاج کروانے کی بھی کوشش کی لیکن وہ علاج زیادہ عرصہ جاری نہیں رکھ سکیں۔

’ڈاکٹر جو دوائی لکھ کر دیتی تھی وہ میں نہیں خرید سکتی تھی۔ پھر علاج چھوٹ جاتا تھا۔ ایک وقت تو میں نے اپنے میاں کو بتا دیا تھا کہ اب مجھ سے بچے پیدا نہیں ہوتے۔‘

علینہ کے مطابق لاہور کے مختلف علاقوں میں پھیلی کچی بستیوں میں رہنے والی زیادہ تر خواتین یا تو ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہوئے شرم محسوس کرتی ہیں یا پھر ان کے اتنے وسائل ہی نہیں ہوتے کہ وہ ڈاکٹر تک جا سکیں۔

’اس طرح انھیں جو بھی مرض لاحق ہوتا ہے وہ اس کو لے کر چلتی رہتی ہیں۔ انھیں کبھی پتہ ہی نہیں چلتا کہ انھیں کیا بیماری ہے۔ اگر وہ علاج کروائیں بھی تو زیادہ تر اتائی ڈاکٹروں کے پاس چلی جاتی ہیں۔‘

علینہ نے کنیز سے تفصیلات لے کر انھیں بتایا کہ وہ ان کی بیماری کے حوالے سے ڈاکٹر سے مشورہ کریں گی اور اس کے بعد انھیں بتائیں گی وہ ان کی مزید مدد کیسے کر سکتی ہیں۔

لیکن کنیز اکیلی نہیں تھیں۔ ان کے ساتھ موجود دیگر بہت سی ایسی خواتین تھیں جن کے مسائل ان سے ملتے جلتے تھے۔ یہ تمام وہ خواتین تھیں جو لوگوں کے گھروں پر کام کاج کرتی تھیں۔

ہر چار میں سے ایک خاتون کو لیکوریا کا مسئلہ ہے

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے علینہ اظہر نے بتایا کہ ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جن خواتین سے اب تک اُن کی ملاقات ہوئی ہے، اُن میں سے ہر چار میں سے ایک خاتون کو یا تو لیکوریا کا مسئلہ ہے یا پھر ان کو ماہواری کے مسائل ہیں۔

کچی بستیوں میں رہنے والی خواتین میں سینیٹری پیڈز تقسیم کرنے کا مقصد بھی علینہ کے لیے یہ تھا کہ ان خواتین میں تولیدی صحت کے حوالے سے صحت مندانہ رویے اپنانے کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے۔

علینہ کو لگتا ہے کہ کنیز اور ان جیسی خواتین ماہواری کے دنوں میں پیڈز کی جگہ کپڑے یا دیگر غیر صحت مندانہ چیزوں کا استعمال کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی تولیدی صحت متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے اب وہ صرف پیڈز تقسیم نہیں کرتیں بلکہ وہ اس کے ساتھ ان خواتین کو پیڈز استعمال کرنے کے فوائد اور تولیدی بیماریوں کے حوالے سے آگاہی بھی فراہم کرتی ہیں۔

’میں اس حوالے سے تحقیق کرتی ہوں اور پھر ڈاکٹر سے ان باتوں کی تصدیق کرنے کے بعد انھیں ان خواتین تک پہنچاتی ہوں۔‘

حمل بھی نہیں ٹھہرا، تین ماہ سے ماہواری بھی نہیں آئی

کنیز کے ساتھ بستی میں موجود دیگر خواتین میں سے ایک 17 سالہ لڑکی نے علینہ کو بتایا کہ ان کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی۔ تین ماہ گزرنے کے بعد بھی اُنھیں ماہواری نہیں ہوئی تھی۔

’شادی سے پہلے بھی مجھے صرف تین دن ماہواری آتی تھی۔ اب مجھے بہت پریشانی ہے۔ میں نے چیک اپ کروایا ہے مگر مجھے ابھی حمل بھی نہیں ٹھہرا۔‘ تاہم ان کے مطابق ڈاکٹر انھیں یہ نہیں بتاتے کہ انھیں ماہواری نہ آنے کی وجہ کیا ہے۔

’ڈاکٹر کہتے ہیں ہمارے پرائیویٹ کلینک پر آؤ، ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ان کی فیس بھر سکیں۔‘

کیا لیکوریا کا حمل گرنے سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹروں اور ماہرین کا استدلال ہے کہ کنیز اور ان جیسی خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ڈاکٹر کے پاس جا کر دکھائیں۔

ڈاکٹر رابعہ نتاش لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں خواتین کے امراض کی ماہر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کنیز نے خود کو لاحق بیماری کی جو وجہ بتائی ہے، وہ حقیقت نہیں ہے۔

’لیکوریا سے حمل ضائع ہونے کے حوالے سے اب تک کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لیکوریا حمل گرنے یا بچہ ضائع ہونے کا سبب بنتا ہے۔‘

ڈاکٹر رابعہ نتاش نے مزید بتایا کہ خواتین میں پیڈز نہ استعمال کرنے سے زیادہ تر جلد پر انفیکشن یا ویجائنل انفیکشن وغیرہ جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں تاہم اس سے تولیدی نظام کا اوپری حصہ متاثر نہیں ہوتا۔ اس طرح پیڈز کا استعمال نہ کرنے سے بچہ ضائع ہونے کے امکانات ہونا بھی ممکن نہیں ہوتا۔

ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ہر ایسی خاتون جس کو اس نوعیت کے تولیدی مسائل کا سامنا ہو انھیں چاہیے کہ وہ مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں تا کہ ان کی بیماری کی صحیح تشخیص ہو پائے اور اس کے مطابق ان کا علاج بھی کیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر خاتون میں حمل گرنے یا بچہ نہ ہونے کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح لیکوریا جیسی بیماری ہونے کی بھی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔

علینہ ایسی خواتین کی مدد کیسے کریں گی؟

علینہ اظہر نے اس کا حل یہ تلاش کیا ہے کہ وہ کچی بستیوں میں رہنے والی خواتین سے مل کر ان کی صحت کے مسائل جانیں گی اور پھر انھیں اپنی جان پہچان والی ایک ماہر امراض نسواں کو بتائیں گی۔

’وہ ڈاکٹر جو تشخیص کرتی ہیں یا علاج بتاتی ہیں وہ میں ان خواتین کو بتاتی ہوں۔‘

تاہم تاحال علینہ کو بظاہر اس طریقے سے ان خواتین کی مدد کرنے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔

وہ کنیز سمیت ہر خاتون سے یہ تصدیق لیتی ہوئی بھی نظر آئیں کہ اگر وہ کسی ڈاکٹر سے ان کے لیے وقت لیں تو کیا وہ ڈاکٹر کو دکھانے آئیں گی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کوشش کے باوجود تاحال علینہ ان کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہیں۔

’یہ کہہ تو دیتی ہیں لیکن ڈاکٹر کے پاس نہیں آتیں‘

علینہ اظہر نے بتایا کہ وہ کچی بستیوں میں آباد تولیدی بیماریوں میں گھری خواتین کو معائنے کے لیے ہسپتال لے کر جانے کا انتظام کر چکی ہیں تاہم وہ خواتین معائنے کے لیے نہیں آئیں۔

’یہ ابھی تو کہہ رہی ہیں نہ کہ یہ آئیں گی ڈاکٹر کے پاس، لیکن یہ نہیں آتیں۔ میں نے ایک مرتبہ تقریباً 35 خواتین کے لیے ہسپتال سے وقت لیا جہاں ان کا مکمل چیک اپ ہونا تھا۔ ہمارا آٹھ بجے کا وقت تھا۔ سات بجے مجھے فون آیا کہ ہم نہیں آ رہیں، ہمیں گھر سے اجازت نہیں ملی۔‘

علینہ کے لیے یہ بھی جاننا باقی ہے کہ ان خواتین کے اس قسم کے رویے کی وجہ کیا تھی تاہم وہ اپنی کوشش جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ اپنی غیر سرکاری تنظیم آسرا کے ذریعے ان خواتین کی مدد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

میں نے فلاحی کام 11 برس کی عمر میں شروع کیا

یہ تنظیم علینہ نے سکول سے فارغ ہونے کے بعد ان فلاحی کاموں کے لیے قائم کی تھی جن کا کچھ حصہ وہ زمانہ طالبِ علمی ہی سے بنتی آ رہی تھیں۔

علینہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلی مرتبہ 11 برس کی عمر میں ان کی توجہ فلاحی کاموں کی طرف اس وقت مبذول ہوئی جب عمران خان فاؤنڈیشن نے سنہ 2010 میں ان کے سکول میں سیلاب زدگان کی امداد کے لیے فنڈز جمع کرنے کی خاطر کارڈز تقسیم کیے۔

اس کے بعد اُنھوں نے فلاحی کاموں میں باقاعدگی سے حصہ لینا شروع کیا۔ سکول مکمل کرنے کے بعد انھوں نے اپنی تنظیم ’آسرا‘ قائم کی۔ اس تنظیم کے ذریعے انھوں نے یتیم اور نادار بچوں کا ایک سکول اپنا رکھا ہے جس کا نظام ان کی امداد سے چلتا تھا۔

آسرا ہی کے ذریعے انھوں نے ان خواجہ سراؤں کی بحالی میں مدد کی جنھوں نے بھیک مانگنے یا ناچ گانے کے پیشے کو ترک کر دیا تھا۔ وہ باقاعدگی سے کچی بستیوں میں خواتین اور بچوں میں کپڑے اور دیگر اشیائے ضروریہ بھی تقسیم کرتی ہیں۔

لوگوں کی باتوں سے فرق نہیں پڑتا

علینہ کے مطابق اس قسم کے کاموں کے لیے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے جو انھیں مختلف مخیر حضرات کی طرف سے مل جاتے ہیں۔ ’ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو ذاتی طور پر مجھے جانتے ہیں اس لیے انھیں معلوم ہے کہ ان کا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔‘

علینہ کے کام کی وجہ سے انھیں سنہ 2019 میں برطانیہ کی سابقہ شہزادی لیڈی ڈیانا کی یاد میں قائم برطانوی اعزاز ‘ڈیانا ایوارڈ‘ دیا گیا تھا۔

ڈیانا ایوارڈ برطانیہ اور دنیا کے مخلتف ممالک سے نو سے 25 برس کے درمیان کی عمر کے ان افراد کو دیا جاتا ہے جو اپنے فلاحی کاموں سے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں۔ علینہ ابھی تعلیم حاصل کر رہی ہیں تاہم ان کا فلاحی کام جاری رکھنے کا ارادہ ہے۔

اس کام میں بھی ان کے سامنے مشکلات موجود ہیں۔ علینہ کے مطابق بہت سے پڑھے لکھے لوگ ان کے ارد گرد ایسے ہیں ’جو یہ سمجھتے ہیں کہ خواجہ سراؤں کی مدد کرنا درست نہیں یا خواتین کے تولیدی صحت کے مسائل پر بات کرنا بے شرمی ہے۔‘

علینہ کہتی ہیں کہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ غیر سرکاری تنظیم ہی دھوکہ ہے، وہ اس کے خلاف ہوتے ہیں، تاہم وہ کہتی ہیں کہ انھیں لوگوں کی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ اپنا کام کرتی رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp