پاک بھارت تعلقات کی بحالی کا چیلنج


پاک بھارت تعلقات کی بحالی نہ صرف دونوں ملکوں کے لیے بلکہ علاقائی استحکام کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ تعلقات کی بحالی یقینی طور پر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور ایک بڑی اعتماد سازی سمیت مضبوط سیاسی کمٹمنٹ یا عالمی طاقتوں کے بڑے سیاسی دباو کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ جو اس وقت دونوں ممالک کی سطح پر سیاسی جنگجو ہیں یا جو دشمنی کی بنیاد پر اپنے ایجنڈے کو طاقت دینا چاہتے ہیں وہ یقینی طور پر تعلقات کی بحالی کو اپنے ایجنڈے کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ایک دوسرے کو خط، تعلقات کی بحالی، بہتر تعلقات کی خواہش او رمل کر چلنے کا عزم ایک مثبت پیش رفت ہے۔ کیونکہ بداعتمادی اور ہر سطح پر موجود ڈیڈ لاک کے ماحول میں خطوط کا تبادلہ ایک امید کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پچھلے کئی برسوں پر محیط پاکستان پالیسی میں انتہا پسندانہ رجحانات کو ہی طاقت حاصل رہی ہے۔ ایک بڑے طبقہ کے بقول نریندر مودی اپنے سیاسی عزائم کے باعث پاکستان سے تعلقات کی بہتری نہیں چاہتا او ران کے بقول تعلقات کی بحالی عملاً پاکستان کی سیاسی کمزوری کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ لیکن حالیہ خط میں نریندر مودی کا یہ جملہ اہمیت رکھتا ہے کہ ”ایک پڑوسی ملک کے طور پر بھارت پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات چاہتا ہے۔

“ ان کے بقول دشمنی اور دہشت گردی سے باہر نکل کر ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد سے بھرپور ماحول کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان مسلسل بھارت اور نریندر مودی کو یہ پیغام دیتے رہے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات کو موثر، مضبوط اور اعتماد سازی کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان تواتر سے بھارت کو یہ پیغام دیتے رہے ہیں کہ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم تین قدم آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔

بہت سے سیاسی پنڈتوں کے بقول یہ جو بھارت اور پاکستان کے درمیان خطوط کے تبادلہ کی بنیاد پر جو برف پگھلی ہے وہ پس پردہ قوتوں کی چلنے والی ڈپلومیسی بھی ہے۔ اس ڈپلومیسی یا سفارت کاری میں تین ممالک کی کوششوں کو بھی دیکھا جا رہا ہے جن میں متحدہ عرب امارت، چین اور امریکہ شامل ہیں۔ ان ہی کوششوں میں پاک بھارت امن روڈ میپ، دو طرفہ تجارت کی بحالی، دہشت گردی سے باہمی طور پر نمٹنے کا عملی میکنزئم او رکشمیر کا حتمی فیصلہ بھی شامل ہے۔

یقینی طور پر متحدہ عرب امارات کی کوشش کو بھی بڑی طاقتوں کی ڈپلومیسی کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کی سالانہ فوجی مشقوں میں بھی حصہ لیں گے جس کا مرکزی کردار چین ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت پاکستان او ربھارت کے درمیان جو افغانستان سے جڑے مسائل ہیں ان کو بھی باہمی تعاون کی مدد سے حل کرنے کی کوشش بھی اسی روڈ میپ کا حصہ ہے۔

پچھلے دنوں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اسلام آباد سیکورٹی کانفرنس میں پاک بھارت تعلقات کی بحالی، اقتصادی نکتہ کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی طرف نہ صرف اشارہ کیا بلکہ اپنا گھر ٹھیک کرنے اور بھارت سمیت اردگرد کے ممالک سے تعلقات کی مثبت بحالی، خطہ کے معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت سے گریز، داخلی او رخارجی سطح پر امن کی بحالی، خطہ میں تجارت او رآمدورفت کی بحالی، سرمایہ کاری اور اقتصادی مراکز کے قیام سے پائیدار ترقی کو یقینی بنانا ہے۔

فوجی سربراہ کی اس بات کو اپنے گھر کو درست کیے بغیر ہمیں دوسروں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہیے، کو ایک بڑی مثبت اور تعمیر ی سوچ کے ساتھ دونوں ملکوں میں دیکھا گیا۔ اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر ہمیں عملی طور پر دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کے مثبت کردار کو دیکھنا ہوگا اور نیشنل ایکشن پلان، پیغام پاکستان، سیکورٹی پالیسی، دہشت گرد رعناصر کے خلاف بلاتفریق کارروائی، ملک میں موجود وہ تمام امور جو دہشت گردی کو تقویت دیتے ہیں کا خاتمہ او راس کی عالمی سطح پر بھی پذیرائی خود ہماری بڑی کامیابی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان، فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور اب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے واضح اشارے یا پیغام کو ہر سطح مثبت انداز میں دیکھا جانا چاہیے۔ عمومی طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج تعلقات کی بحالی میں رکاوٹ ہے۔ لیکن اب تو یہ بات کافی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ ہماری سیاسی، عسکری قیادت خود تعلقات کی بحالی کو اپنی بڑی ترجیحات کے طو رپر پیش کر رہا ہے۔ البتہ ہمارا ایک بڑا او ربنیادی نکتہ مقبوضہ کشمیر ہے۔

کشمیر کی موجودہ صورتحال پر کوئی بڑی مثبت پیش رفت او ربھارت کی جانب سے اس اہم اور سنگین مسئلہ پر اپنے روایتی موقف سے ہٹ کر کچھ ایسا کرنا جو کشمیر کے لوگوں کے لیے بھی قابل قبول ہو ایک بڑی اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر کوئی بڑی پیش رفت کے لیے تیار نہیں، لیکن جن قوتوں نے پاک بھارت تعلقات کی بحالی کی سیاسی میز کو سجایا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کشمیر پر کسی بڑی پیش رفت کے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھے گا۔

حالیہ دنوں میں پاکستان کی طرف سے سیاسی عجلت میں پاک بھارت تجارت کی بحالی کا اعلا ن کیا گیا، اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلہ پر وزیر خزانہ حماد اظہر نے بھی اس کا دوٹوک اعلان کیا، لیکن کابینہ نے اس فیصلہ کو فوری طو رپر مسترد کر کے اسے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال میں کسی بڑی تبدیلی کے بغیر ناممکن قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی، پاک بھارت تعلقات کی بحالی میں کشمیر ایک بنیادی مسئلہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔

کشمیر کے مسئلہ کو نظرانداز کر کے تجارت کرنے کا فیصلہ کوئی نیا نہیں۔ بھارت کئی برسوں سے اسی ایجنڈے کو بنیاد بنا کر تجارت کی بحالی پر زور دیتا رہا ہے، لیکن ہمارا موقف کشمیر کو بھی دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے ایجنڈے سے جڑا ہوا ہے۔ جو لوگ پاکستان میں سیاسی تقسیم کی بنیاد پر حکومت پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہماری حکومت نے حالیہ کچھ عرصہ میں کشمیر پر بھارت یا عالمی طاقتوں سے سودا کر لیا ہے یہ فیصلہ ان کے موقف کی نفی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں جو محاذ آرائی حکومت یا حزب اختلاف کی سطح پر موجود ہے اس میں ہم اپنی لڑائی میں قومی اور علاقائی معاملات پر بھی اپنی غیر سنجیدگی دکھاتے ہیں۔

لیکن اچھی بات یہ ہے کہ فوری طور پر پاکستان کی جانب سے تجارت نہ کرنے کے فیصلے کے باوجود دونوں ممالک کی ریاست، حکومت سمیت ادارہ جاتی سطح پر ہمیں ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ ردعمل یا الزام تراشیوں یا دھمکیوں کی سیاست دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ یہ عمل یقیناً ظاہر کرتا ہے کہ دونوں اطراف میں تعلقات کی بحالی کو ایک سنجیدہ کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جو لوگ ڈپلومیسی یا سفارت کاری سمیت پاک بھارت تعلقات کی سیاسی پیچیدگیوں سے آگاہی رکھتے ہیں وہ یہ اعتراف کریں گے تعلقات کی بحالی میں کوئی جادوئی عمل نہیں چلے گا بلکہ اس کے لیے دونوں اطراف سمیت بڑی طاقتوں کو ایک دوسرے کے لیے سازگار ماحو ل کو بڑھانے کے امکانات اور تلخیوں یا الزامات پر مبنی گفتگو سے گریز کر کے نئے سیاسی امکانات کو محدود نہیں کرنا چاہیے۔

یہ جو پاک بھارت تعلقات کی بحالی میں برف پگھلی ہے اس عمل کو بنیاد بنا کر جتنا ہم اسے مضبوط کر سکتے ہیں ہمیں کرنا چاہیے۔ جنرل باجوہ نے درست کہا کہ بھارت او رپاکستان مستحکم تعلقات سے ہی مشرقی اور مغربی ایشیا کے مابین رابطے قائم کرتے ہوئے جنوبی اور وسطی ایشیا کی صلاحیتوں کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں اطراف کے لوگ بہت زیادہ ماضی میں رہنے یا ماضی کا ماتم کرنے کی بجائے مستقبل کی طرف دیکھیں۔ دونوں اطراف کو بامعنی مذاکر ات، معاملات کو سازگار بنانا او رکشمیر کا تصفیہ طلب مسئلہ کے حل پر توجہ دے کر اقتصادی ترقی کو بنیاد بنانا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments