معراج بھائی (قسط 2)۔


سب کزنز نے عفت پر دھاوا بولا کیونکہ تیمور سے ابھی وہ اتنے بے تکلف نہیں ہوئے تھے اور وہ اپنی جاب کے سیکنڈ انٹرویو کی تیاری میں مصروف تھی۔ اس نے ایم ایس سی سائیکالوجی میں یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا اور لیکچرر شپ اس کا دیرینہ خواب تھا۔

ارے میری منگنی ہو رہی ہوتی تو میں یہ جاب شاب کھڈے میں پھینکتی یار!
کشمالہ نے اس کو کاغذ کی ایک گولی بنا کر مارتے ہوئے کہا
بھئی پوری زندگی کی محنت داؤ پر لگی ہے، منگنی ونگنی تو ہوتی رہے گی
وہ بظاہر لاپروائی سے بولی مگر حسین آنکھیں دل کا حال صاف کہہ رہی تھیں
اچھا بتاؤ کتنے گھنٹے روز تیمور سے بات ہوتی ہے، تم لوگ ڈنر پر گئے؟
احمر نے کافی کے سپ لیتے ہوئے پوچھا
بس جس دن بات طے ہوئی تھی ۔اس دن تھوڑی دیر کے لئے، اور نو ڈنر
وہ ہنستے ہوئے بولی
مگر اب دل میں یہ خیال آیا تھا کہ واقعی دوبارہ بات کیوں نا ہوئی
سب کزنز تیمور کے ہینڈ سم ہونے کہ ساتھ ساتھ اس کے کلچرڈ اور آرٹسٹک
ھونے کے بھی مداح تھے اور سب نے ہی کہا کہ دونوں ایک دوسرے کے
لئے ہی بنے ہیں، وہ ہنستی رہی، خوش ہوتی رہی اور اپنا اتھل پتھل ہوتا
دل سنبھالتی رہی۔

اگلا پورا ہفتہ وہ اپنے انٹرویو کے سلسلے میں مصروف رہی۔ جاب کے حکومتی امتحانات میں بھی اس نے ٹاپ کیا ، سو وہ بہت پرامید تھی کہ اس صبح پھپھو کا فون آیا کہ وہ لوگ شام کو آئیں گے۔ اصل میں وہ لوگ منگنی کا بڑا فنکشن کرنے کے بجائے جلد شادی کرنا چاہ رہے تھے اور مشورے کے لئے آ رہے تھے۔
شام بھی آ پہنچی، آج بھی اس نے پیچ سوٹ پہنا، جس پر گولڈن سا کام تھا اور بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنا لیا، زیور کے نام پر وہی ناک میں لونگ اور میچنگ ٹاپس، ہلکا پھلکا میک اپ، وہ بالکل تیار تھی اور اس کے چہرے پر نظر نہ ٹھہر رہی تھی، رضوانہ بیٹی کا صدقہ اور نظر اتارتے نہ تھک رہیں تھیں کہ سسرالی قافلہ آن پہنچا تھا۔

وقار احمد حال ہی میں حکومتی سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ اس لئے اختیارات اور ٹھاٹ باٹ میں چار چاند لگ چکے تھے اور گارڈز کا تام جھام بھی ساتھ ہی تھا۔ پرجوش استقبال ہوا۔

سسر نے ماشاء اللہ کہہ کر گلے لگایا، ساس نے ماتھا چوما اور نظر اتاری۔ عفت نے ایک چور نظر تیمور پر ڈالی مگر وہ اس وقت ٹیکسٹ کرنے کے ساتھ ساتھ معراج بھائی سے کوئی بات کر رہا تھا، اسے کچھ مایوسی ہوئی کیونکہ آج وہ اس کی ساری توجہ اپنے اوپر دیکھنا چاہتی تھی، اور اس کی آنکھوں میں اپنے حسن کا اعتراف دیکھنا چاہتی تھی ۔ بہرحال سب آ کر بیٹھنے لگے اور معراج بھائی مٹھائیوں، فروٹس اور تحائف کے بڑے بڑے باسکٹس رکھوانے لگے تھے۔

سب ہی باتوں میں مصروف ہو گئے اور باتیں بھی کیا وہی بس سیاست کے بارے میں ،  باتوں کے دوران ہی وقار احمد نے بتایا کہ ایک حکومتی ایم این اے کا انتقال ہو گیا ہے۔ اور اب اس سیٹ کے لئے تیمور کو ٹکٹ ملنے کا امکان ہے، عفت کو سن کر حیرت ہوئی کہ باہر پڑھنے لکھنے کے بعد کیا وہ اس کرپٹ سسٹم میں سروائیو کر سکے گا۔

پھپھو نے چھوٹی سی رسم کرنے کی اجازت چاہی اور دو خوبصورت جڑاؤ کڑے اس کی کلائی میں پہنا دیے، تیمور نے ہیرے کی بہت قیمتی انگوٹھی پہنائی اور اس کا ہاتھ ہلکا سا دبا کر چھوڑ دیا، عفت کا رنگ لو دینے لگا اور وہ اس کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے ہنس دیا۔

مگر ساتھ ہی دوسرا ہاتھ بھی ہلکا سا دبا دیا۔ سسر نے بھاری رقم دی اور معراج بھائی نے بھی بیس ہزار دے کر سر پر ہاتھ رکھا اور ڈھیروں دعائیں دیں اور یہیں سے ان کی اہمیت واضح تھی۔

ایک پرتکلف کھانے کے بعد محفل دوبارہ جم گئی تھی اور باتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ وہیں سے جڑ گیا۔
تیمور باہر نکل گیا اور عفت کسی لطیف اشارے کی منتظر تھی تاکہ وہ بھی نظر بچا کے اس کے پیچھے جا سکے۔
اشارہ تو تیمور نے کیا ہو گا مگر میں نے شاید مس کر دیا
اس کو یقین تھا، اس لئے وہ ذرا اداس ہو گئی۔
بیٹا آپ کو جاب انٹرویو میں اپیئر ہونے ضرورت نہیں
اس کے سسر نے پائپ کا کش لیتے ہوئے کہا
جی؟
عفت کو لگا کہ اس نے کچھ غلط سنا ہے
ہاں آپ کو اپائنٹمنٹ لیٹر مل جائے گا، پھر آپ کی مرضی ہے جوائن کریں یا نہیں
وہ بے حد اطمینان سے بولے

عفت کے جوش و خروش پر ایک اوس سی پڑ گئی، بھلاجو مزہ میرٹ پہ جاب کا تھا وہ اس طرح کیسے ۔ میرون شال اس نے ہلکی سی سر پہ ٹکا رکھی تھی اور پھوپھا کی بات سمجھتے ہوئے کافی کنفیوز لگ رہی تھی
نہیں پھوپھا جان، اس ہفتے میں فائنل۔
اس نے کہنا چاہا
معراج دین!
ان بارعب آواز گونجی
اور معراج بھائی بن بوتل کے جن کی طرح نمودار ہوئے اور ان کے ہاتھ میں ایک سفید لفافہ تھا
بی بی کو دو
وہ تحکمانہ لہجے میں بولے
معراج بھائی نے قریبی سائیڈ ٹیبل پر پڑی ایک پلیٹ میں لفافہ رکھا اور نہایت احترام سے اسے پیش کیا
عفت نے جیسے ایک شاک کے عالم میں کھول کر دیکھا، واقعی ہی اپائنٹمنٹ لیٹر ہی تھا اور دو ماہ بعد کی جوائننگ ڈیٹ تھی، کہیں دور تیمور اور عمر ثمر کے قہقہوں کی آواز آ رہی تھی اور اسے لگ رہا تھا کہ گویا اس پر ہنس رہے تھے۔

کمرے میں مبارک باد کی ہلکی سی بھنبھناہٹ سی پھیلی مگر وہ مسکرا بھی نہ سکی، تینوں لڑکے بھی دوبارہ آ گئے تھے مگر وہ تو گویا شاک کے عالم میں بیٹھی تھی ، لیکچرر شپ اس کا دیرینہ خواب تھا اور اس کا ریکارڈ اتنا اچھا تھا کہ کسی سفارش ضرورت نہیں تھی۔

وہ لوگ کافی دیر بیٹھے، تیمور کو کوئی کام تھا سو وہ معراج بھائی کے ساتھ پہلے نکل گیا
ساس سسر شادی کی ڈیٹ طے کر کے نکلے اور یہ لگ بھگ وہی دن تھے جو جاب جوائن کرنے کے تھے۔
ان کے نکلنے کے بعد خوب رونا دھونا عفت نے کیا اور اپنی نیچر کے برعکس چیخی چلائی
یہ لوگ مجھے جاب نہیں کرنے دیں گے، دیکھا نہیں آپ نے وہی ڈیٹس ہیں جو شادی کی ہیں
وہ سوں سوں کرتی رہی
ایسی بات نہیں ہے بیٹا اور جوائنگ ڈیٹس وقار بھائی چینج کرا لیں گے، رو مت پلیز!
ابا نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا، ان کو بھی وقار احمد کی بات اچھی نہیں لگی  تھی مگر بیٹی کے سامنے کچھ کہنے سے انہوں نے گریز کیا تھا۔
پھر دن گویا پر لگا کر اڑ گئے ۔ پھپھو لوگوں کی طرف سے ڈئیزائنرز اور جیولرز کی دن رات آمدورفت ہو رہی تھی۔ ہر ہر چیز میں اس کی پسند و ناپسند کا خیال رکھا جا رہا تھا

یوں لگ رہا تھا کہ گویا کسی شہزادی کو بادشاہ بیاہنے آ رہا تھا، ماں باپ سجدہ شکر ادا کرتے نہیں تھک رہے تھے، پھپھو بھی تیمور کے ساتھ چکر لگاتی رہتیں اور ہمیشہ قیمتی تحائف عفت کے لئے لاتی تھیں۔

تیمور اور اس کے درمیان ابھی ایک جھجک سی تھی حالانکہ وہ اس کے عشق میں پور پور ڈوب چکی تھی۔ مگر تیمور نے کبھی ایسی کوئی کھٹی میٹھی بات نہ کی کہ جس کو یاد کر کے وہ دنوں اپنا دل سنبھالتی۔
پندرہ دن پہلے تقریبات کا آغاز دونوں گھروں میں میلاد سے ہوا، پھر چچا ماموں خالہ کے یہاں ڈھولکیاں ہوئیں اور خاندان کے لڑکے اور لڑکیاں ناچ ناچ کر پاگل ہوتے رہے اور ہر ڈھولکی کا اختتام تیمور کی ستار پرفارمنس پر ہوتا رہا۔ مایوں پر کزنز نے تیمور اور عفت کو بھی گھسیٹا اور ان دونوں نے ایک ڈوئیٹ پر ہلکا پھلکا سا ڈانس کر کے محفل لوٹ لی۔

مہندی پر ایک مشہور سنگر نے سب کے دل کو گرمایا، وقار احمد کے مہمان سلیبرٹیز سے کم نہیں تھے اور عفت تو اپنے آپ کو پرستان کی ملکہ سمجھ رہی تھی۔
شادی اور ولیمے پر دلہن کی تیاری کے لئے شہر کے مشہور ترین سیلون کی بہترین ٹیم گھر پر آ رہی تھی۔ خاندان کی باقی خواتین کی تیاری بھی قابل دید تھی۔ رنگوں ،خوشبوؤں ، روشنیوں اور دولت کا ناقابل بیان مظاہرہ تھا اور پھر دلہن بال بال موتی اور
ہیرے جواہرات پروئے سسرال میں اتری جہاں بے شمار رسمیں اس کی منتظر تھیں۔ وہ تھک کر چور ہو چکی تھی اور بمشکل دھک دھک کرتے دل کو سنبھال رہی تھی
عفت نے ایک خوشحال، کھاتے پیتے اور روشن خیال خاندان میں آنکھ کھولی تھی

اپنی کزنز لڑکیوں کے چھوٹے موٹے افیئرز اور لڑکوں کے فلرٹ اس سے چھپے ہوئے نہیں تھے اور وہ سب کے ساتھ مل کر انجوائے بھی کرتی تھی مگر اپنی زندگی ہر قسم کی آلائشوں سے پاک رکھی تھی اور سچ یہ تھا کہ تیمور پہلی نظر میں اس کے دل میں اتر گیا تھا مگر اپنے اوپر قابو رکھنا اسے آتا تھا ، اس لئے اس نے بس ایک محتاط فاصلہ رکھا تھا مگر جب اللہ تعالی نے گوہر نایاب خود ہی اس کی جھولی میں ڈال دیا تو کیسے نہ خود پر ناز کرتی، وہ اپنے آپ کو بے حد خوش نصیب سمجھ
رہی تھی اور۔۔۔ تھی بھی۔

جاری ہے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments