بحیرہ احمر میں پھنسے چھ پاکستانی ملّاحوں میں سے پانچ کی پاکستان واپسی، ایک ملّاح جانبر نہ ہو سکے

محمد زبیر خان - صحافی


بحیرہ احمر میں پھنسے چھ پاکستانی ملّاحوں میں سے پانچ منگل کو واپس وطن پہنچ گئے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والے ایک پاکستانی کی میّت مصر سے پہنچائی جا رہی ہے۔

پانچوں پاکستانیوں کو مصر سے براستہ دوحہ کراچی پہنچایا گیا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکن انصار برنی کے مطابق پانچ پاکستانی ملّاحوں دلدار احمد، سلام الدین، عبدالغنی، محمد اسماعیل اور علی محمد سے کراچی میں ایف آئی اے نے بھی کچھ دیر تک تفتیش کی تھی جس کے بعد انھیں گھر بھیج دیا گیا ہے، جبکہ محمد شفیع کی میّت پہنچائی جا رہی ہے اور اس کے لیے تمام انتظامات مکمل ہیں۔

یاد رہے کہ تنزانیہ کے پرچم سے مزیّن مہر نامی بحری جہاز بحیرہ احمر میں مارچ کے وسط میں خراب ہو گیا تھا جس کے بعد جہاز پر موجود چھ پاکستانیوں پر مشتمل عملہ بے یار و مددگار رہ گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

وہ چاند گرہن جس نے کولمبس کو فاقوں مرنے سے بچایا

’بحیرہ احمر میں پھنسے پاکستانی ملاحوں کو بچا کر مصر پہنچا دیا گیا‘

نہر سوئز کے علاوہ تجارت کے لیے دنیا کے اہم بحری راستے کون سے ہیں؟

بعد میں اُنھیں پاکستانی حکومت کی ہدایت پر سمندر میں ہی امدادی سامان پہنچایا گیا تھا تاہم ملّاحوں نے اپنی آٹھ ماہ کی تنخواہیں واجب الادا ہونے اور قانونی پیچیدگیوں کے پیشِ نظر جہاز چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔

جس وقت اُنھیں یہ امدادی سامان پہنچایا گیا تھا اس وقت تک بھی اُنھیں اس بحری جہاز پر پھنسے ہوئے تقریباً 17 دن ہو چکے تھے۔

عملے کو اس دوران سمندر کا پانی پی کر گزارا کرنا پڑ رہا تھا اور وہ ڈیزل اور پیٹرول ملے ہوئے پانی میں چاول ابال کر کھانے پر مجبور تھے۔

اس بدقسمت بحری جہاز کے نائب کپتان دلدار احمد نے کراچی میں اپنے گھر پہنچنے کے بعد بی بی سی کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ جہاز کے دونوں انجن خراب ہو چکے تھے اور وہ ہوا کے زور پر اپنی مرضی سے سمندر میں سفر کر رہا تھا۔ ہوا اس کو جدھر چاہتی، ادھر ہی مڑ جاتا تھا۔

’اس دوران 26 مارچ کو تیز ہوائیں چلنی شروع ہوئیں۔ جہاز سمندر میں موجود انتہائی خطرناک چٹانوں سے ٹکرا کر مصر کے ایک جزیرے کے کنارے پہنچ گیا تھا۔ اس جزیرے پر ہم انتہائی خطرناک مقام پر پھنس چکے تھے جہاں سے محفوظ مقام پر کسی مدد کے بغیر پہنچنا ممکن نہیں تھا۔‘

دلدار احمد کا کہنا تھا کہ جہاز میں تیزی سے پانی بھر رہا تھا اور یہاں تک کہ پانی اُن کے سینوں تک پہنچ چکا تھا۔ ’ہم مدد کے لیے بار بار سرخ گولے فائر کر رہے تھے۔ ہم مصر کی حدود میں تھے جبکہ سوڈان کی سرحد بھی قریب تھی مگر ہماری مدد کو کوئی نہیں آ رہا تھا۔‘

’ہم لوگ مایوسی کی انتہا تک پہنچ چکے تھے۔ موت سامنے نظر آرہی تھی۔ ہم سب اپنے بیوی بچوں کو یاد کر رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ کیا ہماری لاشیں کبھی اپنے وطن اور پیاروں کے پاس پہنچ پائیں گی کہ نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب رات گہری ہوئی تو مدد کی کوئی امید نہیں رہی تھی۔ ’اس موقع پر ہم لوگوں نے ایک دوسرے کو اپنے پیاروں کے بارے میں پیغامات دیے کہ اگر کوئی بچ گیا تو وہ یہ پیغامات ضرور پہنچا دے۔‘

’وہ رات گزر گئی اور صبح کی روشنی ہوئی تو ایک بار پھر گولے پھینکنے شروع کر دیے تھے۔ اس موقع پر بھی کوئی بھی مدد نہیں ملی مگر قریب میں بسنے والے کچھ نوجوان ماہی گیر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر ہماری مدد کو آئے۔‘

دلدار احمد کے مطابق اُن تک پہنچنے کے لیے پہلے اُن نوجوانوں نے تین، چار گھنٹے محنت کر کے راستہ بنایا اور پھر اس کے بعد اُن کی طرف بڑھے۔ وہ رسیاں لگا کر آ رہے تھے اور ان ہی رسیوں کی مدد سے وہ اُنھیں اپنی کشتی پر پہنچا کر محفوظ مقام پر لے گئے تھے۔

اُنھوں نے بتایا کہ اس جدوجہد میں رات ہو گئی تھی۔ ’وہ رات ہم لوگوں نے ان کی بستی ہی میں گزاری۔ انھوں نے ہمیں کھانے پینے کی اشیاء اور رات گزارنے کے لیے چھت دی۔ یہ طویل عرصے بعد تھا کہ ہم لوگ سکون کی نیند سو سکے تھے۔‘

’صبح ہوئی تو اُن سے کہا کہ ہمارے بارے میں پولیس کو اطلاع دو تو انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ ہم لوگوں کو محفوظ مقام پر چھوڑ دیں گے جہاں سے ہم لوگ آگے کا راستہ خود بنائیں۔ انھوں نے ہم سے درخواست کی تھی کہ ہم ان کے بارے میں پولیس وغیرہ کو کچھ نہ بتائیں ورنہ ان کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔‘

محمد شفیع کی موت

محمد دلدار بتاتے ہیں کہ ان نوجوانوں نے اُنھیں سمندر کا پانی فلٹر کرنے کے کسی پلانٹ کے پاس چھوڑا، جس کے عملے نے اُنھیں مصر کی فوج کے حوالے کر دیا، اور بالآخر اُنھیں 29 مارچ کی رات تک مصری بحریہ کے پاس پہنچا دیا گیا۔

’مصر کی نیوی ہمارے بارے میں جانتی تھی کیونکہ ان کے ساتھ پاکستان نیوی نے رابطہ قائم کر رکھا تھا۔ سب سے پہلے وہاں پر ہمارا طبی معائنہ ہوا۔ ہم سب کی حالت بہت خراب تھی، مگر محمد شفیع کی حالت زیادہ خراب تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران دو اپریل کو محمد شفیع کی طبعیت زیادہ خراب ہوئی اور وہ اُن کے سامنے ہی دم توڑ گئے۔

دلدار احمد کہتے ہیں کہ محمد شفیع اس مشکل گھڑی میں نہ صرف اُن کے رہبر تھے بلکہ اُن کے کئی سالوں کے انتہائی اچھے اور گہرے دوست بھی تھے۔ ’اب پاکستان پہنچ تو گیا ہوں مگر یہ سوچ سوچ کر پریشان حال ہوں کہ میں محمد شفیع کے بچوں کا سامنا کیسے کروں گا۔‘

دلدار احمد نے بتایا کہ اسی دوران پاکستانی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی کرنل نوید وہاں پہنچے جنھوں نے قانونی اور کاغذی کارروائی مکمل کرنے کے بعد اُنھیں اپنے ساتھ قاہرہ پہنچا۔

وہاں ان سب افراد کو ہوٹل میں ٹھہرایا گیا، کورونا کے ٹیسٹ کروائے گئے اور واپسی کے انتظامات کیے گئے جس کے بعد وہ چھ اپریل کو پاکستان واپس پہنچ گئے۔

تاہم دلدار احمد کہتے ہیں کہ ’ہم اپنے بچوں سے مل کر خوشی بھی نہیں منا سکے کہ محمد شفیع کا تابوت کسی بھی وقت پہنچنے والا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp