پاکستان میں بنگالی برادری: جمناسٹکس کی ماہر کرن کی راہ میں شناختی دستاویزات کی رکاوٹ حائل

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


پاکستان، بنگالی،

’لوگ میرے ابو کو کہتے تھے کہ اپنی بیٹی کو جمناسٹک سیکھنے سے روکو کیونکہ یہ کھیل کھیلنا لڑکیوں کا کام نہیں ہے۔ ابو مجھے روکتے تھے لیکن میں ضد کر کے سکول آتی اور جمناسٹک سیکھتی رہی۔ جب سکولوں کے مابین مقابلہ ہوا تو میں ابو کو ساتھ لے گئی تاکہ وہ دیکھیں کہ یہاں ماحول کیسا ہے اور اس کے بعد ابو نے مجھے کہا کہ اب نہیں رُکنا بس۔ پھر ابو نے نہیں روکا تو باہر کے لوگ بھی خاموش ہو گئے۔‘

اور پھر وہ دن بھی آیا جب 13 سالہ کرن طالبات کی اُس ٹیم کا حصہ بنیں جس نے روس کی جانب سے حال ہی میں منعقد کیے گئے ’انٹرنیشنل آن لائن چیئرلیڈنگ فیسٹیول‘ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔

مگر کرن کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ’باہر کے لوگوں‘ نے اُن کی ایک ایسا کھیل کھیلنے پر مخالفت کی جو اُن کے بقول ’لڑکیاں نہیں کھیلتیں۔‘

یہ بین الاقوامی مقابلہ جس میں کرن اور ان کی ساتھیوں نے شرکت کی وہ آن لائن تھا۔ اگر اُنھیں اس مقابلے میں شرکت کے لیے روس جانا پڑتا تو شاید ایسا ممکن نہ ہو سکتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کرن کے والد کے پاس پاکستان کا قومی شناختی کارڈ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

فرض کریں آپ بنگالی ہیں!

افغان اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو شہریت دینے پر غور

بنگالی اور افغان شہریوں کی پاکستانی شناخت پر تشویش کیوں؟

کرن بتاتی ہیں کہ ’ہم نے چیئرلیڈنگ کے بین الاقوامی مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ یہ مقابلہ آن لائن تھا۔ ہمارے ابو کے پاس پاکستان کا قومی شناختی کارڈ نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم باہر (کسی دوسرے ملک) نہیں جا سکتے۔‘

کرن اور اُن کی ٹیم گذشتہ چار برسوں سے انٹر سکول جمناسٹک مقابلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کر رہی ہے۔ خود کرن ’بیسٹ جمناسٹک گرل‘ کا ٹائٹل بھی حاصل کر چکی ہیں۔

غریب آبادی کے اُڑتے تارے

کرن کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں واقع ’امکان ویلفیئر آرگنائزیشن‘ کے ایک سکول میں زیر تعلیم ہیں۔ مچھر کالونی کراچی کی سب سے بڑی کچی آبادیوں میں سے ہے جہاں بسنے والوں کی اکثریت بنگالی برادری پر مشتمل ہے جنھیں غیر قانونی تارکینِ وطن سمجھا جاتا ہے۔

یہاں بسنے والے زیادہ تر افراد کا روزگار سمندر میں ماہی گیری اور اس سے متعلقہ شعبوں سے وابستہ ہے جبکہ بیشتر خواتین گھروں اور فیکٹریوں میں جھینگوں کی صفائی کا کام کرتی ہیں۔

دھول اور کچرے سے اٹی ہوئی سڑکوں کے درمیان امکان ویلفیئر آرگنائزیشن کا سکول موجود ہے جہاں روزانہ بچوں کو دو گھنٹے جمناسٹک کی کلاس دی جاتی ہے۔

پاکستان، بنگالی،

نو سال سے 14 سال کی عمر کے زرد رنگ کے لباس میں ملبوس یہ بچے بیلنس بیم، پیرلل بار، فلور ایکسرسائیز، پومل ہارس اور ٹیبل والٹ پر چلتے اور فضا میں اچھلتے کودتے ہیں۔

مچھر کالونی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں مذہبی جماعتوں کا گہرا اثر و رسوخ ہے اور یہاں کئی مدارس بھی موجود ہیں۔

اگرچہ یہاں قرب و جوار میں نصف درجن کے قریب سرکاری سکول بھی ہیں تاہم ان سکولوں میں داخلے کے لیے والدین کا پاکستانی ہونا ضروری ہے۔ اگر والدین کے پاس شناختی کارڈ نہیں تو سرکاری سکول میں داخلہ نہیں ملتا۔

لڑکوں کو دیکھ کر شوق ہوا

کرن بتاتی ہیں کہ یہاں پہلے لڑکے جمناسٹک سیکھتے تھے۔ ’انھیں دیکھ کر مجھے بھی شوق ہوا اور کچھ عرصے بعد لڑکیوں کی بھی جمناسٹک کی کلاسیں شروع ہوگئیں، جس کو دیکھ کر میں بھی امکان سکول میں آ گئی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ابتدا میں علاقے کے لوگ ان کے والد کو کہتے کہ یہ (جمناسٹک) کھیل لڑکیوں کے لیے نہیں ہیں مگر وہ ضد کر کے سکول آ جاتیں اور جمناسٹک کلاسز میں تربیت لیتی رہیں۔

پاکستان، بنگالی،

کارڈ نہیں تو کوئی حیثیت نہیں

مچھر کالونی کے رہائشی اکثر بنگالی افراد کے پاس پاکستان کا قومی شناختی کارڈ نہیں ہے۔

کرن کے والد محمد ظفر کا ابتدا میں شناختی کارڈ بنا ہوا تھا مگر پھر اسے بلاک کر دیا گیا۔

محمد ظفر نے اپنا پرانا شناختی کارڈ دکھاتے ہوئے بتایا کہ ’یہ دیکھیں، بھٹو کے زمانے میں ہمارا کارڈ بنا تھا، اس کے بعد مشرف کی حکومت میں بھی ہمارا کارڈ جاری ہوا لیکن اب بلاک کر دیا ہے۔ وہ (نادرا اہلکار) کہتے ہیں کہ کسی خون کے رشتے دار کو لاؤ جس کا حکومتی ریکارڈ میں پہلے سے اندراج ہو۔ میری ایک ضعیف بہن ہے جو چل پھر نہیں سکتی، اس کو کہاں لے جاؤں۔‘

ظفر

محمد ظفر کا پرانا شناختی کارڈ

محمد ظفر کا کہنا ہے کہ ’شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو سرکاری سکول میں داخلہ نہیں ملتا، ماہی گیری کے لیے سمندر میں جاتے ہیں تو کسٹمز والے نہیں جانے دیتے، کسی ادارے میں ملازمت اور مزدوری کے لیے بھی شناختی کارڈ چاہیے، بغیر شناختی کارڈ کے تو پولیس بھی روک لیتی ہے۔‘

امکان ویلفیئر آرگنائزیشن کی ڈائریکٹر طاہرہ حسن کا کہنا ہے کہ ان کے سکول میں جگہ کم ہے اس لیے کوشش ہے کہ جمناسٹک کے لیے کوئی بڑی جگہ حاصل کی جائے جہاں بچے پریکٹس کر سکیں۔

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے کرن اور ان جیسی دیگر لڑکیوں، جن کے والدین پاکستان کا شناختی کارڈ نہیں رکھتے، کو درپیش مسائل کے حوالے سے وزیرِ اعظم اور حکومت سندھ کو لیٹر بھی لکھے مگر اس کا کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔

طاہرہ حسن چاہتی ہیں کہ یہ بچے اور بچیاں عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کریں جو شناختی دستاویز کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

مراعات ہیں لیکن شہریت نہیں

پاکستان

پاکستان میں قومی رجسٹریشن کے ادارے نادرا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے پاس سنہ 1979 سے پاکستان میں قیام کا کوئی ثبوت ہے تو اس کو قومی شناختی کارڈ فراہم کر دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ان کو غیر قانونی تارکینِ وطن سمجھا جائے گا۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کے علاوہ باقی جو بھی تارکین وطن ہیں انھیں تین اقسام کی شناختی دستاویزات کا اجرا کیا جاتا ہے، جن میں سمارٹ کارڈ فار ایلین، ورک پرمٹ اور چلڈرن ایلین کارڈ شامل ہیں۔

ترجمان کے مطابق ان شناختی دستاویزات کی بدولت وہ بینک اکاؤنٹ کھولنے، گاڑی خریدنے، کرائے پر گھر حاصل کرنے اور نجی شعبے میں ملازمت حاصل کرنے جیسے کام کر سکتے ہیں مگر نہ تو ووٹ دے سکتے ہیں، نہ پاسپورٹ بنوا سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔

تاہم بنگالی برادری کی جانب سے اکثر یہ شکایت کی جاتی رہی ہے کہ بسا اوقات مذکورہ دستاویزات پیش کرنے کے باوجود بھی اُنھیں شناختی کارڈ نہیں بنا کر دیے جاتے۔

مگر سماجی اور ریاستی رکاوٹوں کے باوجود ہنستی مسکراتی کرن پُرعزم ہیں کہ وہ ایک روز ضرور پاکستان کے لیے قومی سطح پر کھیلیں گی اور اس کے بعد عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کریں گی۔

کرن کے والد کہتے ہیں کہ ’کوئی مدد کرے نہ کرے، میں اپنے تمام تر وسائل اور توانائی لگا کر اپنی بیٹی کا خواب پورا کروں گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp