جہانگیر ترین کی پی ٹی آئی ممبران کے ہمراہ عدالت حاضری: ’انھوں نے ایک پریشر گروپ بنایا ہے‘

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


پاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما جہانگیر خان ترین جب بدھ کے روز لاہور کی بینکنگ عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو ان کے ہمراہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے حکمراں جماعت کے چند ممبران بھی موجود تھے۔

ان ممبران میں سے زیادہ تر کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا جن میں غلام بی بی بھروانہ، خرم لغاری، سلمان نعیم، عبدالحئی دستی، نعمان لنگڑیال اور ان کے علاوہ راجہ ریاض اور طاہر رندھاوا وغیرہ شامل تھے۔

جہانگیر ترین ایک با اثر شخصیت مانے جاتے ہیں اور خاص طور پر صوبہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بنوانے میں ان کا کردار اہم تصور کیا جاتا ہے۔ حکومت سازی کے دنوں میں وہ اپنے ذاتی جہاز میں آزاد امیدواران کو اسلام آباد اور لاہور لانے کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنے رہے تھے۔

مزید پڑھیے

’ہم تحریک انصاف سے انصاف مانگ رہے ہیں، میں دوست تھا، دوست ہی رکھو‘

چینی فورینزک رپورٹ پر ردعمل: ’اصل سوال چینی برآمد کرنے کی اجازت کس نے دی؟‘

ترین تنگ آمد، بجنگ آمد

جہانگیر ترین اس سے قبل بھی عدالتوں میں پیش ہو چکے ہیں اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی ممبران پر ان کا اثر و رسوخ پہلے بھی موجود تھا۔ تاہم اس سے قبل جہانگیر ترین ان کے ہمراہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے تھے۔

اس مرتبہ تاہم جہانگیر ترین نے اپنے ساتھ چلنے والے ممبران کے لیے ناشتے کا اہتمام کیا تھا۔ اس کے بعد وہ تمام لوگ ان کے ساتھ عدالت کے باہر کھڑے نظر آئے جہاں انھوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات بھی کی۔

بینکنگ عدالت سے جہانگیر ترین کو عبوری ضمانت میں توسیع مل گئی تاہم اس موقع پر انھیں پی ٹی آئی کے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ممبران کو مدعو کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا وہ اپنا اثر و رسوخ دکھانا چاہتے تھے؟ اگر ایسا تھا تو وہ اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟

جہانگیر ترین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کی تردید کی کہ وہ پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ ضرور کہا کہ ‘وہ تو دوست تھے، انھیں دشمن کیوں بنایا جا رہا ہے؟’

گذشتہ چند روز سے ان کے دیگر سیاسی جماعتوں سے ممکنہ رابطوں کی خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔

جہانگیر ترین کے بارے میں ایک تاثر موجود ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے خصوصاً صوبہ پنجاب کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تو کیا وہ اب ایسا کرنے جا رہے ہیں؟

یا پھر اثر و رسوخ کا یہ اظہار محض وقتی طور پر مقدمات اور عدالتی کارروائیوں سے ریلیف حاصل کرنے کے لیے ہو سکتا ہے؟

‘یہ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے’

پاکستان اور صوبہ پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں یہ جہانگیر ترین کی طرف سے ایک غیر متوقع چال تھی۔

‘انھوں نے یقیناً ایک پریشر گروپ بنایا ہے اور پہلی مرتبہ انھوں نے اسے ظاہر بھی کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ وہ اب اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔’ ان کے خیال میں جہانگیر ترین نے حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ آسان چنا ثابت نہیں ہوں گے۔

صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق جہانگیر ترین وہ شخص ہیں جن کے ذاتی اور خاندانی نوعیت کے تعلقات خصوصاً پنجاب میں ان افراد اور خاندانوں کے ساتھ ہیں جنھیں ‘الیکٹ ایبلز’ کہا جاتا ہے۔

‘انھوں نے یہ دکھایا ہے کہ الیکٹ ایبلز آج بھی ان ہی کے پاس ہیں۔ یہ حکومت کے لیے فوری خطرہ نہیں تو خطرے کی گھنٹی ضرور ہو سکتی ہے، خصوصی طور پر پنجاب کے اندر۔’

‘آنے والے دنوں میں پنجاب میں کردار ادا کریں گے’

صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جہانگیر ترین کے ساتھ جتنے ممبران عدالت کے باہر موجود تھے، پی ٹی آئی کے اندر اس سے کہیں زیادہ ممبران کی حمایت انھیں حاصل ہے۔

‘وہ جہانگیر ترین ہی تھے جن کی وجہ سے آج پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت قائم ہے۔ آنے والے دنوں میں وہ صوبہ پنجاب کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر اہم کردار ادا کریں گے۔’

سلمان غنی کے خیال میں صوبہ پنجاب میں پہلے ہی سے پی ٹی آئی کی قیادت کی جڑیں کمزور ہیں۔ وزیرِاعلٰی پنجاب عثمان بزدار کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سب سے آخر میں پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے امیدواروں میں سے ایک تھے اور زیادہ تر ممبران بھی انھیں نہیں جانتے تھے۔

کیا وہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم کروا سکتے ہیں؟

جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی کی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور بظاہر ان کے پاس وہی اثر و رسوخ اب بھی موجود ہے تو کیا اب وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ خصوصاً پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ختم بھی کر سکتے ہیں؟

سہیل وڑائچ کے خیال میں ایسا نہیں ہے کیونکہ ‘حکومت کو گرانے کے لیے بڑے جوڑ توڑ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے اندر ایک فارورڈ بلاک بنا سکتے ہیں جو جماعت کے لیے نقصان دہ ہو گا۔’

صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین نے پہلے ہی سے ایسا کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔

‘میں ذاتی طور پر کئی ایسے ممبران کو جانتا ہوں جو ابتدا سے جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے تھے اور آج بھی انہی کے کہنے پر چلنے کو تیار ہیں۔’

جہانگیر ترین ایسا کیوں کریں گے؟

حال ہی میں جب وہ بینکنگ عدالت سے اپنی اور اپنے صاحبزادے کے لیے ضمانت حاصل کرنے لے لیے پہنچے تو اس موقع پر انھوں نے بتایا کہ بغیر کسی عدالتی کارروائی کے ان کی کمپنیوں کے اکاؤنٹ بھی منجمد کر دیے گئے تھے۔

فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی ان کے خلاف شوگر ملز اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات کے مقدمات قائم کر کے تحقیقات کر رہی ہے اور ان پر گرفتاری اور عدالتی کارروائی کا دباؤ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔

تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق جہانگیر ترین کو معلوم ہے کہ یہ تمام تر کارروائی ان کے خلاف خود وزیرِاعظم عمران خان کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتی۔

‘پی ٹی آئی کے اندر موجود ایک مخصوص لابی ابتدا ہی سے جہانگیر ترین کے خلاف حرکت میں ہے اور اس میں بیوروکریسی کا بھی ہاتھ ہے۔ لیکن اگر اعظم خان یا شہزاد اکبر جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں وہ عمران خان کی منظوری کے بغیر تو ممکن نہیں ہے۔’

‘وہ جانتے ہیں کارروائی عمران خان کی مرضی سے ہو رہی ہے’

جبکہ سلمان غنی سمجھتے ہیں وزیرِاعظم عمران خان دانستاً جہانگیر ترین کو خود سے دور کر رہے تھے۔ ان کے خیال میں ‘ابتدا سے ایک تاثر تھا کہ عمران خان کی حکومت تو بنیادی طور پر جہانگیر ترین کے مرہونِ منت ہے اور عمران خان کو ظاہر ہے یہ تاثر پسند نہیں ہے۔’

تاہم ان کے خیال میں عمران خان اور جہانگیر ترین جو کبھی گہرے دوست تھے، اب ان کے درمیان فاصلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت جہانگیر ترین کے خلاف گھیرا مزید تنگ کرے گی۔

‘جہانگیر ترین یہ جانتے ہیں اور انھیں یہ بھی پتہ ہے کہ ان کے خلاف یہ تمام تر کارروائی وزیرِاعظم کی مرضی سے ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس وقت یہ کارڈ کھیلا۔’

صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی اس سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کے خیال میں آنے والے دنوں میں جہانگیر ترین بھی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ ‘وہ عدالت کے اندر بھی لڑائی لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور اندر بھی۔’

‘پی ٹی آئی کے اندر رہنا جہانگیر ترین کے لیے مناسب ہے’

جہانگیر ترین نے خود اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے اپنی راہیں جدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا ‘میں نے پی ٹی آئی کو اپنا خون پسینہ دیا ہے۔’

تجزیہ نگاروں کے مطابق جہانگیر ترین اس موقع پر پی ٹی آئی کو نہیں چھوڑنا چاہیں گے۔

تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق ‘جہانگیر ترین کے لیے اس وقت یہی مناسب ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے اندر رہیں۔ جماعت کے اندر رہتے ہوئے ہی وہ زیادہ بہتر دباؤ قائم کر سکتے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ وہ پیپلز پارٹی کی طرف جانا چاہیں گے۔’

صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق جہانگیر ترین کا اثر و رسوج بھی پنجاب کے اندر ہے، سندھ میں نہیں ہے۔ ‘اگر جہانگیر ترین جماعت کبھی تبدیل کرنا بھی چاہیں تو وہ پاکستان مسلم لیگ ق کی طرف جانا چاہیں گے۔’ تاہم ان کے خیال میں بھی اس وقت جہانگیر ترین کو پی ٹی آئی کو چھوڑنا نہیں چاہیں گے۔‘

اب اثر و رسوخ دکھانے کا کیا فائدہ؟

تو اپنے اثرورسوخ کو اس وقت ظاہر کرنے کا جہانگیر ترین کو کیا فائدہ ہو گا؟ کیا وہ اس پریشر گروپ کے ذریعے کوئی فوری ریلیف لینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس پر سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ حکومت اور خود وزیرِاعظم عمران خان کیا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔

‘اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت ان ممبران کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے جو جہانگیر ترین کے ساتھ موجود تھے۔ براہِ راست جہانگیر ترین کے ساتھ وہ شاید معاملات نہیں کرنا چاہے گی۔’

ان کے خیال میں حکومت ممبران کے خلاف کارروائی کرنے کے مختلف طریقے اختیار کر سکتی ہے تاہم موجودہ حالات میں اس کارروائی کا کتنا اور کیسا اثر ہوتا ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp