عورت مارچ کی ”رنڈیاں“ اور امت


کراچی سے شائع ہونے والے ایک اخبار ’امت‘ نے اپنے صفحہ اول پر خبر دی ہے کہ دنیا کے چودہ ممالک ایسے ہیں جہاں عورتوں پر تشدد اور جنسی زیادتی کے واقعات کی سالانہ تعداد پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ تبصرہ نما خبر میں ساتھ ہی پوچھا گیا ہے کہ ”عورت مارچ کی رنڈیوں کو یہ غیر مسلم ملک نظر نہیں آتے؟“

لفظ رنڈی کے لغوی معنی فاحشہ، بازاری اور بد کردار عورت کے ہیں۔ عورت مارچ سے وابستہ خواتین کے لیے ایسے نازیبا الفاظ کے استعمال پر مجھے ذاتی طور پر بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ نہ تو میرا عورت مارچ سے کوئی تعلق ہے اور الحمدللہ نہ ہی میں عورت ہوں۔ (وطن عزیز میں رہتے ہوئے اس بات پر خدا کا شکر لازم ہے )

مذکورہ اخبار کو عورت مارچ والیاں رنڈیاں لگتی ہیں تو ہوں گی۔ غیرت کے نام پر قتل، جنسی زیادتی، گھریلو تشدد، وراثت میں حق تلفی اور سماجی سطح پر صنفی امتیاز کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والی رنڈیاں۔

خبر کے جس پہلو نے البتہ مجھے الجھن میں ڈالا ہے وہ اس میں اٹھایا گیا وہ سوال ہے جس میں پوچھا گیا ہے کہ عورت مارچ کو غیر مسلم ممالک میں ہونے والی زیادتیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟

کیا سوال پوچھنے والے کو لگتا ہے کہ یہ چودہ ممالک عورت مارچ کے زیر انتظام ہیں؟ کہ بھئی پہلے وہاں کی خبر لو پھر یہاں کی فکر کرنا۔ لیکن ظاہر ہے ایسی بات نہیں ہو سکتی۔ یا پھر لکھنے والے کا مقصد ہے کہ اگر وہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو پھر یہاں بھی یہ سب ہوتا رہے۔ اتنا بگڑنے کی ضرورت کیا ہے۔ لیکن اس سوال کا یہ مقصد بھی نہیں ہو سکتا۔

یا یہ کہ خبر میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق کافر ملکوں میں یہ مظالم زیادہ اور ہمارے یہاں بہت کم ہیں۔ اتنے کم کہ خاموشی سے سہ لیے جائیں۔ لیکن خاموشی سے سہ لیے جانے کے لیے کسی بھی ظلم کی کم سے کم مقدار کا تعین کون کرے گا؟ یہ امر بھی عملاً محال ہے۔

تو پھر اس سوال کے پیچھے کارفرما سوچ کیا ہے؟

اس سوال کا محرک دراصل ایک مخصوص نظریہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ معاشرے میں جڑ پکڑ جانے والی ان برائیوں پر احتجاج کی ہر کوشش دراصل مملکت خداداد پاکستان کو بدنام اور عوام کو اپنے ملک سے بیزار کرنے کی ایک سازش ہے۔

صرف خواتین کی مشکلات ہی نہیں آپ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت پر بھی تنقید کریں تو جواب آتا ہے کہ یورپ میں صدیوں تک مسیحی فرقے ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے، آپ کو اپنا ملک ہی برا لگتا ہے۔ مسلمان ممالک کی پسماندگی کا تذکرہ ہو تو جواب آتا ہے کہ مغرب کی چکاچوند سے متاثر ہونے والوں کو وہ دور کیوں یاد نہیں جب مسلمان سائنس دان علم کے افق پر روشنیاں بکھیر رہے تھے اور یورپ جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا تھا۔

کوئی انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھا دے تو دلیل کے طور پر دوسرے ممالک میں جاری شدت پسند رجحانات پر روشنی ڈال دی جاتی ہے۔ اس نظریے کے تحت ملالہ بھی غیر ملکی ایجنٹ ہے جو دنیا بھر میں ملک کو بدنام کرتی پھرتی ہے۔ یعنی بچیوں کی تعلیم اور معصوم شہریوں کا قتل عام کرنے والے طالبان ملک کا نام روشن کرتے تھے، بدنامی کا باعث تو ان کے خلاف آواز بلند کرنے والی لڑکی بنی۔

یہ کیسے دلائل ہیں؟ یہ کیسی سوچ ہے؟

یعنی بیماری کی تشخیص سے مریض صحت یاب نہیں بدنام ہو گا۔ کیا فکر کے اس انداز کو منطقی قرار دیا جا سکتا ہے؟

دنیا کا کون سا ملک ہے جو ان جرائم سے پاک ہو۔ اپنے مسائل کی وہ جانیں ہمیں تو اپنے بکھیڑے خود حل کرنے ہیں۔ کیا خامیوں کی نشاندہی کیے بغیر انہیں دور کیا جا سکتا ہے؟ کیا نا انصافیوں پر خاموش رہنے سے معاشرے میں عدم تحفظ کے احساس کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے؟

سماجی مسائل کے خلاف آواز اٹھانے سے ملکوں کی بدنامی ہوا کرتی تو آج ترقی یافتہ ممالک بدنامی کے پاتال میں گڑے ہوتے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے سماجی انصاف، معاشی خوشحالی، شہری تحفظ اور انسان دوستی کی مثالیں ہم خود دیتے پھرتے ہیں۔

ان ممالک کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جس طرح سے انہوں نے اظہار رائے کی آزادی کی بدولت اپنے معاشروں میں مطلق العنانیت، علمی پسماندگی اور سماجی نا انصافی جیسے چیلنجز پر قابو پایا ہے اسی طرح ایک دن وہ خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی جیسے مسائل پر بھی قابو پا لیں گے۔ جبکہ اس دوران ہم بودے تقابلی جائزوں اور ان سے بے معنی نتائج اخذ کر کے بحث کا رخ اس جانب موڑتے رہیں گے جہاں سے کسی مسئلے کا کبھی کوئی حل نہیں نکلا۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments