ان کی رائے میں ریپسٹ تو سماج سدھارنے نکلے ہوتے ہیں


ننھے بچے بچیوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم اور ریپ ہوتے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ وزیراعظم نے اس سوال کا مفصل جواب دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کی وجہ پردہ نہ ہونا ہے اور بالی ووڈ کی فلموں اور موبائل فونوں نے ڈسکو اور نائٹ کلب کے ماحول کو پاکستان میں دکھا کر یہاں لوگوں کو فرسٹریٹ کر دیا ہے جس کا کوئی تو اثر ہونا ہی تھا۔ معاشرے میں طلاق زیادہ ہونے کی وجہ بھی یہ فحاشی ہے۔ فحاشی سے ٹیمپ ٹیشن ہوتی ہے اور ہر انسان کے اندر اتنی وقت ارادی نہیں ہوتی کہ اسے برداشت کر سکے۔ اس کی وجہ سے فیملی سسٹم بھی ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم کا ایک فیصد بھی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتا۔

ہمارے ایک دوست اس بات پر سر دھن رہے تھے۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ معاشرے میں ریپ کا جرم ہونے کی وجہ فحاشی ہے۔ جب لڑکیاں عورتیں بچے بچیاں ایسا لباس پہنے دکھائی دیں جو ریپسٹ کے خیال میں فحش ہو تو وہ خود پر قابو نہیں پا سکتا اور ریپ کرنے نکل جاتا ہے۔ یعنی ان کی رائے میں ریپسٹ تو اصل میں معاشرے کو سدھارنے کے مشن پر ہوتے ہیں جو بے حیائی کے خاتمے اور لڑکیوں بچے بچیوں کو فحاشی سے بچانے کے لیے ان کا ریپ کرتے ہیں تاکہ باقی زندگی وہ ایک اچھا انسان بن کر باپردہ رہیں۔ ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ بچپن میں جنسی استحصال کا نشانہ بننے والے بچے بڑے ہو کر خود بھی اسی رویے کی طرف مائل ہوتے ہیں اور دوسرے بچوں کے ساتھ وہی کرتے ہیں جو ان کے اپنے بچپن میں ان کے ساتھ ہوا تھا۔ یعنی ہمارے دوست کے نظریے کے مطابق وہ بھی سماج سدھارک بن جاتے ہیں۔

مغرب کا موجودہ ہاٹ پینٹ اور منی سکرٹ والا لباس بیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ عام لباس تو چھوڑیں، اس سے پہلے گوریاں سمندر پر بھی نہانے جاتی تھیں تو تقریباً لحاف اور کمبل ہی اوڑھے ہوتی تھیں۔ اسے دیکھتے ہوئے ہم نے پوچھا کہ اس وقت کیوں ریپ ہوتے تھے؟ لباس کا ریپ سے تو کوئی تعلق نہیں۔ مغرب میں ستر پوشی کے نام پر ایک دھجی کی تہمت والے یا اس سے بھی یکسر آزاد ساحلوں پر تو ایسے کمزور قوت ارادی والے مردوں کو بے قابو ہوتے نہیں دیکھا جاتا۔

ہمارے دوست نے ہمارے اس سوال کا جواب نہیں دیا اور ہمیں ترحم آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے سچا مسلمان بننے کی تلقین کی اور بتایا کہ اس کے بعد ہمیں یہ سوال پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

بہرحال ہم نے اس معاملے پر غور کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنے معتبر لوگ بتا رہے ہیں کہ فحاشی اور لباس کی وجہ سے ہی ریپ ہوتے ہیں تو یہ بات غلط تو نہیں ہو گی۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سنہ 1970 میں مغربی تہذیب کا جدید لباس آنے سے قبل بھی یہ جرائم ہوتے تھے تو لباس سے اس کا کوئی نہ کوئی تعلق تو ہو گا جو ہم اپنی کم فہمی کی وجہ سے نہیں سمجھ پا رہے اور انسانی نفسیات کے مغربی ماہرین کے بہکاوے میں آ رہے ہیں۔ بلکہ غور کریں تو معلوم انسانی تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں جب ریپ نہ ہوتا رہا ہو۔

مثلاً قدیم ترین قوانین میں سے ایک جو ہم تک پہنچا ہے، سوا چار ہزار برس قبل کے بابل کے بادشاہ حمورابی کا ہے۔ اس میں اس نے جنسی جرائم پر سخت سزائیں دی ہیں، مثلاً ماں، بہو، بیٹی، ہمسائی، کسی شادی شدہ عورت، کنواری وغیرہ کے ساتھ سیکس پر سزائے موت دی جاتی تھی۔ یعنی اس زمانے میں بھی حالات ایسے خراب تھے کہ مائیں اپنے بیٹوں سے اور بیٹیاں اپنے باپ سے محفوظ نہیں تھیں تو بادشاہ کو ان جرائم کے بارے میں قانون سازی کرنا پڑ گئی۔ اسی زمانے کے قرب و جوار کے آشوری اور مصری قوانین بھی ایسے ہی سے تھے۔ یعنی ایسے مرد ہمیشہ موجود رہے ہیں جو قوت ارادی نہیں رکھتے تھے اور بے قابو ہو کر ریپ یا زنا کر دیا کرتے تھے۔

لیکن یہ تو ہمیں معلوم ہو ہی چکا ہے کہ ریپ کا تعلق تو لباس سے ہوتا ہے اور اگر پردے کی پابندی ہو تو ریپ اور جنسی جرائم نہیں ہوتے۔ تو پھر معاملہ کیا ہے؟ انسانی تاریخ میں یہ جرائم کیوں ہوتے رہے ہیں؟ آخر کیا چیز ہے جسے دیکھ کر یہ معصوم سے کمزور ریپسٹ بے قابو ہو جایا کرتے تھے؟

ہم نے اس معاملے پر عمیق غور و فکر کیا ہے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ ہمیں معاملے کی سمجھ آ گئی ہے۔ قدیم زمانے میں بھی ریپ ہونے کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ اس زمانے میں عورتیں بچے تو بہت زیادہ کپڑے پہنا کرتے تھے مگر بدقسمتی سے جنگلی، حتی کہ پالتو جانور بھی ننگ دھڑنگ پھرتے تھے۔ نہ صرف ننگ دھڑنگ پھرتے تھے بلکہ نہ موقع دیکھتے تھے نہ محل بس کسی نزدیکی مادہ جانور پر دل آتے ہی سرعام افزائش نسل میں مصروف ہو جاتے تھے جسے نہ صرف چھوٹے چھوٹے بچے بلکہ ایسے معصوم مرد بھی دیکھ لیا کرتے تھے جن کی قوت ارادی کمزور ہوتی تھی اور وہ فحاشی دیکھ کر ٹیمپ ٹیشن برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔

اسی وجہ سے آج تک بچوں اور عورتوں کے علاوہ جانور بھی ان سے محفوظ نہیں۔ کبھی مختلف پالتو جانوروں کی خبر ملتی ہے اور کبھی ڈالفن کی۔

ہماری رائے میں معاشرے سے فحاشی ختم کرنے کے لیے موبائل فون پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ خواتین کے لیے عبایہ، بچوں کے لیے موٹے کپڑے از قسم پٹ سن کے لباس اور پالتو جانوروں کے لیے ترپالی غلاف لازمی قرار دیے جانے چاہئیں تاکہ وہ کمزور قوت ارادی والے معصوم سے مردوں کی ٹیمپ ٹیشن کی وجہ سے ریپ نہ ہوں۔ ورنہ غلطی ریپ ہونے والوں کی ہو گی اور ریپسٹ یہ شکایت کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ وہ تو نہایت نیک ہیں مگر اس بچے، بچی، عورت یا جانور نے کپڑے ہی ایسے پہنے ہوئے تھے شیطان نے انہیں بہکا دیا۔

اگلے کسی مضمون میں ہم اس بات پر غور کریں گے کہ چوری کا سدباب کیسے کیا جائے کیونکہ چور بھی نہایت معصوم ہوتے ہیں مگر لوگ اپنے پاس روپیہ پیسہ رکھتے ہیں تو اپنی کمزور قوت ارادی کی وجہ سے وہ ٹیمپ ٹیشن پر قابو نہیں پا سکتے اور انہیں چوری کرنے پر مجبور ہونا پڑ جاتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments