مغل بادشاہ اورنگزیب کا خزانہ لوٹنے والا بحری قزاق کون تھا؟


ماضی کا خطرناک بحری قزاق اور اپنے دور کی سب سے دولت مند حکومت کا خزانہ لوٹنے والا ہینری ایوری ایک بار پھر خبروں میں ہے۔

حال ہی میں ایک شوقیہ امریکی کھوجی جم بیلی نے امریکہ کی ریاست میسا چوسٹس، رہوڈ آئی لینڈ اور کنیٹی کٹ سے ملنے والے مجموعی طور پر 15 سکوں کے متعلق اپنی تحقیق میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ سکے 17 ویں صدی میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے عہد کے بحری جہاز ‘گنجِ سوائی’ پر لدے خزانے کے ہیں جسے بدنامِ زمانہ برطانوی بحری قزاق ہینری ایوری نے لوٹ لیا تھا۔

جم بیلی نے کہا ہے کہ ان سکوں کی امریکی ساحلی علاقوں میں دریافت سے ہینری ایوری اور اس کے ساتھیوں کی امریکہ آمد کا سراغ ملتا ہے۔

گنجِ سوائی پر لوٹ مار کا یہ تاریخی واقعہ ستمبر 1695 میں پیش آیا تھا جب ہینری ایوری نے اپنے قزاق گروہ کے ساتھ مل کر اربوں روپے مالیت کا سونا چاندی لوٹ لیا تھا اور جہاز پر سوار مسافروں کی قتل و غارت اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور زیادتی بھی کی گئی تھی۔

اس واقعے کے بعد برطانیہ کے بادشاہ ولیم سوم نے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو مغل شہنشاہ اورنگزیب کے عتاب سے بچانے کے لیے ہنری ایوری کو ‘انسانیت کا دشمن’ قرار دے کر اس کے سر پر 500 پاؤنڈ کے انعام کا اعلان کیا تھا جسے بعد میں بڑھا کر 1000 پاؤنڈ کر دیا گیا تھا۔ یہ اس دور کے اعتبار سے خاصی بڑی رقم تھی۔

اس اعلان کی بنیاد پر ہینری ایوری کو تاریخ کا پہلا بین الاقوامی مطلوب شخص قرار دیا جاتا ہے۔

ہینری ایوری کون تھا؟

بحری قزاق ہینری ایوری پر 2020 میں ‘Enemy of all Mankind’ کے نام سے کتاب لکھنے والے مؤرخ اسٹیون جونسن کے مطابق گنجِ سوائی کی مہم سے ہینری ایوری نے جو سونا چاندی اور زر و جواہر لوٹے تھے ان کی مالیت آج کے دور میں دو کروڑ ڈالر سے زائد بنتی ہے۔

‘انسائیکلوپیڈیا آف برٹینیکا’ کے مطابق ہینری ایوری کے نام سے مشہور ہونے والے اس بحری قزاق کا اصل نام جون ایوری تھا۔ وہ 1653 میں جنوب مشرقی برطانیہ کی کاؤنٹی ڈیون کے ساحلی شہر پلیمتھ میں پیدا ہوا۔ قزاق بننے سے قبل ایوری برطانیہ کی شاہی بحریہ میں شامل ہوا۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصہ تجارتی قافلوں کا بھی حصہ رہا۔ کچھ عرصہ کیریبئن اور بحر الکاہل میں جنوبی امریکہ کے ساحلوں پر ہسپانوی آبادیوں اور بحری جہازوں پر حملے کرنے والے مہم جوؤں کے ساتھ بھی رہا جنہیں ‘بکینیر’ کہا جاتا تھا۔

سن 1691 میں قزاقی شروع کرنے سے قبل وہ غلاموں کی تجارت کرنے والے قافلوں کا بھی حصہ رہا۔ 1694 میں ایوری اسپین کے ایک بحری جہاز کے عملے میں شامل ہو گیا جہاں اس نے جہاز کے کپتان کے خلاف بغاوت کر کے جہاز ہتھیا لیا اور اس کا کپتان بن گیا۔ ایوری نے اس بحری جہاز کا نام تبدیل کر کے ‘فینسی’ کا نام دیا۔

سن 1695 میں افریقہ کے اردگرد کئی بحری قافلوں اور جہازوں کو شکار کرنے کے بعد بحری قزاقوں کے کئی اور جہاز بھی ایوری کے بیڑے میں شامل ہو گئے۔ قزاقوں کے اس بیڑے نے بحیرۂ احمر کا رُخ کیا اور اسی بیڑے نے بعد میں مکہ سے حاجیوں اور بھاری مقدار میں سونا چاندی اور دیگر قیمتی اشیا لانے والے مغل سلطنت کے جہاز ‘گنجِ سوائی’ کو نشانہ بنایا۔

گنجِ سوائی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

مکہ سے واپسی پر یہ بحری جہاز ہندوستان کی بندرگاہ ‘سورت’ کے قریب تھا کہ بحرِ ہند میں ایوری کے بحری جہاز ‘فینسی’ نے اسے آ لیا اور گولہ باری سے پہلے ہی ہلے میں جہاز کے 40 فٹ لمبے مستول کو نشانہ بنایا جس کی وجہ سے جہاز کی رفتار سست ہو گئی۔

لڑائی کا آغاز ہوا اور اسی دوران گنجِ سوائی پر موجود ایک توپ پھٹ گئی جس سے بھاری جانی نقصان ہوا۔ دوسری جانب ایوری کے جہاز سے ہونے والی گولہ باری اور اس کے قزاقوں کے تیز حملے کے باعث جلد ہی جہاز پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ قزاقوں نے جہاز پر قتل و غارت کی اور اس میں موجود خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔

مغل دور کے مؤرخ خافی خان کی کتاب ‘منتخب اللباب’ اور مختلف تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حملے میں کئی خواتین نے زیادتی سے بچنے کے لیے سمندر میں کود کر اپنی جان دے دی۔ تاریخ میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ اس وقت جہاز میں جہانگیر کے شاہی خاندان کی ایک خاتون بھی سوار تھیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی خطرے میں پڑ گئی

سن 1650 سے 1730 کے دور کو بحری قزاقی کا ‘سنہری’ دور کہا جاتا ہے۔ اس دوران قزاقوں کے چھوٹے بڑے گروہ سمندر کے تجارتی راستوں پر اپنی بالادستی قائم کر چکے تھے اور ان کی کارروائیوں کی وجہ سے کئی سلطنتوں کے باہمی تعلقات متاثر ہو رہے تھے۔

گنجِ سوائی کے واقعے سے قبل 1613 میں پرتگالی تاجروں نے ایک مغل بحری جہاز کو یرغمال بنا لیا تھا جس کے بعد جہانگیر سے ان کے تعلقات خراب ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد ہی برطانوی سفارت کار سر ٹامس رو کو مغل سلطنت سے روابط بڑھانے کا موقع ملا۔ ان روابط کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنے قدم جمانا شروع کیے اور سورت اور بمبئی کی بندرگاہوں کے نزدیک قلعہ بند آبادیاں بھی بنائیں۔

گنجِ سوائی کی لوٹ مار میں بچ چانے والے جب سورت پہنچے تو اورنگزیب نے کمپنی کے مقامی ایجنٹس کو اس کا ذمے دار ٹھیراتے ہوئے قید میں ڈلوا دیا۔ اورنگزیب کی اس کارروائی سے ہندوستان میں کمپنی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا۔

مغل سلطنت کے اس سخت ردِ عمل کے بعد ہی برطانوی بادشاہ ولیم سوم نے ہینری ایوری کے سر کی بھاری قیمت مقرر کی اور اسے بین الاقوامی سطح پر مطلوب شخص قرار دے دیا گیا۔

تاریخ کا نیا موڑ

مصنف اسٹیون جونسن نے اپنی کتاب میں اس واقعے کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے ہینری ایوری کو ‘انسانیت کا دشمن’ قرار دینے کے اس اعلان کے ذریعے برطانیہ نے اپنے قانونی دائرۂ اختیار کو بڑے بحری راستوں تک وسیع کر دیا جس نے بعد میں اسے تجارت کی بنیاد پر ایک وسیع ترین سلطنت قائم کرنے میں مدد دی۔

ایوری کا انجام کیا ہوا؟

برطانوی سلطنت کی جانب سے ایوری اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری پر بڑے انعام کا اعلان ہوچکا تھا۔ وہ گنجِ سوائی سے ہاتھ آنے والا خزانہ تقسیم کر کے کیریبئن اور مختلف امریکی علاقوں میں روپوش ہوچکے تھے۔ ‘انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا’ کے مطابق ایوری اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ برطانیہ واپس آیا تھا جہاں اس کے کئی ساتھی پکڑے گئے اور ان کے خلاف مقدمات بھی چلائے گئے لیکن ایوری کسی کے ہاتھ نہیں آیا۔

ہینری ایوری سے متعلق تحقیق کرنے والوں کو جس طرح اس کے ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت سے حقائق معلوم نہیں ہو سکے اسی طرح اس کی زندگی کے آخری دن بھی پُراسراریت کے پردوں میں چھپے ہیں۔ ہینری ایوری کی زندگی کے بارے میں کئی افسانے مشہور ہوئے اور اس کے کردار کو بحری قزاقی اور مہم جوئی پر لکھے گئے فکشن میں استعمال کیا گیا۔

ایوری پر لکھے گئے فکشن پر تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ 1700 کے بعد ابتدائی دو دہائیوں میں اس کے نام سے منسوب ایک طویل نظم، یادداشتوں کی کتاب سمیت پانچ کتابیں لکھی جاچکی تھیں۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا کے مطابق ایوری کی موت 1696 کے بعد برطانیہ کے ٹورج ڈسٹرکٹ کے ایک تاریخی ساحلی شہر بیڈفورڈ میں ہوئی۔ لیکن دیگر کئی تاریخی کتب میں اس کے آخری دنوں کے حوالے سے مختلف کہانیاں مشہور ہیں۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا کے مطابق ان میں سے ایک کہانی یہ بھی ہے کہ مغل سلطنت کا اتنا بڑاخزانہ لوٹنے والے اس قزاق کو برسٹل کے ایک سوداگر نے بے وقوف بنا کر اس کی دولت ہتھیا لی اور اپنے دور کے سب سے امیر بادشاہ کو غضب ناک کرنے والا یہ شاطر دماغ غریبی اور مفلسی کی حالت میں مرا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments