سٹیک ہولڈر یا سٹِک(Stick) ہولڈر؟


سٹیک ہولڈر (Stakeholder) ، آپ نے یہ بھی الفاظ سنے ہوں اور اس اصطلاح سے بخوبی واقف ہوں گے۔ جب بھی ملک میں طاقتور طبقات کے درمیان کھینچا تانی ہوتی ہے اور ملکی حالات خراب ہونے لگتے ہیں یا ہو جاتے ہیں تو مختلف فورمز پر ملکی دانشوروں یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ ان مسائل کا حل یہی ہے کہ ملک کے تمام سٹیک ہولڈر ایک جگہ بیٹھیں، آپس میں ڈائیلاگ کریں اور پھر نئے سرے سے اپنی حدود کا تعین کریں تاکہ ملک کے حالات بہتر ہوں۔

یہ کہنا ہی بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ تباہی کے اصل ذمہ دار یہی سٹیک ہولڈر ہیں۔ سٹیک ہولڈر کہلانے والے یہ لوگ ریاست میں ایک خطیر مشاہرے کے عوض کوئی نہ کوئی ذمہ داری ادا کر رہے ہوتے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ لوگ اپنی من پسند جگہ اڑن چھو ہو جاتے ہیں۔ اصل سٹیک ہولڈر عوام ہیں جو ہر دم اپنے خون پسینے کی کمائی سے ریاست کا وجود قائم رکھتے ہیں۔

زیادہ دور نہ جائیں، قیام پاکستان کی تحریک ہی کو دیکھ لیں، آپ ان عہدوں کی ایک لسٹ بنائیں جن کو پا لینے کے بعد کوئی انسان سٹیک ہولڈر کہلا سکتا ہے، اس کے بعد دیکھیں کہ ان میں کتنے سٹیک ہولڈر تحریک پاکستان میں وہ اعلیٰ عہدے چھوڑ کر قائداعظم کے ساتھ آن کھڑے ہوئے تھے؟

اس مقدس مشن میں یہ سٹیک ہولڈر تو اپنی نوکریاں کرتے رہے، عوام ہی تھے جنہوں نے ہر قسم کی قربانی دی لیکن قائداعظم کا ساتھ نہ چھوڑا۔ جب پاکستان قائم ہو گیا تو سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے تک کے پیسے موجود نہ تھے۔ ان حالات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان سٹیک ہولڈرز کہلانے والوں نے تو پاکستان کو اپنی تنخواہ تک معاف نہ کی لیکن عوام ہر قربانی دیتے نظر آئے۔ لہذا اصلی سٹیک ہولڈر کون ہوا؟

لوگ انہیں سٹیک ہولڈر کہتے ہیں لیکن اگر ملک اور عوام کے حالات پر نظر دوڑائی جائے تو انہیں سٹیک ہولڈر نہیں بلکہ سٹِک ہولڈر (Stick holder) کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ درحقیقت بات بھی یہی ہے کہ ان کے ہاتھوں میں قانون، طاقت اور اقتدار کی چھڑی (Stick) ہوتی ہے جس سے یہ عوام کو ہانک رہے ہوتے ہیں۔ یہ چھڑی ان کے ہاتھ میں خود عوام تھماتے ہیں، چھڑی ان کے ہاتھوں میں تھما کر عوام مختلف طرح کے کاموں میں بیل کی طرح جت جاتے ہیں تاکہ ان چھڑی برداروں کی تنخواہیں پوری کی جا سکیں۔ عوام اپنا کام کرتے رہتے ہیں لیکن سٹیک ہولڈروں کا یہ ٹولہ اپنا حقیقی کردار بھول کر لایعنی قسم کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ان کے جتنے بھی اکٹھ ہوئے ہیں، کیا ان میں ایک بھی اجلاس بھی عوام کی بہتری کے لیے ہوا؟

روس کی بجائے امریکی کیمپ میں جانے کا فیصلہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیا گیا تھا یا اپنے مفادات کے لیے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ اس فیصلے کی قیمت ہمیشہ عوام نے بھری جبکہ فائدے سارے انہی سٹِک ہولڈرز نے اٹھائے۔ لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا، قتل کرنے والی کو موقع پر ہی مار دیا گیا اور قتل کی تحقیقات بند کر دی گئیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا فیصلہ ہو یا بعد ازاں اسے تسلیم کرنے کا فیصلہ، ذمہ داروں کو سزا نہ دینے کافیصلہ ہو یا ایک عرصے تک حمود الرحمان کمیشن رپورٹ چھپائے رکھنے کا فیصلہ، ضیاء الحق کا مارشل لا ہو یا ایوب خانی مارشل لا، ون یونٹ کے قیام کا فیصلہ ہو یا اسے توڑنے کا، دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ ہو یا دارالحکومت ڈھاکا منتقل کرنے کا جھگڑا، قومی زبان کے تعین کا فیصلہ ہو یا قانون انگریزی زبان میں چھاپنے کا فیصلہ، صدر ایوب کا اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ ہو یا ضیاء الحق کا طیارہ ہوا میں پھٹنے کی بات، بھٹو کا تختہ الٹنے کی بات ہو یا اسے پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ۔

بینظیر نواز شریف کے جھگڑے ہوں یا ان کا ایک دوسرے غدار قرار دینے کا عمل، بینظیر کی جلاوطنی ہو یا اسے کسی ”اندھی“ گولی بنانے کا عمل، نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کی بات ہو یا مشرف کا مارشل لا لگانے کا فیصلہ، اس مارشل لا کو آئینی قرار دینے کا فیصلہ ہو یا این آر او دینے کا فیصلہ، بینظیر کی حکومتیں ختم کرنے کا فیصلہ ہو یا اسے سیکیورٹی رسک قرار دینے کی بات، مدرسوں سے مجاہدین کی آبیاری کرنے کا فیصلہ ہو یا پھر انہیں مجاہدین کو ڈالروں کے عوض دہشت گرد کہہ کر امریکا کے ہاتھوں بیچنے کا فیصلہ، افغانستان میں طالبان کی حکومت کو سایہ فراہم کرنے کا فیصلہ ہو یا اسی طالبان حکومت کو ختم کرنے کے لیے اپنے ہوائی اڈے امریکا کو سونپ دینے کا فیصلہ۔

نواز شریف کو قید میں ڈالنے کا فیصلہ ہو یا اسے جلاوطن کرنے کا فیصلہ، جہانگیر ترین کو آنکھ کا تارا بنانے کی بات ہو یا آنکھ کا کانٹا، ندیم بابر کو عہدہ دینے کا فیصلہ ہو یا اس سے عہدہ واپس لینے کا فیصلہ، حفیظ شیخ کو نجات دہندہ قرار دینے کا فیصلہ ہو یا اسے ملکی معیشت کی تباہی کا ذمہ دار قرار دینے کا فیصلہ، یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنانے کا فیصلہ ہو یا اپوزیشن لیڈر بنانے کا فیصلہ، کسی کی بیٹی کے لیے کسی یونیورسٹی میں راتوں رات ایک عہدہ تخلیق کرنے کا فیصلہ ہو یا کسی کی بہن کو نوازنے کے لیے کسی قابل آدمی کو عہدے سے جبری ہٹانے کا فیصلہ ہو، آخر کوئی ایک فیصلہ جو عوام کی بھلائی کے لیے کیا گیا ہو؟

میں اسی لیے کہتا ہوں یہ سٹک ہولڈرز (Stick holders) ہیں جن کے ہاتھوں میں چھڑی ہے اور عوام کی پشت، ٹکا ٹک تازیانے برس رہے ہیں، خون رس رہا ہے، جام بھر رہے ہیں اور ان سٹک ہولڈروں کے ہونٹوں اور چہروں کی لالی برقرار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments