مدھو بالا ایک عظیم بیٹی


وی سی آر کے دور کی بات ہے۔ داداجی مرحوم کے بچپن کے دوست جنہیں ہم میاں جی کہتے تھے مجھے گھر بلایا۔ دو نئی ویڈیو کیسٹیں تھمائیں اور ساتھ میں کوئی بیس کے قریب پرانی وڈیو کیسٹس پکڑائیں۔ فرمانے لگے یہ ساری بیس کیسٹس مدھوبالا کی فلموں کی ہیں۔ کام یہ ہے کہ ان ساری فلموں کے جتنے بلیک اینڈ وائیٹ گانے ہو سکتے ہیں، اس ایک نئی تین گھنٹے کی ویڈیو کیسٹ میں بھر دو اور دوسری تین گھنٹے کی نئی ویڈیو کیسٹ میں صرف ‘مغل اعظم‘  فلم کا گانا ’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘  پہلے بیس دفعہ مسلسل بھرنا ہے اور اس کے بعد مدھو کے جتنے کلرڈ گانے ملیں ڈال دو۔

میں :یہ پیار کیا تو ڈرنا کیا والے گانے کو اتنا سپیشل پروٹوکول دینے کی کوئی خاص وجہ؟
میاں جی نے ایک لمبی سانس لی۔ میری طرف دیکھا اور پوچھنے لگے مدھو کیسی لگتی ہے تجھے؟
میں :بہت خوبصورت۔

میاں جی:مدھو آن کیمرہ جتنی خوبصورت لگتی ہے ریئل لائف میں اس سے کہیں زیادہ خوبصورت تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ کیمرہ مدھو کی خوبصورتی کا کچھ پرسینٹیج ہی کیپچر کر پایا ہے۔ کلرڈ کیمرے بہت لیٹ آئے ، اس لئے مدھو کا میجر کام بلیک اینڈ وائیٹ میں ہے۔ یہ والا گانا بھی کلرڈ ہے۔ مدھو کو زیادہ تر کھلے بالوں کے ساتھ پکچرائز کیا گیا ہے لیکن یہاں چٹیا بنائی گئی ہے اور سر بھی کور کر دیا گیا تو اسے صرف چہرے اور ہاتھوں سے گانا کرنا تھا۔ اپنی بات سمجھانی تھی باقی سارا جسم ڈھانپا پوا تھا۔ اس گانے میں مدھو کچھ الگ سی لگتی ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں۔

میں :آپ کو کیسے پتہ وہ حقیقی زندگی میں زیادہ خوبصورت لگتی تھی۔

میاں جی:میرے بچپن کا دوست پاکستان بننے سے پہلے بمبے شفٹ ہو گیا۔ ہم اس سے اور وہ ہم سے کچھ سامان منگواتا تھا۔ کاروباری تعلق بھی بن گیا تھا۔ دوست کی فلم انڈسٹری میں بھی اچھی جان پہچان تھی۔ 65 کی جنگ سے پہلے انڈیا جانا بہت آسان تھا۔ میں تو ’محل‘ فلم دیکھ کر ہی مدھو کا فین بن گیا تھا۔

میں :صرف فین؟

میاں جی:اچھا یار عاشق بن گیا تھا۔ سال میں تین چار مرتبہ کم از کم بمبے آتے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ دوست ہم سب لاہوری دوستوں کو بطور سرپرائز ایک فلم سیٹ پہ لے گیا۔ ٹیبل پہ کھانا لگا ہوا تھا۔ ابھی ہمیں بیٹھے چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ سامنے آ کر ہنستی مسکراتی مدھوبالا زرق برق ساڑھی و کندن کے زیورات پہنے بیٹھ گئی۔ تعارف ہوا۔

مدھو کو یہ جان کر خوش ہوئی کہ ہم سب پاکستان سے آئے ہیں۔ باقی سب نے کھانا شروع کیا اور مجھے تو کھانا کھانا ہی بھول گیا۔ ہم مدھو سمیت ٹیبل پہ کوئی پندرہ لوگ تھے۔ کچھ دیر بعد مدھو مجھ سے مسکراتے ہوئے مخاطب ہوئی: آپ کیا مجھے ہی دیکھے جا رہے ہیں۔ کچھ لیجیے ناں۔

میاں جی: کیا کروں جی آپ سے نظر ہٹانے کو دل ہی نہیں کر رہا۔ ویسے کیمرہ آپ سے انصاف نہیں کرتا۔
مدھو:مطلب؟
میاں جی:آپ کیمرے کی آنکھ سے جتنی خوبصورت لگتی ہیں ریئل لائف میں اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں۔
تعریف کسے اچھی نہیں لگتی۔ مدھو یہ سن کر کھل کھلا کر ہنسی۔
یہ بات تینکیکی طور پہ ویسے کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ آج کیمرہ کتنی ترقی کر گیا ہے ہم سب جانتے ہیں۔

میں :خوبصورت تو میمیں بھی بہت ہیں اور ہوتی ہیں تو مدھو میں ایسی کیا خاص بات ہے؟

میاں جی:آف کورس میمیں بھی بہت سوہنی ہوتی ہیں لیکن تمام تر خوبصورتی کے باوجود نہ جانے کیوں پرائی سی لگتی ہیں۔ انڈ و پاک میں عورت کی خوبصورتی کی انتہا کو مدھو بالا کہتے ہیں۔ انڈ و پاک میں اس سے خوبصورت عورت مجھے تو آج تک کوئی اور محسوس نہیں ہوئی۔ پھر خوبصورتی سے آگے آتی ہے مدھو کی سمائل۔ مادھوری ڈکشٹ جب شروع میں آئی تھی تو اس کی واحد کوالیفیکیشن یہ تھی کہ اس کی سمائل مدھو سے کافی ملتی جلتی ہے۔ پھر آتی ہے پرسنالٹی۔

مدھو کمال ڈاؤن ٹو ارتھ تھی۔ ہر کسی سے مسکرا کر خوش اخلاقی سے ملتی تھی۔ ہیروئنز والا نخرہ نہیں تھا۔ اس سے کئی لوگوں کو غلط فہمی ہو جاتی تھی کہ مدھو انہیں محبت والا پسند کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مدھو انڈ و پاک کی پہلی ہیروئن تھی جسے کریزی فینز سے بچانے کے لئے گارڈز رکھے گئے۔ پھر آتا ہے مدھو کا aura۔ کہتے ہیں مدھو کی موجودگی میں سیٹ پہ ہر بندہ ہیپی موڈ میں رہتا تھا۔ ادھر مدھو سیٹ چھوڑ کر گھر جاتی تھی تو سیٹ پہ جیسے مردنی چھا جاتی تھی۔

شاید اس بات کا اسے بھی احساس تھا؟ کیونکہ سیٹ پہ سب سے پہلے آنے والوں و سب سے آخر میں جانے والوں میں مدھو شامل ہوتی تھی۔ وقت کی کمال پابند۔ اس زمانے میں سٹنٹ وومن کا انڈ و پاک میں تصور نہیں تھا تو کوئی بھی خطرناک سین کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔ ’مغل اعظم‘ کی میکنگ کے دوران اصلی لوہے کی زنجیریں پہنائی گئیں جن سے جلد کئی جگہوں سے چھل گئی لیکن کبھی شکایت نہیں کی۔

پیدائشی نام ممتاز جہاں بیگم دہلوی رکھا گیا۔ تاریخ پیدائش ویلنٹائن ڈے 1933 ہے۔ والد امان اللہ خان یوسف زئی پٹھان تھے۔ گیارہ بہن بھائیوں میں پانچواں نمبر تھا۔ گھر اتنی غربت تھی کہ ایک سگے بھائی کی وفات کے وقت باپ کفن دفن کے پیسے ایک رشتہ دار سے مانگ کر لایا۔ بچپن میں پہلی محبت دلی میں اپنے ہمسائے کے لطیف نامی لڑکے سے ہوئی۔ اظہار ایک سرخ گلاب دے کر کیا۔ یہ لڑکا بعد میں بیوروکریٹ بنا۔ غربت کی وجہ سے سکول نہیں جا سکی۔

بعد ازاں کامیابی کے بعد انگلش اردو وغیرہ کی ٹیوشنز کروائی گئیں اور آٹھ نو سال کی عمر میں بمبے فلم انڈسٹری میں کام باپ کی انگلی پکڑ کر ڈھونڈنا شروع کیا جو مل بھی گیا اور یوں گھر کا خرچہ چلنا شروع ہو گیا۔ آٹھ نو سال کی عمر میں ہی کماؤ اولاد بن گئی۔ گھر کی تمام ذمہ داری اب اس آٹھ نو سالہ کے کندھوں پہ تھی۔ چودہ سال کی عمر میں بطور ہیروئن پہلی فلم کی اور سولہ سترہ سال کی عمر میں 1949 میں پہلی ہٹ فلم ’محل‘ تھی اشوک کمار کے ساتھ۔

وہی ’آئے گا آئے گا آئے گا آنے والا‘ والی فلم۔ کمال امروہوی صاحب نے ان دنوں شادی کی پیشکش کی۔ صاحب پہلے ہی شادی شدہ بچوں والے اور عمر میں کافی بڑے تھے۔ مدھو کے اباجی بھی شادی کے لئے راضی تھے لیکن مدھو کو دوسری بننا منظور نہیں تھا۔ پھر چوڑے ناک والے پریم ناتھ کے ساتھ اور پھر زندگی میں دلیپ کمار کی ”ریئل“ والی انٹری ہوئی۔ اٹھارہ انیس سال کی عمر میں دلیپ کے ساتھ 1951 میں فلم ’ترانہ‘ کی۔ سب نے محسوس کیا کہ بات فلمی رومانس سے کچھ آگے ہے اور تھی بھی۔

دونوں میں محبت شروع ہوئی اور بڑھتی چلی گئی۔ بچپن کی محبت لطیف کی طرح دلیپ کمار کو بھی مدھو نے سرخ گلاب محبت کے اظہار میں محبت نامہ کے ساتھ پیش کیا تھا۔ دو طرفہ محبت بڑھتی گئی۔ پروان چڑھتی چلی گئی۔ دلیپ نے کئی شوٹنگز مدھو سے ملنے کے لئے کینسل کیں۔ کئی دفعہ جہاز پکڑا کہ عید مدھو کے ساتھ اس کے گھر جا کر بتائی جا سکے۔ آخرکار ایک دن دلیپ نے اپنی بڑی بہن کو شگن دے کر شادی کی پروپوزل کے لیے مدھو کے گھر بھیج دیا۔

ابا جی مان گئے لیکن ایک شرط رکھ دی۔ شرط یہ تھی کہ میں امان اللہ خان ایک پروڈکشن ہاؤس بنا رہا ہوں ، جس میں دلیپ و مدھو کام کریں گے اور یہ دونوں اس پروڈکشن ہاؤس کے باہر فلمیں نہیں کریں گے۔ یہ احمقانہ شرط دلیپ کو منظور نہیں تھی تو معاملات بگڑنا شروع ہو گئے۔

یہاں ایک اور پہلو بھی نوٹ کیجیے کہ 1954 میں اکیس بائیس سال کی عمر میں ایک فلم سیٹ پہ شوٹ کرتے ہوئے مدھو کو خون کی الٹی آئی اور بے ہوش ہو گئی۔ سب بڑے حیران پریشان کہ ہوا کیا ہے؟ چیک اپ کروایا گیا تو پتہ لگا عام لفظوں میں کہ مدھو کو پیدائشی طور پر دل میں سوراخ ہے اور پیدائشی بیماری والا معاملہ اب بگڑنا شروع ہو گیا ہے۔ بہرحال مدھو اباجی و مدھو کی فیملی نے یہ بات چھپا لی کیونکہ بیماری کی بات پھیل جاتی تو ایک بیمار کو فلمیں کون آفر کرے گا؟ گھر کا خرچہ کیسے چلے گا؟

1956 میں بی آر چوپڑہ نے ’نیا دور‘ نامی فلم شروع کی۔ دلیپ و مدھو کو سائن کیا گیا۔ ویسے بھی مدھو سب سے زیادہ دلیپ کے ساتھ ہی جچتی تھی۔ پہلے دس دن ان ڈور شوٹنگ ہوئی اور پھر آؤٹ ڈور شوٹنگ شروع ہونا تھی۔ مدھو کے اباجی نے دلیپ کے ساتھ آؤٹ ڈور شوٹنگ سے منع کر دیا۔ سائننگ اماؤنٹ بھی اباجی لے چکے تھے۔ معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ دلیپ کو بھی عدالت میں بلایا گیا۔ سوالات ہوئے جن کے جوابات میں دلیپ نے بھری عدالت میں محبت کا مدھو و اباجی کے سامنے اقرار تو کیا لیکن ابا جی کو لالچی وغیرہ بتاتے ہوئے بی آر چوپڑہ کے حق میں بیان دے دیا۔

مدھو کو یہ بات پسند نہ آئی۔ ایک طرف باپ تھا۔ فیملی تھی جسے وہ پال رہی تھی۔ دوسری طرف محبت تھی اور تیسرا اب بیماری زور پکڑنا شروع ہو گئی تھی۔ مدھو چاہتی تھی کہ دلیپ اباجی سے معافی مانگ لے تو اباجی شادی کے لیے بھی بغیر کسی شرط کے مان جائیں گے اور دلیپ کے بقول اس نے جو کہا سچ کہا تو معافی کس بات کی؟ دونوں میں بول چال بند ہو گئی لیکن فلمیں تو کرنی تھیں۔ کہتے ہیں اس عدالتی کارروائی کے بعد دلیپ ایک مرتبہ مدھو کے کسی دوسری فلم سیٹ پہ آیا۔

مدھو وینٹی وین میں تھی۔ دلیپ وینٹی وین میں داخل ہوا اور کہا قاضی میرے گھر پہ ہے۔ ابھی میرے ساتھ چلو اور نکاح کر لو۔ بیشک اپنی ساری انکم اپنے باپ کو دیتی رہنا۔ میرا تمہاری آمدنی سے کیا لینا دینا۔ مدھو بس بیٹھی دلیپ کا چہرہ تکتی رہی۔ آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ اپنی جگہ سے ہلی نہ بولی۔ کوئی جواب نہ پا کر دلیپ نے دروازہ کھولا اور اس دن دلیپ وینٹی وین کے ساتھ ساتھ مدھو کی زندگی سے بھی نکل گیا۔ بہرحال ’مغل اعظم‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔

’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ گانا سے پہلے ایک سین میں دلیپ نے تھپڑ مارنا تھا۔ اب شوٹنگ پہ موجود لوگ جانتے ہیں کہ اصلی و نقلی تھپڑ میں کیا فرق ہوتا ہے؟ کہتے ہیں دلیپ نے اس قدر زوردار تھپڑ مارا کہ سیٹ پہ موجود ہر شخص ششدر رہ گیا اور مدھو تو سکتے کے عالم میں چلی گئی۔ اس وقت کے۔ آصف نے بڑی عقل مندی کا مظاہرہ کیا۔ مدھو کو بازو سے پکڑا۔ سائیڈ پہ لے جا کر کہنے لگا ”دیکھ لو یہ ابھی بھی تم سے بے تحاشا محبت کرتا ہے۔ اندر ہی اندر جل رہا ہے“ ۔ اگر کے۔ آصف اس دن سے یہ ڈائیلاگ بازی نہ کرتا تو شاید مزید شوٹنگ ختم ہو گئی تھی؟

ایک طرف باپ و فیملی کو پالنا ہے ، دوسری طرف ناراض محبوب و تیسری طرف بڑھتی ہوئی بیماری۔ انارکلی ہر طرف سے پس رہی تھی۔ ’مغل اعظم‘ کا ایک سین جس میں دلیپ مدھو کے چہرے پہ مور پنکھ پھیرتا ہے، انڈین فلم انڈسٹری کے بیسٹ رومانٹک سینز میں گردانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سین تھپڑ والے سین کے بعد فلمایا گیا۔ اس سے دونوں کی پیشہ وارانہ دیانت بھی ثابت ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ دونوں ایک دوسرے سے ناراض ہیں لیکن رومانٹک سین فلما رہے ہیں۔

ان سینز کا ایک اور بڑا دلچسپ اینگل یہ ہے کہ مدھو کے والد صاحب دلیپ کے ساتھ شوٹنگ سین پہ لازمی ساتھ ہوتے تھے۔ دونوں کی ایک دوسرے کے ساتھ ناراضی کے ساتھ مدھو کے اباجی رومانٹک سین فلم بند ہوتا دیکھ رہے ہوتے تھے۔ اب ایسے میں دونوں سے پرفارم نہیں ہو رہا تھا تو کے۔ آصف نے اس کا بڑا مزیدار حل نکالا۔ امان اللہ صاحب رمی کے بڑے شوقین تھے۔ کے آصف نے اپنے ایک اسسٹنٹ کو کچھ پیسے دیے اور بتایا کہ جب میں سین شوٹ کرنے لگوں تو تم نے اباجی کو لے کر رمی کھیلنے نکل جانا ہے اور جان بوجھ کر ہر گیم ان سے ہارنی بھی ہے۔

اس طرح وہ اسسٹنٹ اباجی کو لے کر رمی کھیلنے نکل جاتا اور کے۔ آصف دلیپ و مدھو نے پھر یہ سین فلمائے۔ لکھا تو سولہ چودہ سال ہوا ہے لیکن حقیقت میں یہ فلم نو سال کے عرصے میں بن کر 1960 کو ریلیز ہوئی۔ یہ انڈیا کی سب سے بڑی ، سب سے مہنگی ، سب سے مشہور ، سب سے کامیاب اور سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم رہی اگلے کئی سالوں تک۔ دونوں نے ایک دفعہ پھر ثابت کیا کہ یہ جوڑی اَن میچ ایبل ہے لیکن اس فلم کی ریلیز سے کافی پہلے دونوں ایک دوسرے سے ناراض ہو چکے تھے۔

دونوں طرف انائیں عروج پہ تھیں اور بیماری زور پکڑ رہی تھی۔ مدھو کئی دفعہ ’مغل اعظم‘ کے سیٹ پہ بھی بیمار ہوئی۔ بے ہوش ہوئی۔ کئی دفعہ بقول مدھو کے اس میں بستر سے اٹھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی لیکن جانتی تھی کہ یہ ریکارڈ بریکنگ کامیاب ترین مووی ہے ، اس لئے شوٹنگ کے لیے آ جاتی۔ کہتی تھی ’انارکلی‘ بننے کا موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔ اس لیے میں یہ شوٹنگ مکمل کر کے رہوں گی۔

انیس سو 60 میں یہ فلم ریلیز ہوئی۔ تب تک جسمانی حالت بڑی خراب ہو چکی تھی۔ دلیپ نے ملنا ملانا عرصہ ہوا چھوڑ دیا تھا۔ فیصلہ ہوا کہ باہر جا کر علاج کروایا جائے۔ اس وقت بھی شادی کے تین بڑے امیدوار تھے جن میں کشور کمار صاحب بھی شامل تھے۔ والد صاحب میں اب وہ اکڑ نہیں رہی تھی۔ شاید کماؤ بیٹی کی بڑھتی بیماری نے ہر اکڑ توڑ دی تھی۔ کشور نے زور دیا کہ پہلے شادی ہو جائے پھر ہم میاں بیوی علاج کے لیے باہر چلے جائیں گے۔

آخرکار کشور سے شادی کا فیصلہ ہوا۔ پوچھا گیا کہ کشور کے حق میں فیصلے کی وجہ؟ وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ مجھے ہنساتا ہے اور مدھو کی بہن کے مطابق مدھو دلیپ سے ناراض تھی اور کشور سے شادی ری باؤنڈ اور دلیپ پہ غصے کا اظہار تھی۔ مدھو دلیپ پہ غصہ ضرور تھی لیکن محبت کرنا دلیپ سے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چھوڑی تھی۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ محبت ایک دفعہ ہو جائے تو قبر تک ساتھ چلتی ہے۔ بہرحال کشور نے مسلمان ہو کر 1960 میں شادی کر لی۔

علاج کے لئے لندن لے جایا گیا۔ یہاں یہ یاد رہے اس زمانے میں کارڈیک سرجری سٹون ایج میں تھی تو ڈاکٹروں نے علاج سے معذرت کر لی۔ لندن سے جوڑا واپس انڈیا آ گیا۔ بیماری بڑھتی گئی اور میاں بیوی میں جھگڑے آئے روز ہونے لگے اور جھگڑے کی سب سے بڑی وجہ دلیپ کمار کا تذکرہ تھا۔ پتہ نہیں سچ ہے یا جھوٹ مگر سننے میں آتا ہے کہ کشور نے کئی دفعہ مدھو کو چابکوں سے بھی مارا۔ مدھو شادی شدہ زندگی چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ طلاق یافتہ نہیں کہلانا چاہتی تھی۔

شاید دلیپ کے سامنے ناکام شادی شدہ نہ بننے کی ضد تھی؟ بہرحال جو بھی ہے کچھ عرصے بعد کشور نے مدھو کو میکے بھیج دیا کہ میں انڈسٹری میں بہت مصروف ہو گیا ہوں۔ بیمار کی زیادہ تیمارداری اور خدمت نہیں کر سکتا۔ کشور صاحب دو تین ماہ میں ایک دو چکر لگا لیا کرتے تھے۔ بیماری کی وجہ سے مدھو کے جسم میں خون زیادہ بنتا تھا جسے اس وقت کے علاج کے حساب سے بوتلوں میں بھر بھر کر نکالا جاتا ہے۔ نہ نکالا جاتا تو ناک منہ سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔ سانس لینا مشکل ہو جاتا۔

کہتے ہیں آخری دنوں میں جب مدھو ہاسپٹل داخل تھی تو دلیپ کو ملنے کا پیغام بھیج ہی دیا۔ دلیپ فوراً چلا آیا۔ اس دن مدھو نے بڑی ہمت کر کے بستر چھوڑا۔ تیار ہوئی۔ دلیپ کی پسند کے کپڑے پہنے۔ دلیپ کی پسند کے کندن کے زیورات پہنے۔ بالوں میں دلیپ کی پسند کے پھول لگائے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر آنسو بہاتے رہے۔

مدھو نے دلیپ سے پوچھا کہ اگر میں ٹھیک ہو گئی تو میرے ساتھ ہیرو آؤ گے تو دلیپ نے کہا ضرور آؤں گا۔ مدھو نے صرف 36 سال کی عمر میں 23 فروری 1969 کو وفات پائی۔ دلیپ شہر سے باہر شوٹنگ میں مصروف تھا جب واپس پہنچا تو کفن دفن ہو چکا تھا۔ بقول مدھو کی فیملی کے جنازے میں کشور و دلیپ دونوں موجود تھے۔

کہتے ہیں بچپن کی پہلی محبت لطیف جو بیوروکریٹ بنا جب تک زندہ رہا ، مدھو کی قبر پہ ہر سال آتا اور گلاب کا پھول رکھ کر چلا جاتا۔ یہی بات دلیپ کمار کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے کہ دلیپ کو کئی مرتبہ مدھو کی قبر پہ سرخ گلاب رکھتے دیکھا گیا۔ ہونی کو تو کوئی نہیں ٹال سکتا لیکن اگر مدھو کے والد صاحب اپنی بیٹی کی خوشی کا خیال رکھتے اور مالی عدم تحفظ کا شکار نہ ہوتے تو مدھو کی زندگی کافی خوشگوار گزرتی۔ بقول دلیپ کمار جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ وہ اپنے باپ کی بہت بہت فرماں بردار بیٹی تھی۔ دولت شہرت کامیابی ہونے کے باوجود اس نے اپنے باپ کی بالادستی کے آگے سر جھکا دیا اور یہی اس کی سب سے بڑی خامی تھا۔

کریٹکس کے مطابق مدھو ایکٹر بھی بہت اچھی تھی لیکن اس کی خوبصورتی ہمیشہ اس کی ایکٹنگ پہ حاوی رہی۔ فلم میکرز نے اس کی خوبصورتی کو کیش کرانے کی کوشش کی حالانکہ اس سے صرف ایکٹنگ بھی کروائی جا سکتی تھی جو اس نے موقع ملنے پہ خوب کی۔ بے شک اس کی سمائل کا آج بھی کوئی مقابلہ نہیں جس میں تھوڑی سی سیکس اپیل و معصومیت کا سب سے بہترین رچاؤ ہے۔ مدھو بالا کے چاہنے والوں میں اپنے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل ہیں۔

اب یہ سلسلہ کہاں تک پہنچا؟ معلوم نہیں کیونکہ مدھو کو اپنے باپ کی طرف سے فلمی پارٹیوں ، فلموں کے پریمیئرز ، ایوارڈ شوز ، پرائیویٹ شوز ، ڈیٹنگ کرنے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ لیکن بندے و پانی کا راستہ بھی آج تک کوئی روک سکا ہے۔ بقول فیملی کے وہ خود بھی پارٹیز وغیرہ کی شوقین نہیں تھی؟ ہالی وڈ کی طرف سے بھی آفرز آئی تھیں جو اباجی نے رد کر دیں۔

آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ گریٹ بیٹی کاش باپ بھی اتنا ہی گریٹ بن سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments