امراض قلب: 31 سالہ منگیتر کی دل کے عارضے سے اچانک موت، ’یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اسے اپنے باپ کے بغیر زندگی گزارنی ہو گی‘


اپنے 31 سالہ منگیتر اینڈی کی اچانک موت کے دو ماہ بعد بھی ڈینیئیل رائلی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر ایسا اینڈی کے ساتھ کیسے ہو سکتا ہے۔

اینڈی اور ڈینیئیل کی ملاقات لڑکپن میں ہوئی تھی اور انھوں نے دو برس قبل ہی اپنے بیٹے آرلو کو اس دنیا میں خوش آمدید کہا تھا۔

اب ان دونوں کی شادی رواں برس موسمِ گرما میں ہونا قرار پائی تھی کیونکہ کورونا کی عالمی وبا کے باعث اس سے قبل شادی کے لیے مقرر کی گئی تاریخ کو مؤخر کرنا پڑا تھا۔

ہر جوڑے کی طرح انھوں نے بھی متعدد خواب دیکھ رکھے تھے اور ساتھ مل کر اچھی یادیں بنانے کی تیاری بھی۔ لیکن آگے کیا ہونے والا تھا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ نہ تو کوئی واضح علامات تھیں اور نہ ہی کوئی طبی مسائل جن کے ذریعے یہ پتا چلایا جا سکتا کہ اینڈی کو فی الفور طبی مدد درکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے

‘دل کے خراب جین کے سبب اچانک موت کا خطرہ’

’سگریٹ نوشی اچانک ترک نہ کریں‘

ڈاکٹروں نے دھڑکتے دل کا آپریشن کرنا کیسے سیکھا

’عارضہ قلب کے اشارے نظرانداز کیے جاتے ہیں‘

15 جنوری کی صبح اینڈی لنکاشائر کے علاقے لونگرج میں اپنے گھر کے غسل خانے میں گرا ہوئے پائے گئے اور کچھ ہی دیر بعد انھیں مردہ قرار دے دیا گیا۔

29 سالہ ڈینیئیل نے کہا کہ ’اس دن میرا دل دو مرتبہ ٹوٹا۔ ایک دفعہ اپنے لیے اور ایک مرتبہ (بیٹے) آرلو کے لیے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اسے اپنے باپ کے بغیر زندگی گزارنی ہو گی۔‘

ایک ماہر امراضیات نے بعد میں اینڈی کی موت کی وجہ ’سڈن ارتھمیا ڈیتھ سنڈروم‘ یا ’سڈن اڈلٹ ڈیتھ سنڈروم‘ کو قرار دیا۔

اس دن سے پہلے ڈینیئیل نے آج تک اس عارضے کے بارے میں نہیں سُنا تھا۔

برطانیہ میں نوجوانوں میں دل کے عارضے کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم کے مطابق برطانیہ میں 35 سال سے کم عمر کے اوسطاً 12 افراد ہر ہفتے دل کے ایسے عارضوں سے ہلاک ہوتے ہیں جن کی پہلے سے تشخیص نہیں کی گئی ہوتی۔

تحقیق کے مطابق ان اموات میں سے 80 فیصد ایسی ہیں جن میں مذکورہ شخص بغیر کوئی علامات ظاہر ہوئے ہلاک ہو جاتا ہے۔

اینڈی کے خاندان کو جب سے یہ پتا چلا ہے کہ دل کی باقاعدگی سے سکریننگ کروانے سے اس قسم کے عارضوں کے بارے میں پیشگی پتا چلایا جا سکتا ہے وہ کسی اور کو اس تکلیف سے بچانے کے لیے پرعظم ہیں۔

عام طور پر اس تنظیم سے ٹیسٹ یا سکریننگ کروانے والے ہر 300 میں سے ایک نوجوان میں جان لیوا عارضے کی تشخیص کی جاتی ہے۔

ڈینیئیل کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنی تمام تر توانائیاں امداد جمع کرنے کے تقاریب منعقد کروانے میں استعمال کریں گے اور اس امید کے ساتھ آگاہی پھیلاتے رہیں گے کہ ہم زندگیاں بچا سکتے ہیں۔‘

ڈینیئل اپنے منگیتر کی وفات کے دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہ دن بھی کسی عام دن کی طرح ہی شروع ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’اینڈی اور میں جمعے کی اس صبح اٹھے اور دفتر جانے کی تیاری کرنے لگے۔‘

’جس دوران اینڈی غسل کر رہے تھے میں اپنے دو سال کے بیٹے کو نچلی منزل پر ناشتہ کروانے لے گئی اور اتنے میں دفتر اور نرسری کے لیے چیزیں بھی تیار کرنے لگی۔‘

تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ڈینیئیل کے ذہن میں یہ خیال آنے لگے کہ اینڈی غسل خانے میں اتنا وقت کیوں لگا رہے ہیں۔

جب انھیں اینڈی سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو ڈینیئیل بتاتی ہیں کہ انھوں نے مقفل دروازے کو توڑنے کی ناکام کوشش کرنا شروع کر دی جس کے بعد انھیں اپنے والد کو مدد کے لیے بلانا پڑا۔

جب وہ دروازہ توڑ کر اندر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ اینڈی غسل خانے میں گرا ہوئے ہیں۔

ان کے والد نے فون پر موجود طبی عملے کے ایک رکن کی مدد سے فوراً ہی اینڈی پر ’سی پی آر‘ کرنا شروع کر دیا یعنی ان کی چھاتی کو ہاتھوں کی مدد سے جھٹکے دینے کی کوشش کی۔

انھوں نے بتایا کہ ’مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں چیخ رہی تھی کہ یہ نہیں ہو سکتا، مجھے لگا کہ شاید وہ (غسل کرتے ہوئے) پھسل گئے اور ان کا سر زور سے فرش پر لگا ہے۔‘

لیکن طبی عملے کی حتی الامکان کوششوں کے باوجود اینڈی کو بچایا نہ جا سکا۔

ڈینیئیل تک یہ ہولناک خبر ان الفاظ میں پہنچی ’انتہائی افسوس کے ساتھ آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اینڈی آج صبح وفات پا چکے ہیں۔‘

ڈینیئیل کہتی ہیں کہ ’آج بھی اس کنسلٹنٹ کے یہ الفاظ میرے ذہن میں گونجتے ہیں۔‘

’یہ کیسے سچ ہو سکتا ہے؟ اینڈی تندرست تھے، نوجوان تھے، صحتمند بھی تھے اور وہ کسی عارضے میں بھی مبتلا نہیں تھے۔ انھوں نے ابھی تک شاید اپنی زندگی میں کبھی بیماری کے باعث چھٹی بھی نہ کی ہو۔‘

اب ان کے والدین این مری اور گریگ کی کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے ’سی آر وائی‘ نامی ادارے کے بے حد مشکور ہیں جس نے انھیں اپنے بیٹے کو لاحق عارضے سے متعلق سمجھنے میں بے حد مدد دی۔

ڈینیئیل کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ یہ اینڈی کے ساتھ ہی کیوں ہوا، کیونکہ اس کے پاس اس دنیا میں لوگوں کو دینے کے لیے بہت کچھ تھا، اور اب کچھ بھی ویسا نہیں رہا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حالانکہ میں نے اپنی چھوٹی سی دنیا کھو دی ہے، لیکن اصل دنیا آج بھی ویسے ہی چل رہی ہے۔ میرے پاس اپنے بیٹے کے لیے جینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

’مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں ایک اندرونی طاقت آ گئی ہے جس کے بارے میں مجھے اس سے پہلے معلوم نہیں تھا اور مجھے امید ہے کہ اینڈی کو ہم دونوں فخر ہو گا۔ یہ آج بھی میرے لیے حیران کن امر ہے کہ ایک صحت مند شخص کا دل بغیر کسی وارننگ کے دھڑکنا بند ہو سکتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp