ممتا بینرجی: بائیں بازو کی حکومت کو عرش سے فرش تک لانے والی ’دیدی‘ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ کیسے بنیں؟


ممتا

تاریخ 12 مئی 2011 اور مقام ہے انڈیا کے شہر کولکتہ کے کالی گھاٹ علاقے میں ممتا بینرجی کا کھپریل کی چھت والا مکان۔

جیسے جیسے انتخابات کے نتائج سامنے آ رہے تھے مکان کے باہر ترنمول کانگریس کے ہزاروں حامیوں کا جوش و خروش بڑھتا جا رہا تھا لیکن اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے اتنے قریب بھی ممتا بینرجی کا چہرہ انتہائی پُرسکون تھا۔

کانگریس سے علیحدہ ہونے اور علیحدہ پارٹی بنانے کے تقریباً 13 سال بعد بائیں بازو کی حکومت کا اقتدار ختم کرنے کا اُن کا خواب پورا ہوتا نظر آ رہا تھا اور ساتھ ہی ان کی ایک پرانی قسم بھی پوری ہونے والی تھی۔

جب یہ واضح ہو گیا کہ ممتا کی پارٹی ’ٹی ایم سی‘ بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے والی ہے تو ممتا بینرجی نے جشن منانے کے بجائے آگے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

وہ اس وقت مرکزی ریلوے وزیر تھیں اور اسی وجہ سے نھوں نے اسمبلی انتخابات بھی نہیں لڑے تھے۔

نتائج کے بعد پوری رات وہ اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ آئندہ حکومت کا خاکہ تشکیل دینے میں مصروف رہیں۔ کسی زمانے میں ممتا بینرجی کے کافی قریب سمجھے جانے والی سونالی گو نے یہ واقعہ ہمیں سنایا تھا۔

حال ہی میں ٹکٹ نہ ملنے کے باعث سونالی ناراض ہو کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کر چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سیلاب سے بدحال ریاست بہار: تصویری جھلکیاں

بہار کے مسلمانوں میں افراتفری کے اسباب

بہار اسمبلی انتخابات: ’بڑے اتحاد‘ کو مسلمان ووٹ سے فائدہ ہوا یا نقصان؟

سنہ 2011 کے انتخابی نتائج کے بعد بھی ممتا کا ردعمل بھی کافی سلجھا ہوا تھا۔

انھوں نے کہا تھا ’یہ ماں، مٹی اور منوش (انسانیت) کی فتح ہے۔ یہ بنگال کے عوام کے لیے جشن منانے کا وقت ہے لیکن ساتھ ہی ہمیں ان لوگوں کو بھی یاد رکھنا ہے جنھوں نے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران اس کامیابی کو حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دیں۔‘

قسم کھانے اور اسے 18 سال تک نبھانے کی کہانی

آخر ممتا بینرجی نے کیا قسم کھائی تھی جو اس دن پوری ہوئی تھی؟

جولائی 1993 میں جب وہ یوتھ کانگریس کی صدر تھیں تب ایک تحریک کے دوران 13 نوجوان پولیس کی جانے سے فائر کی جانے والی گولیاں لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔

اس مہم کے دوران ممتا کو بھی چوٹیں آئیں لیکن اس سے پہلے اسی سال سات جنوری کو وہ ریپ کی شکار ایک گونگی بہری لڑکی کے ساتھ اس وقت کے وزیر اعلیٰ جیوتی باسو سے ملنے ان کے چیمبر کے دروازے کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گئی تھیں۔

ممتا نے الزام لگایا کہ سیاسی تعلقات کی وجہ سے مجرموں کو گرفتار نہیں کیا جا رہا تھا۔

اس وقت وہ مرکزی وزیر مملکت تھیں لیکن وزیر اعلیٰ باسو سے ان کی ملاقات نہیں ہو سکی۔ جب وزیر اعلیٰ باسو کی آمد کا وقت ہوا اور ممتا وہاں سے ٹس سے مس نہ ہوئیں تو پولیس نے انھیں زبردستی گھسیٹ کر سیڑھیوں سے نیچے اتارا۔ اس دوران ان کے کپڑے تک پھٹ گئے تھے۔

ممتا نے اسی دن قسم کھائی تھی کہ اب وہ ریاست کی وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ہی دوبارہ اس عمارت میں قدم رکھیں گی۔ انھوں نے اپنی قسم کو پورا کیا اور 20 مئی 2011 کو تقریباً 18 سال بعد انھوں نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اس تاریخی سرخ عمارت میں دوبارہ قدم رکھا۔

سابق وزیر اعلیٰ جیوتی باسو، ممتا بینرجی کی سیاست سے اس قدر ناراض رہتے تھے کہ انھوں نے کبھی سرعام ان کا نام تک نہیں لیا۔ اس کے بجائے انھوں نے ہمیشہ ممتا کو ’وہ عورت‘ کہہ کر مخاطب کیا۔

باہمت شخصیت

ممتا بینرجی کا پورا سیاسی کیریئر ایسے بہت سے واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ چاہے وہ 1990 میں سی پی ایم کے کارکن لالو عالم کا جان لیوا حملہ تھا یا سنگور میں ٹاٹا پروجیکٹ کے لیے اراضی کے حصول کے خلاف 26 دن کی بھوک ہڑتال۔

اس طرح کا ہر واقعہ ان کے کیریئر کا اہم اور فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔

16 اگست 1990 کو کانگریس کی اپیل پر بنگال بند کے دوران لالو عالم نے ممتا بینرجی کے سر پر لاٹھی سے وار کیا تھا لیکن سر پر پٹیاں باندھنے کے بعد وہ دوبارہ سڑک پر اتر آئی تھیں۔

ممتا کے قریبی ساتھی سوگتا رائے کا کہنا ہے کہ ’ہمیں لگ رہا تھا کہ ممتا کا بچنا مشکل ہے لیکن زندہ رہنے اور بنگال کے لوگوں کے لیے کچھ کرنے کی ان کی خواہش نے انھیں زندہ رکھا۔‘

’دیدی دی انٹولڈ ممتا بینرجی‘ کے عنوان سے ممتا کی سوانح عمری لکھنے والی صحافی ستپا پال کا کہنا ہے کہ ’ممتا ملک کی سب سے مضبوط خاتون رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔‘

اس کتاب میں انھوں نے لکھا ہے ’اپنی انفرادیت اور سیاست کے جنگجو اور جرات مندانہ انداز کی وجہ سے دیدی (ممتا) نے اپنے کیریئر میں بہت سی ایسی چیزیں ممکن کر لیں جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جس میں بائیں بازو کی حکومت کو عرش سے فرش تک لانا بھی شامل ہے۔‘

ممتا کے سیاسی سفر پر ’ڈی کوڈنگ دیدی‘ کے نام سے ایک کتاب لکھنے والی صحافی دولا مِترہ کا کہنا ہے کہ ’ملک میں کسی اور خاتون رہنما کی سرگرمیوں میں لوگوں کو اتنی دلچسپی نہیں جتنی دیدی کے نام سے مشہور ممتا بینرجی کے تئیں ہے اور یہ ان کی جادوئی شخصیت کا کمال ہے۔‘

ان دونوں کتابوں میں ممتا کے سیاسی کیریئر کے آغاز سے لے کر 2011 میں پہلی بار وزیر اعلیٰ بننے تک کے سفر کا احاطہ کیا گیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار پروفیسر سمیران پال کا کہنا ہے کہ ’سادگی ممتا کی زندگی کا ایک حصہ رہی ہے۔ سفید سوتی ساڑھی اور ہوائی چپل سے ان کا ناطہ کبھی نہیں ٹوٹا، چاہے وہ مرکز میں وزیر ہوں یا محض رکن اسمبلی۔‘

’وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بھی ان کے لباس اور طرز زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ نجی یا عوامی زندگی میں ان کے رہنے اور طرز عمل پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔‘

پروفیسر پال کا کہنا ہے کہ ممتا کی سب سے بڑی خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ زمین سے جڑی ہوئی رہنما ہیں۔ ’چاہے یہ سنگور میں کسانوں کی حمایت میں دھرنا اور بھوک ہڑتال کا معاملہ ہو یا نندی گرام میں پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والے افراد کے حقوق کی جنگ، ممتا ہمیشہ محاذ پر ڈٹی رہتی ہیں۔‘

سڑک کے ذریعے سیکرٹیریٹ تک پہنچنے کا معجزہ

ممتا

سینیئر صحافی تپس بینرجی جو ترنمول کانگریس کے قیام کے بعد سے ہی ممتا بینرجی کی سیاست کا قریب سے مشاہدہ اور رپورٹنگ کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ ’ممتا بینرجی میں گر کر بار بار اٹھنے کی جو ہمت ہے وہ موجودہ دور کے کسی رہنما میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ہار سے گھبرانے کے بجائے وہ دوہری طاقت اور جوش و خروش کے ساتھ اپنی منزل کی طرف دوبارہ چلنا شروع کر دیتی ہیں۔‘

انھوں نے 2006 کے اسمبلی انتخابات کی مثال پیش کی۔ اس وقت میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ اس بار ممتا کی پارٹی کا اقتدار میں آنا یقینی ہے۔

خود ممتا نے بھی ہاتھ کی انگلیوں سے صحافیوں کو فتح کا نشان لہراتے ہوئِے کہا تھا کہ اب اگلی ملاقات رائٹرز بلڈنگ میں ہو گی لیکن جلسوں میں بہت زیادہ ہجوم کے باوجود پارٹی کامیاب نہیں ہو سکی۔

اس کے بعد ممتا نے بائیں بازو پر ’سائنسی دھاندلی‘ کا الزام عائد کیا تھا لیکن اسی دن سے ہی انھوں نے 2011 کے انتخابات کی تیاری شروع کر دی تھی۔

مکھرجی کہتے ہیں ’200 کے لوک سبھا انتخابات میں ممتا ٹی ایم سی کی تنہا رکن تھیں لیکن 2009 میں انھوں نے پارٹی نشستوں کی تعداد بڑھا کر 19 کر دی۔‘

ممتا بینرجی کے سخت حریف بھی مانتے ہیں کہ کانگریس کی انا اور اصولوں کے ٹکراؤ کے بعد ممتا نے ایک نئی پارٹی تشکیل دے کر صرف 13 سال کے اندر ریاست میں مضبوط ترین بائیں بازو کی حکومت کو شکست دے کر سڑک سے سیکریٹریٹ پہنچنے کا کرشمہ کر دکھایا۔

کانگریس کے ریاستی صدر کے انتخاب میں ممتا کو شکست دینے والے سومن مترا نے بعد میں ممتا کا لوہا تسلیم کیا تھا اور بعد میں انھوں نے کانگریس چھوڑ کر ٹی ایم سی میں شمولیت اختیار کی اور رکن اسمبلی بھی بنے۔

طویل عرصے تک ممتا کی پارٹی ٹی ایم سی کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی پلکیش گھوش کا خیال ہے کہ ضد اور جرات ممتا کے خون میں شامل ہے۔

ان کا کہنا ہے ’انھیں یہ جارحانہ پن اپنے استاد اور والد پرملیشور بینرجی سے وراثت میں ملا جو ’مجاہدِ آزادی‘ تھے۔ اپنی انھی خوبیوں کی وجہ سے ہی انھوں نے 1998 میں کانگریس سے اپنے تعلقات توڑ کر ترنمول کانگریس کی بنیاد رکھی اور 13 سال کے اندر ہی انھوں نے کئی دہائیوں سے ریاست میں جمے ہوئے بائیں محاذ کو شکست دے کر اپنی حکومت بنائی۔‘

ممتا بینرجی کا سیاسی سفر

ان کا سیاسی سفر 21 سال کی عمر میں 1976 میں وومن کانگریس کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے شروع ہوا تھا۔ سنہ 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد لوک سبھا انتخابات میں پہلی بار ممتا سیاسی میدان میں اتری تھیں۔ انھوں نے سی پی آئی کے انتہائی سینیئر رہنما سومناتھ چیٹرجی کا مقابلہ کیا۔

راجیو گاندھی کے دور حکومت میں انھیں یوتھ کانگریس کا قومی جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا تھا۔

وہ کانگریس مخالف لہر میں 1989 کے لوک سبھا انتخابات ہار گئیں لیکن اس سے مایوس ہوئے بغیر انھوں نے اپنی توجہ بنگال کی سیاست پر مرکوز کر دی۔

سنہ 1991 کے انتخابات میں وہ دوبارہ لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئیں۔ اس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

اس سال انتخابات میں کامیابی کے بعد انھیں وزیر اعظم پی وی نرسمنہا راؤ کی کابینہ میں نوجوانوں کی بہبود و کھیل کی ذمہ داری سونپی گئی لیکن صرف دو سال مرکز میں وزیر رہنے کے بعد ممتا نے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کولکتہ کے بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ میں ایک بہت بڑی ریلی کا انعقاد کیا اور کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔

گھوش کہتے ہیں کہ اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز سے ہی ممتا کا واحد مقصد بائیں بازو کو بنگال کے اقتدار سے بے دخل کرنا تھا۔ اس لیے انھوں نے کئی بار اپنے معاونین کو تبدیل کیا۔ کبھی وہ مرکز میں این ڈی اے اور کبھی کانگریس میں شامل ہوئیں۔

سنہ 2012 میں ٹائم میگزین نے انھیں دنیا کے 100 بااثر افراد کی فہرست میں شامل کیا۔ ویسے ممتا کے کیریئر میں ایسے بہت سے متنازع واقعات ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تصویر ایک ایسے سیاستدان کی بن گئی ہے جو ’ضدی اور خود پسند ہیں۔‘

ممتا پر تنقید کو برداشت نہ کرنے جیسے الزامات لگائے گئے۔ اس کے علاوہ پارلیمان میں اپنے بھتیجے ابھشیک کو بڑھاوا دینے کے الزامات بھی لگائے گئِے ہیں۔ ممتا پر کرپٹ رہنماؤں کو تحفظ فراہم کرنے سمیت کئی الزامات لگائے گئے ہیں لیکن ان کے خلاف سب سے زیادہ سنگین الزام اقلیتوں کو خوش کرنے کا ہے۔

ممتا سیاستدان ہونے کے علاوہ ایک شاعر، ادیب اور مصورہ بھی ہیں۔ گذشتہ اسمبلی انتخابات میں انھوں نے اپنی پینٹنگز بیچ کر پارٹی کی انتخابی مہم کے لیے لاکھوں روپے جمع کیے تھے۔

وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ان کی نظموں اور کہانیوں کی درجنوں کتابیں آ چکی ہیں۔ اپنی تقریروں میں بھی وہ گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور اور شرت چندر کا ذکر کرتی رہی ہیں۔

مغربی بنگال میں گذشتہ دہائی سے لے کر ان تک کے سب سے اہم اسمبلی انتخابات سے پہلے یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا سہ رخی چیلنجوں کے درمیان ممتا اس بار اقتدار کی ہیٹ ٹرک کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ اس بار ان کے کئی مضبوط حلیف جن میں مکول رائے اور شبھندو ادھکاری شامل ہیں، ان کے ساتھ نہیں ہیں۔

تپس مکھرجی کہتے ہیں ’ممتا کی طاقت خود ممتا ہے۔ اب تک کے سیاسی کیریئر کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی طاقت کو کم سمجھنا ایک غلطی ہو سکتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp