کیا خون کے جماؤ اور آکسفورڈ آسٹرا زینیکا ویکسین کے درمیان تعلق موجود ہے؟



تحریر: روم: ڈوناٹو پاؤلو مانسینی / لندن : انا گراس
ترجمہ: تسلیم نیازی

یورپی میڈیسن ایجنسی کی جانب سے یورپی یونین رکن ممالک کو پہلی بار آکسفورڈ/ آسٹرا زینیکا ویکسین اور خون کے جمنے کی غیرمعمولی اطلاعات کے مابین کوئی تعلق نہ ملنے کی یقین دہانی کے دو ہفتوں بعد ویکسین کے استعمال پر نئی پابندیوں کا اعلان کرنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جبکہ برطانیہ اور آسٹریا نے کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے، فرانس، سویڈن، فن لینڈ، کینیڈا اور حال ہی میں جرمنی نے نوجوانوں کو ویکسین نہ دینے کی سفارش کی ہے۔ ناروے اور ڈنمارک میں یہ ویکسین ابھی بھی معطل ہے۔

یورپی میڈیسن ایجنسی، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور برطانیہ کی تمام ریاستوں کی میڈیسن اور ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی کا کہنا ہے کہ ویکسین کے فوائد کسی بھی ممکنہ خطرے سے کہیں زیادہ ہیں۔ تاہم نہایت معمولی تعداد میں لوگوں میں خون سے متعلق علامات کا غیرمعمولی مجموعہ دیکھنے کا مطلب ہے کہ چند حکومتیں زیادہ احتیاط کے ساتھ سرگرمیوں کا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ابھی بھی کچھ حکومتیں فکرمند کیوں ہیں؟

خطرے کی گھنٹی بجانے والی اس حالت کو سائی نس وین تھرمبوسس کہا جاتا ہے، جس میں دماغ سے آنے والی رگوں میں خون کا جمنا فالج جیسے کسی مرض کا باعث بنتا ہے۔ تشویشناک صورت میں یہ تھرمبو سائٹوپینیا کے ساتھ مل جاتا ہے، جس میں مریض میں پلیٹلیٹس کی سطح غیرمعمولی حد تک کم ظاہر ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں شدید خون بہتا ہے۔ ناروے میں صحت کے حکام نے ویکسین لگوانے والے ایک لاکھ 20 ہزار افراد میں کم از کم چھ ایسے کیس رپورٹ کیے ہیں، جن میں سے چار کی موت واقع ہو گئی تھی۔ جرمنی میں 27 لاکھ افراد کو ویکسینیشن کے بعد خون جمنے کی علامات کے 31 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں 20 سے 63 برس کے درمیان 29 خواتین، اور 36 اور 57 سال کی عمر کے دو مرد شامل ہیں۔ ان میں سے 9 کی موت واقع ہو گئی۔

یورپی میڈیسن ایجنسی کے کہا کہ مجموعی طور پر اس ویکسین کی ڈوز لینے والوں میں 62 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، لیکن ان میں جرمنی کے تمام کیسز شامل نہیں تھے۔ ای ایم اے نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس کے سبب کا ویکسین کے ساتھ کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا تھا۔

جرمنی میں محققین کی ایک ٹیم کی جانب سے پیش کردہ مفروضہ یہ ہے کہ آسٹرا زینیکا ویکسین کچھ لوگوں میں مدافعتی ردعمل کو حد سے زیادہ برانگیختہ کر سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں جو خون کے پلیٹ لیٹس کو نشانہ بناتے ہیں۔

محققین میں سے ایک کے مطابق خون جمنے اور پلیٹ لیٹس کی کم تعداد کا غیرمعمولی امتزاج جرمنی میں سالانہ ایک لاکھ افراد میں سے ایک کو متاثر کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ آسٹرا زینیکا ویکسین کی ویکسینیشن کے دو ہفتوں کے اندر اندر 31 کیسز کی نشاندہی کی گئی ہے جو واقعات کی معمول کی شرح سے 20 گنا زائد ہے۔

مفروضے کی تیاری میں مدد دینے والے جوبون یونیورسٹی میں ٹرانسفیوژن میڈیسن کے پروفیسر جوہانس اولڈن برگ نے کہا کہ یہ صرف اعداد نہیں ہیں، یہ ایک طریقہ کار بھی ہے۔ یہ ایک پہیلی کی طرح ہے جہاں مختلف زاویوں سے اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ یہ کچھ غیرمعمولی ہے۔ جوہانس اولڈن برگ نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اس کا کافی امکان ہے کہ یہ کیسز آسٹرا زینیکا ویکسین سے وجود میں آئے ہوں۔

کیا عمر اس کا ایک عنصر ہو سکتی ہے؟

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ویکسین اس منفی ردعمل کا باعث بن رہی ہے تو مختلف ممالک میں مختلف واقعات کی سطح ویکسین لینے والے ان افراد کی مختلف عمر پروفائل کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ جس نے فائزر اور آسٹرا زینیکا کے یکساں شاٹ استعمال کرتے ہوئے طبی عملے اور معمر افراد کو پہلے ویکسین دی اس کی بہ نسبت براعظم یورپ نے 60 برس سے کم عمر افراد کو آسٹرا زینیکا ویکسین دی ہے۔ برطانیہ میں آسٹرا زینیکا کے شاٹ کا انجیکشن لگوانے والے ایک کروڑ 37 لاکھ افراد میں خون جمنے کے صرف 5 واقعات سامنے آئے ہیں جو 34 لاکھ افراد میں سے ایک کے برابر ہے۔

برطانیہ میں آسٹرا زینیکا ویکسین کے آغاز سے اس کا مطالعہ کرنے والے ساؤتھیمپٹن کے ڈرگ سیفٹی ریسرچ یونٹ کے ڈائریکٹر سعد شاکر نے کہا کہ یہ مختلف عمروں کے گروپس میں مختلف ویکسین استعمال کرنے والے مختلف ممالک کا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جو اس فرق کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ سعد شاکر نے کہا کہ اس کا امکان تھا کہ زیادہ مضبوط مدافعتی نظام رکھنے والے کچھ کم عمر افراد کو ویکسین سے غیرمعمولی شدید مدافعتی اثرات کا سامنا کرنا پڑے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات بھی درست ہے کہ کم عمر افراد اور بالخصوص نوجوان خواتین عام طور پر اس طرح کی غیرمعمولی خون جمنے کی اقسام کے لئے زیادہ حساس ہوں۔ عمومی آبادی میں یہ علامات مردوں کے مقابلے میں خواتین میں تین گنا زیادہ عام ہیں، اور متاثرہ افراد کی اوسط عمر 33 برس ہے۔

تاہم یورپی میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے ) نے کہا ہے کہ وہ اب تک خون جمنے اور عمر، جنس یا سابقہ ہسٹری سمیت مخصوص خطرے کے عوامل کے مابین کسی تعلق کو شناخت نہیں کرسکے۔ ای ایم اے کے سربراہ ایمرکون نے کہا کہ اس وقت ہماری تحقیقات کے اس مرحلے پر تعلق ممکن ہے اور ہم اس مقام پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تاہم ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جو کسی بھی آبادی میں اس ویکسینیشن کے استعمال کو محدود کرنے کی حمایت کرے گا۔

ای ایم اے اور چند یورپی سائنس دانوں کی پوزیشن میں یہ فرق متنوع اور بعض اوقات متنازع قومی مشورے کا باعث بنے ہیں کہ کسے ویکسین لینی چاہیے اور کسے نہیں۔

آسٹرا زینیکا ویکسین کے بارے مختلف مشورے

فرانس اور کینیڈا 55 برس سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین پر پابندی عائد کر رہے ہیں
جرمنی واحد ملک ہے جو 60 برس سے زائد عمر کے افراد کو اس کی سفارش کر رہا ہے
اٹلی 80 برس سے کم عمر افراد کو ویکسین پر پابندی عائد کر رہا ہے
آسٹریا اور برطانیہ نے اب تک کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے
سویڈن اور فن لینڈ صرف 65 برس سے زائد عمر کے افراد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔
ناروے اور ڈنمارک میں کم از کم وسط اپریل تک شاٹ معطل ہے
سوئٹزرلینڈ نے اب تک ویکسین کی منظوری نہیں دی ہے

کیا اسی طرح کے واقعات دیگر ویکسینز میں بھی سامنے آئے ہیں؟

زیادہ نہیں۔ برطانیہ میں فائزر ویکسین لینے والوں میں سے کم از کم دو افراد میں اسی طرح خون جمنے کی کم از کم دو اطلاعات موصول ہوئیں، جبکہ ویکسین کی ایک کروڑ دس لاکھ خوراکیں دی جا چکی ہیں۔

بون یونیورسٹی میں اولڈن برگ نے کہا کہ ان لوگوں میں جنہوں نے یورپ میں استعمال ہونے والی کووڈ 19 کی کوئی بھی ویکسین حاصل کی تھی، خاص طور پر فائزر اور موڈرنا کی تیار کردہ شاٹس لیں وہ ان میں اس طرح کی رپورٹس یا یا کم ازکم متعدد واقعات سے آگاہ نہیں۔

برطانوی حکومت کو مشورے دینے والے ویکسی نائزیشن اینڈ امیونائزیشن کی مشترکہ کمیٹی (جے سی وی آئی) کے ایک رکن نے کہا کہ قطعی طور پر یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ فائزر کی خوراک اس طرح کے مسائل کا باعث نہیں تھی۔ کمیٹی کے رکن نے کہا کہ یورپ کے ماہرین نے آسٹرا زینیکا ویکسین کا زیادہ قریب سے جائزہ لیا ہے، اس لئے انہیں مزید معلومات مل گئیں۔

اس صورتحال میں برطانیہ کیا کر رہا ہے؟

برطانیہ میں حکام کا کہنا ہے کہ ویکسینیشن پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کے لئے موجود شواہد ناکافی ہیں۔ اور حتیٰ کہ اگر کوئی باہمی تعلق قائم ہو بھی تو چند برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود بھی ویکسینیشن کا عمل جاری رکھنا قابل فہم ہوگا کیونکہ خون جمنے کے انتہائی کم واقعات سامنے آئے ہیں۔

جے سی وی آئی کے رکن نے کہا کہ برطانیہ کا موقف واضح ہے کہ آسٹرا زینیکا اور فائزر غالباً محفوظ ہیں، یا خطرات اتنے کم ہیں کہ فوائد ان سے بڑے پیمانے پر کہیں زیادہ ہیں، لہٰذا ہمیں ان کا استعمال جاری رکھنا چاہیے۔

اس شخص نے یورپی اقدامات کو قبل از وقت بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ مستقبل میں اس کا امکان تھا کہ کم عمر کے گروپس کے لئے ان کے استعمال میں ترمیم کا معاملہ ہو، لیکن ہم اس وقت سے کافی دور ہیں۔

جرمنی کے اولڈن برگ نے کہا کہ وہ برطانیہ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں، اگرچہ کہ انہیں اس بات کا پختہ یقین ہے کہ آسٹرا زینیکا ویکسین کا شاٹ ان علامات کا سبب بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مجھے فوری طور پر آسٹرا زینیکا ویکسین لگوانے یا موڈرنا کے لئے چار ہفتوں کے انتظار میں سے کسی کا انتخاب کرنا ہوتا تو میں آسٹرا زینیکا ویکسین کا انتخاب کروں گا، کیونکہ چار ہفتوں کے دوران کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ کہیں زیادہ ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسٹرا زینیکا کا کہنا ہے کہ ان کی آزمائش سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ویکسین محفوظ اور موثر ہے اور ویکسینیشن کے آغاز سے ہی وہ اس کے ضمنی اثرات کی بھی نگرانی کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments