وزیراعظم، فحاشی اور “امت“ کی سوچ اور زبان



نیک اور پارساؤں کے اخبار نے عورت مارچ کی عورتوں کے لئے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ، وہ اچھے سچے اور پکے مسلمانوں کی سوچ کی عین عکاسی کرتے ہیں۔ کسی بھی ٹخنوں سے اوپر شلوار کے حامل مسلمان سے، نورانی چہرے والے اور گز بھر لمبی داڑھی والے حوروں کے متلاشی آدمی سے بات کر کے دیکھ لیں وہ یہی الفاظ استعمال کرتا نظر آئے گا، بلکہ اس لفظ کے آگے پیچھے غلیظ قسم کی گالیوں کا اضافہ بھی کرے گا۔

ان پرہیزگار لوگوں کے نزدیک ہر وہ عورت رنڈی ہے جو عبایہ نہیں پہنتی، ہر وہ عورت گمراہ اور جہنمی ہے جو دوپٹہ نہیں اوڑھتی۔ ان کے نزدیک تو ہر وہ عورت بدکار ہے جو گھر سے باہر نکلتی ہے۔ جو سکول اور کالج جاتی ہے، جو یونیورسٹی میں پڑھتی اور پڑھاتی ہے، جو ملازمت کرتی ہے۔ غرض کہ جو بھی عورت چاردیواری سے باہر ہے وہ قابل حصول اور غلط عورت ہے، اس کو چھونا جائز ہے، اس پر آوازے کسنا عین اسلامی ہے، اور اس کو گھورنا عین عبادت ہے۔

امت اخبار نے پورے ملک کے اچھے مسلمانوں کی ترجمانی کی ہے۔ کسی بھی پارسا محفل میں بیٹھ جائیے، کسی بھی نیک اور پرہیزگار کا انداز گفتگو ملاحظہ فرما لیں، سوشل میڈیا پر لکھے گئے کمنٹس دیکھ لیں آپ کو یہ لفظ اور اس سے ملتے جلتے گھٹیا الفاظ اور غلیظ خیالات سننے کو ملیں گے۔ انہوں نے بس یہ کیا ہے کہ ان خیالات اور الفاظ کو چھاپ دیا ہے۔

جس ملک کا وزیراعظم جنسی زیادتی کو فحاشی اور بے پردگی سے نتھی کرتا ہو،  اس ملک کے عوام کی عورتوں کے بارے میں سوچ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے، یعنی اگر آپ کا لباس مناسب نہیں تو پھر اگر جنسی زیادتی ہو جاتی ہے تو اس میں آپ کا قصور ہے، کیونکہ مرد تو ایک جنسی بھیڑیا ہے جس کو اگر گوشت کی دکان نظر آئے گی تو وہ تو اس پر جھپٹے گا ہی، اور یاد رہے یہ وہی وزیراعظم ہے جس کی ہر تقریر اس جملے سے شروع ہوتی ہے کہ مجھ سے زیادہ مغربی کلچر کو کوئی نہیں جانتا، میں وہاں رہا ہوں، میں وہاں پلا بڑھا ہوں۔ کیا وہاں پر ریپ کے واقعات اس لئے ہوتے ہیں کہ عورتوں نے آدھے ادھورے کپڑے پہنے ہوتے ہیں؟

کیا وزیراعظم صاحب نے یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے سوچا کہ وہ درندوں اور بھیڑیوں کو کلین چٹ دے کر بلکہ ان کی وکالت کر کے عورتوں اور بچوں کو مزید خطرے سے دوچار کر رہے ہیں۔

کیا وزیراعظم کی بیوی بشری بی بی کی بجائے جمائمہ اور ریحام خان ہوتیں تو پھر بھی یہ ایسا ہی بیان دیتے؟ ریحام خان اور جمائمہ تو اسکرٹ بھی پہنتی تھیں، جینز بھی زیب تن کرتی تھیں، دوپٹہ بھی نہیں اوڑھتی تھیں، عبایہ بھی نہیں پہنتی تھیں۔ تو ان کے بارے میں بھی ذرا وزیراعظم صاحب لب کشائی کریں۔ کیا انہیں بھی فحاشی پر لیکچر دیا کرتے تھے؟

وزراعظم صاحب سے ایک اور بھی سوال ہے کہ آپ اتنے بڑے عہدے پر بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں سارے ملک کی ایجنسیاں اور ادارے آپ کے ماتحت ہیں آپ نے یہ جو بیان دیا ہے کہ فحاشی کی وجہ سے جنسی زیادتی ہوتی ہے، تو آپ کا یہ بیان کسی ریسرچ کی بنیاد پر ہے؟ کسی ایجنسی یا ادارے کی رپورٹ پر منحصر ہے؟ یا یہ آپ کا تجربہ یا ذاتی خیال ہے۔ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ جنسی زیادتی کی وجہ فحاشی ہے؟

وزیراعظم صاحب قوم کی اکثریت کی نبض پہچانتے ہیں کہ ان کے لیول پر آ کر کیا عامیانہ قسم کی بات کرنی ہے جس سے ان کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہ ہو، بلکہ الٹا واہ واہ ملے۔ چاہے وہ بات حقائق کے کس قدر منافی اور دروغ گوئی پر مبنی ہی کیوں نہ ہو۔ ان سے پوچھا جائے کہ پاکستان کیوں ترقی نہیں کرتا؟ جواب آتا ہے، کیونکہ پاکستان کا سارا پیسہ باہر چلا جاتا ہے۔

مہنگائی کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟ کیونکہ ڈالر مہنگا ہو گیا ہے۔ عورتوں اور بچوں کے ریپ کیسز کیوں بڑھ گئے ہیں؟ کیونکہ عورتیں پردہ نہیں کرتیں۔ اس طرح کے مہمل جوابات دینے کے بعد نہ تو انہیں کسی مسئلے کی ذمہ داری قبول کرنا پڑتی ہے اور نہ ہی حل کرنا پڑتا ہے۔ اور نہ ہی ان کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔

محترم وزیراعظم! جنسی زیادتی پر آپ کا بیان آپ کی لاعلمی اور بے خبری یا شاید بددیانتی کو ظاہر کرتا ہے۔ کسی سوشل سائنٹسٹ سے پوچھیے یا بریفنگ لیجیے کہ خواتین کے ساتھ ریپ اور چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔

ویسے بھی ساری زندگی یورپ کے ساحلوں پر بکنی پہنے خواتین کے جھرمٹ میں گزارنے کے بعد آپ پاکستان کی باحیاء اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ مناسب لباس پہننے والی خواتین کو پردے اور فحاشی پر بھاشن دیتے اچھے نہیں لگتے۔

خیبر پختونخوا میں بچیوں کو زبردستی عبایہ پہنا کر شاید آپ کے تئیں آپ کے ووٹ بینک میں تو اضافہ ہو جائے لیکن یقین کریں اس سے ہراسمنٹ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

یہ وہی خیبر پختون خواہ ہے جہاں کی گومل یونیورسٹی کا اسلامی شعبے کا سربراہ کئی دہائیوں تک طالبات اور ساتھی اساتذہ کا جنسی استحصال کرتا رہا اور بے شمار الزامات اور شکایات کے باوجود اسے عہدے سے نہیں ہٹایا گیا،  یہاں تک کہ اقرار الحسن کو ایک سٹنگ آپریشن کے ذریعے اس کے کرتوت ریکارڈ کرنا پڑے۔

شرمناک بات یہ ہے کہ گورنر جو اب تک سو رہے تھے ، اس کارروائی کے فوراً بعد اقرارالحسن کو مبارکباد کا فون کرتے ہیں۔ اس سے آپ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی دلچسپی عورتوں کو تحفظ دینے میں نہیں بلکہ صرف شو بازی میں ہے۔

سوچ بدلنے کی ضرورت ہے جو کہ کسی خاص ایجنڈے کے تحت ضیائی مارشل لاء میں غیر ملکی طاقتوں کی ضرورت کے تحت اس قوم میں پیدا کی گئی تھی جس کا خمیازہ ہم نے ہزاروں جانوں اور اربوں ڈالر کے نقصان کی صورت میں بھگتا ہے۔ خیال تھا کہ ایک آکسفورڈ کا پڑھا لکھا، مغربی ممالک میں پلا بڑھا، جمائمہ اور ریحام خان جیسی جدید سوچ کی مالک عورتوں کا سابق شوہر جب حکومت میں آئے گا تو سوچ بدلے گا۔ تقدیر بدلے گا، لیکن ہوا بالکل اس کے برعکس، ہم پر ایک اور ضیاء مسلط ہو گیا۔

پتہ نہیں اس ملک کی قسمت میں اور کتنا اندھیرا لکھا ہے۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جو بھی روشنی کا سرا نظر آتا ہے سراب ہی نکلتا ہے، کیا اس ملک کی تقدیر کبھی بدلے گی؟ ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں اس ملک کو روشن، بڑھتا اور پھولتا پھلتا دیکھیں گی؟

منیر نیازی یاد آتے ہیں۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments