ایک پائلٹ ایمازون جنگل میں طیارہ گرنے کے بعد 36 دن تک کیسے زندہ رہا؟


Antonio with the people who rescued him

Antonio Sena

برازیل کے وسیع ایمازون جنگل میں تنہا گم ہویے انتونیو کو کم از کم یہ معلوم تھا کہ انھیں کس چیز سے سب سے زیادہ خوف ہے، ‘ایمازون کے بڑے شکاری جانور، جیسے چیتے، مگرمچھ، اور بڑے بڑے اژدہے۔‘

لیکن اس 36 سالہ پائلٹ کو صرف کسی مہلک جانور کی اگلی خوراک بنے کی پریشانی نہیں تھی بلکہ انھیں اپنے لیے کھانے پینے اور محفوظ جگہ کا بھی انتظام کرنا تھا۔

یہ ایک انتہائی مشکل کام تھا اور انھیں خود احساس تھا کہ ان کا طیارہ گرنے کے بعد ان کو ریسکیو کرنے میں کئی دن لگ سکتے تھے۔

لیکن انھیں یہ خیال نہیں تھا کہ انھیں ایک ماہ تک بھوک اور پیاس میں اکیلے زندہ جینا پڑے گا۔

طیارے کا گرنا

انتونیو کا آخری ریڈیو پیغام کچھ اس طرح شروع ہوا، ‘مے ڈے مے ڈے مے ڈے، پاپا، ڈینگو، انڈیا، رومیو، جولیئٹ گر رہا ہے۔‘

جنوری میں ایک دور دراز کان تک اشیا پہنچانے کے لیے وہ جس طیارے کو اکیلے اڑا رہے تھے، اس میں مسئلے پیدا ہو چکے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘نو سو میٹر کی بلندی پر اس کا اینجن بند ہو گیا تھا اور مجھے جنگل کے درمیان میں مجبوراً لینڈنگ کرنی پڑی تھی۔‘

درختوں کی شاخوں سے ٹکراتے انھوں نے معجزاتی طور پر اپنے سیسنا طیارہ کو ایمازون دریا کے شمالی میں کہیں غیر آباد علاقے میں اتار لیا۔

.

Aerial view of Amazon river in Brazil

مگر موت سے بچنے کے بعد ان کی مشکلات کا صرف آغاز تھا۔ طیارے کا ایندھن سارا لیک ہو چکا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرا طیارہ چھوڑنا لازمی تھا کیونکہ یہ بہت خطرناک صورتحال تھی۔‘

طیارے کو ایک محفوظ مقام کے طور پر تو وہ استعمال نہیں کر سکتے تھے مگر وہ اس کے آس پاس اس امید میں رہے کہ ان کا آخری ریڈیو پیغام کسی نے سن لیا ہو۔

‘میں نے وہ سب کچھ پکڑ لیا جو چند روز مجھے جنگل میں گزارنے میں مدد کر سکتا تھا۔ میں اس وقت سوچ رہا تھا کہ پانچ سے آٹھ دن لگیں گے جو کہ جنگل میں ریسکیو کا عموماً وقت ہوتا ہے۔‘

مگر ایک ہفتہ گزر گیا اور کوئی امداد نہیں آئی۔

اکیلے نکل پڑنے کا فیصلہ

آنتونیو نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ اپنے پیاروں سے کبھی بھی دوبارہ ملنا چاہتے ہیں تو انھیں جائے حادثہ چھوڑنی ہوگی اور انھیں پیدل ہی کسی محفوظ مقام پر جانا ہوگا۔

‘مجھے احساس ہوا کہ وہ تو مجھے نہیں ڈھونڈ پائے تو مجھے یہ جگہ چھوڑنی ہوگی۔‘

سورج طلوع ہوتے ہی انھوں نے قریبی آباد علاقہ ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ ‘میں نے مشرق کی جانب چلنا شروع کر دیا اور سورج کی طرف چل پڑا۔ میں ہر روز دو سے چار گھنٹے پیدل چلتا تھا۔‘

‘اس کے بعد مجھے رات کی تیاری کرنی ہوتی تھی، سونے کے لیے محفوظ جگہ اور آگ جلانا وغیرہ۔‘

اگرچہ اگر کوئی بھی خود کو بغیر کسی سواری یا مواصلات کے ایمازون میں پائے تو یہ ایک خطرناک جگہ ہے۔ تاہم اینتونیو نے کچھ ایسے گُر سیکھ لیے تھے جو اسے زندہ بچنے میں مدد کر سکتے تھے۔

A crocodile with its mouth open

‘میں نے اپنا جنگل میں بچنے کا کورس اپنے ہوابازی کے بیک گراؤنڈ کی وجہ سے مکمل کیا تھا۔ اور ایمازون میں پیدا ہوا تھا اور یہاں پر وقت گزارا تھا۔‘

اور انھوں نے اس جنگل کے دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کے طریقہ بھی سیکھے تھے جو زندگی اور موت کا فرق بن کر سامنے آئے۔

‘میں جب یہاں تھا تو جب بھی موقع ملتا تھا میں مقامی لوگوں سے بات کرتا تھا اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔‘

خوراک کی تلاش

اینتونیو کو جس چیز کی سب سے پہلے ضرورت تھی وہ تھی خوراک اور اس سلسلے میں انھوں نے مقامی جانوروں کی مدد لی۔

‘میں نے ایسے پھل دیکھے جو میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ مگر میں نے بندروں کو اسے کھاتے دیکھا تو میں نے سوچا کہ اگر بندر یہ کھا سکتے ہیں تو میں بھی کھا سکتا ہوں۔‘

مگر انھیں پھل سے زیادہ کچھ چاہیے تھا۔ ‘نانڈو کے انڈے۔ یہ جنگل میں ایک بہت عام پرندا تھا۔‘

یہ پرندا اڑتا نہیں اور بڑے بڑے نیلے رنگ کے انڈے دیتا تھا جو اینتونیو کو کبھی کبھی مل جاتے تھے۔ ‘انڈوں میں پروٹین ہوتا ہے اور مجھے اس وقت اس کی ضرورت تھی تو میں انھیں کچا ہی کھا لیتا تھا۔‘

شکاری جانوروں سے بچنا

اور اگرچہ انھیں اپنے اس سفر میں زندہ رہنے کے لیے خوراک تو تھوڑی بہت مل رہی تھی، انھیں ایمازون کے خونخوار جانوروں کی خوراک بننے سے بھی بچنا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘جب بھی میں کہیں رک کر اپنے لیے سونے کی جگہ بناتا تھا تو میں کسی ٹیلے پر بناتا تھا۔‘

An anaconda snake wrapped round a branch in Brazil

‘اس کی وجہ یہ تھی کہ چیتوں، مگرمچھ اور اژدہوں سب کا پانی کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ اسی لیے میں کبھی بھی کسی پانی کے ذخیرے کے قریب نہیں رکتا تھا۔‘

اینتونیو کی یہ بھی کوشش ہوتی تھی کہ وہ جنگل میں چلتے ہوئے جتنا ممکن ہو شور مچائیں۔ انھیں معلوم تھا کہ دن کے وقت ان پر کوئی ایسا جانور ہی حملہ کرے گا جو کہ ان کے آنے سے چونک گیا ہو نہ کہ کوئی ایسا جانور جس نے دور سے ان کو سنا ہو اور تاک لگا کر بیٹھا ہو۔‘

آخرکار امید

اینتونیو کے گُر کام تو کر رہے تھے مگر انھوں نے وزن بہت کم کر لیا تھا۔ انھیں اپنے طیارے کے حادثے کا مقام چھوڑے ہوئے کئی ہفتے گزر چکے تھے۔

مگر 36 دن کے بعد آخر کار انھیں لوگوں کا ایک گروہ مل ہی گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘کئی دن تک اکیلے چلنے اور ٹیلوں پر چڑھنے کے بعد مجھے ایک دور علاقے میں برازیلی نٹ جمع کرنے والے ملے۔‘

شروع میں انھیں لوگ نظر نہیں آ رہے تھے اور انھوں نے ان لوگوں کو ان کی آوازوں کی مدد سے ڈھونڈا۔

‘مجھے ان کے کام کرنے کی آواز آ رہی تھی۔‘

آخر کار ان کا مشکل وقت ختم ہو رہا تھا۔

https://www.instagram.com/p/CMIoYQJpSHr/

‘اس سارے میں جو چیز مجھے ہمت دیتی تھی اور بھوک میں چلتے رہنے کا حوصلہ دیتی تھی، وہ مجھے اپنی فیملی سے دوبارہ ملنے کی آس تھی۔‘

‘جب میں جنگل سے نکلا اور آخر کار ان سے ایئر پورٹ پر ملا تو یہ میری زندگی کا بہترین دن تھا۔‘

ان کی تلاش کے لیے ہیلی کاپٹر اور طیارے بھیجے گئے تھے مگر وہ کئی ہفتے پہلے رک چکے تھے۔

اگر اینتونیو خود چل کر جنگل سے نہ نکلتے تواس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ کبھی بھی اپنے گھر والوں سے مل نہ سکتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں آخرکار انھیں گلے لگا سکتا تھا۔ انھیں بتا سکتا تھا کہ مجھے ان سے کتنا پیار ہے۔ میں نے یہ سب صرف ان کے لیے کیا۔ میں ہر وقت ان کا ہی سوچتا تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp