پی ڈی ایم میں اسمارٹ لاک ڈاؤن


پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان پہلی دراڑ اس وقت پڑی تھی، جب سابق وزیراعظم نے ملکی مقتدر اداروں کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی، پی پی پی کو نواز شریف سے متنازع بیان کی توقع نہیں تھی کہ (ن) لیگ براہ راست ریاستی اداروں کے سربراہوں کو نشانہ بنائے گی، سنجیدہ حلقوں میں نواز شریف کے جارحانہ بیانات کو بے محل قرار دیا۔ پی پی پی کی طرز سیاست پر تنقید کی جا سکتی ہے، تحفظات کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ وہ آمریت و صدارتی نظام کی بدترین مخالف ہے۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد پی پی پی اور اے این پی میں قربتیں بڑھیں، ان کے اتحاد کو صوبائی خود مختاری و سرحدی صوبے کو ایک صدی بعد شناخت ملنے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، اے این پی رہنماؤں نے مفاہمتی سیاست میں پی پی پی کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ قوم پرستی کی سیاست میں سابق فاٹا اراکین بھی اسی نظریے کے ساتھ پی پی پی کے ساتھ کندھا ملائے نظر آتے ہیں، پی پی پی غیر علانیہ (سندھی) قوم پرست جماعت کے خمیر میں ڈھل چکی، اس لئے دیگر قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ان کے نظریات اور مفادات میں ہم آہنگی اتفاقیہ نہیں رہی۔

لیگ کی سیاست اپنے رہنماؤں کی گرفتاریوں، مقدمات سے بچاؤ اور ضمانتیں کرانے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی، نواز شریف کی لندن روانگی اور واپس نہ آنے کے باعث (ن) لیگ کی سیاست کو اگر کسی نے زندہ رکھا تو وہ مریم نواز ہیں، عملی طور پر مرکزی قیادت کا لندن سے نہ آنا، پی پی پی کے لئے ٹرمپ کارڈ ثابت ہوا اور استعفوں کے مطالبے پر نواز شریف کی وطن واپسی پر زور دینے سے اختلافات کا سامنے آ گئے، جو حکومت کے لئے خوش خبری بن گئی۔

شہباز شریف کے تحمل و خاموش سیاست پر یقین رکھنے کی وجہ سے سیاسی طور پر (ن) لیگ عوام سے دور ہوتی جا رہی تھی، نون لیگ کے دیگر قائدین کا اپنا اثر رسوخ ضرور ہے، لیکن جس طرح مریم نواز نے عوام کے درمیان سیاسی جدوجہد میں سبک رفتاری سے اپنی جگہ بنائی، اس کے سیاسی مخالفین بھی معترف ہیں، مریم نواز جارحانہ سیاست پر یقین رکھتی ہیں، انہیں اپنی جماعت میں گروپ بندیوں پر تشویش بھی ہے، لیکن اس کے باوجود جس طرح احتجاجی تحریک، ضمنی انتخابات بالخصوص گلگت بلتستان انتخابات میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا، یہ حکومت کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شریف برادران کی غیر حاضری کے بعد ملکی سیاست میں (ن) لیگ قصۂ پارنیہ بن جائے گی، لیکن جس طرح مریم نواز کھڑی ہوئیں، اس وجہ سے (ن) لیگ میں نئی جان آ گئی۔ اب مریم نواز کی ’بیماری‘ کی وجہ سے خاموشی ایوان اقتدار میں کسی نئی تبدیلی کی بازگشت میں ڈھل چکی، قیاس آرائیوں نے حکومتی ترجمانوں کو بھی غیر یقینی صورت حال سے دوچار کیا ہوا ہے۔

پی ڈیم ایم میں شامل تیسری بڑی سیاسی قوت مولانا فضل الرحمان کی جماعت ہے، ان کے نظریاتی کارکنان کی بڑی تعداد اسلام آباد میں بھونچال پیدا کر سکتی ہے، لیکن انہوں نے پرتشدد سیاست سے گریز کی راہ اختیار کی ہوئی ہے، جلسوں اور ریلیوں میں منظم جماعت و فعال کارکنان کی اکثریت نے مقتدر حلقوں کو بے چین رکھا ہوا ہے، لیکن یہ بھی سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے دینی شخصیت ہونے کے باوجود سیاست میں مذہبی کارڈ کے ناپسندیدہ استعمال سے گریز کیا جو عمومی طور پر دیگر مذہبی جماعتیں اپنی شرائط و مطالبات منوانے کے لئے کرتی ہیں۔

مولانا کے زیر اثر مدارس میں لاکھوں طلبا زیر تعلیم ہیں، اگر وہ چاہتے تو ان کا رخ ’جمہوریت‘ کے بجائے ’خلافت‘ کے نام پر موڑ سکتے تھے، لیکن انہوں نے مدارس کے لاکھوں طلبا کو پارلیمانی سیاست کے تابع رکھا ہوا ہے، اگر مذہبی کارکنان سے احتجاج کرانا چاہتے تو افغانستان و ایران سے بدترین صورتحال کا شکار پاکستان بھی ہو سکتا تھا، مولانا سے سیاسی اختلافات اگر کسی بھی جماعت کو ہیں، تو یہ سیاست کا حصہ ہی ہے، لیکن جس طرح بعض سیاسی جماعتیں اپنے فروعی مفادات کے لئے انہیں استعمال کر کے مایوس کر رہی ہیں، یہ ایک قابل تشویش عمل ہے کہ مولانا بعض سیاسی جماعتوں کی سیاسی چالوں سے مایوس ہو کر ایسا کوئی قدم با امر مجبوری نہ اٹھا لیں، جو کسی کے حق میں بہتر نہ ہو۔

پی ڈی ایم میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کا اثر رسوخ علاقائی (صوبائی) بنیادوں تک محدود ہے، یہ اگر انتخابی اتحاد کی صورت میں مربوط ہو جائیں تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کا انتخابی اتحاد، بکھرے ووٹوں کے یکجا ہونے سے دیگر جماعتی اتحادیوں کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے۔

پی پی پی اور نون لیگ کے رہنما جس طرح ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں کر رہے ہیں، اس سے عوام میں اچھا تأثر نہیں جا رہا ، پی ڈی ایم کے ممکنہ اجلاس سے قبل انہیں باہمی اختلافات کو اس نہج پر لے جانے سے گریز کرنا چاہیے تھا، جس سے ابہام یقین میں بدل جاتا ہے کہ پی ڈی ایم عملی طور پر منقسم ہو چکی۔ پی پی پی ممکنہ انتخابات کے لئے اپنی صفوں کو از سر نو ترتیب دے رہی ہے، ان کی تمام مرکزی قیادت کسی بھی وکٹ پر کھیلنے کے لئے آزاد ہے، ریاستی اداروں کے خلاف بے موقع جارحانہ بیانات دینے میں محتاط ہیں، دوسری جانب (ن) لیگ کی نائب صدر مریم نواز اب پی پی پی سے محتاط ہو چکی ہیں، کیونکہ وہ سمجھ چکی کہ زرداری کی سیاست کو سمجھنا اتنا آسان بھی نہیں، جتنا وہ سمجھ رہی تھی۔

پنجاب میں سینیٹ نشستوں کے لئے پی ٹی آئی و (ق) لیگ سے مفاہمت کے بعد نون لیگ کے بیاینے کو نقصان پہنچا، جسے وہ ڈسکہ الیکشن میں دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن پنجاب حکومت گرانے کے لئے اب نون لیگ کو سینیٹ کی نشستوں پر بلا مقابلہ کامیابی کی طرح، ق لیگ کے لئے راضی کروانا بہت دشوار نظر آتا ہے۔

پی پی پی اور نون لیگ میں اختلافات کی خلیج بڑھ چکی ہے۔ مولانا صاحب کا سینیٹ انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے کا غصہ کم نہیں ہوا۔ تاہم دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی صفوں میں ہلچل کے باوجود حکمراں اتحاد مطمئن نہیں بلکہ ان کی تشویش میں اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے کیونکہ مہنگائی جیسی مضبوط، مشتعل اپوزیشن ریاست کے قابو میں بھی نہیں آ رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments