کورونا وائرس: ایک اور لاک ڈاؤن پاکستانی معیشت کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


پلانٹ

کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی قصبے حب میں ’سپر پاور‘ نامی موٹر سائیکل بنانے کا پلانٹ گذشتہ برس عارضی طور پر اُس وقت بند ہو گیا تھا جب حکومت نے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر لاک ڈاؤن نافذ کیا۔

یہ پلانٹ گذشتہ سال مارچ اور اپریل کے مہینے میں 20 سے 25 روز تک بند رہا جس نے اس کی پیداواری صلاحیت کو بُری طرح متاثر کیا۔ یہ پلانٹ ایک گروپ آف کمپنیز کی ملکیت ہے جس کے ایک ڈائریکٹر نوید پیرانی کہتے ہیں کہ گذشتہ برس حکومتی لاک ڈاؤن کے باعث ان کے پلانٹ کی پیداواری صلاحیت شدید متاثر ہوئی تھی۔

پیرانی کے مطابق گذشتہ برس ان کے پلانٹ میں تیار ہونے والی موٹر سائیکلوں کی فروخت میں 70 فیصد کمی دیکھنے میں آئی اور جس کی وجہ سے منافع میں چلنے والا یہ پلانٹ گذشتہ سال خسارے سے دوچار ہو گیا۔

اُنھوں نے بتایا کہ اگرچہ مئی جون میں مکمل لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد سمارٹ لاک ڈاؤن کے تحت ان کے پلانٹ میں پیداواری عمل شروع ہو گیا تاہم وہ ابھی تک گذشتہ سال کے برے معاشی اثرات کو کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

پیرانی نے کہا جب ان کے پلانٹ میں پیداواری عمل رُکا تو اُنھیں مجبوراً متعدد ملازمین کو برخاست کرنا پڑا۔ اُنھوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن لگنے سے قبل ان کے پلانٹ میں ایک ہزار سے زائد افراد کام کر رہے تھے تاہم پلانٹ کا کام بند ہونے کی وجہ سے اُنھیں 30 فیصد ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی شرائط نرم کروا سکتا ہے؟

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل بہتری کی وجوہات کیا ہیں؟

جی ڈی پی میں بہتری کی پیش گوئی، کیا یہ پاکستانی معیشت کی اصل عکاس ہے؟

وہ بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک میں آنے والی بیروزگاری کی لہر سے اُن کے شعبے کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی تو اُنھوں نے موٹر سائیکلوں کی خریداری بھی کم کر دی۔

نوید پیرانی گذشتہ برس کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی طور پر متاثر ہونے کے بعد ملک میں کورونا کی تیسری لہر کی وجہ سے کسی نئے ممکنہ لاک ڈاؤن پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر ملک میں کورونا کی تیسری لہر کے سدباب کے لیے لاک ڈاؤن لگا تو معیشت میں گذشتہ چند مہینوں میں آنے والی تھوڑی بہت بہتری بھی ختم ہو جائے گی۔

نوید پیرانی کے موٹر سائیکل کے کارخانے کی طرح ملک میں گذشتہ بہت سارے پیداواری شعبوں کو اس وقت بندش کا سامنا کرنا پڑا جب کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن لگانا پڑا۔

کورونا، معیشت، پاکستان

اس کے اثرات معیشت پر بہت زیادہ منفی انداز میں مرتب ہوئے اور ملک کی معاشی شرحِ نمو گذشتہ مالی سال کے اختتام پر منفی ہو گئی تھی۔ موجودہ مالی سال کے شروع ہونے کے بعد پیداواری شعبے میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے شروع ہوئے اور ملک کا لارج سکیل مینوفیکچرنگ کا شعبہ بہتری کی جانب گامزن نظر آیا اور ملک کی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اب جہاں کورونا کی تیسری لہر کے مضر اثرات پر تشویش پائی جاتی ہے تو وہیں قرض کے حصول کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط پر عمل درآمد کی وجہ سے معاشی بحالی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اور ان خدشات کی تصدیق پاکستانی معیشت کے بارے میں ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ کرتی ہے جس میں آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے معیشت میں سست روی کی نشاندہی کی گئی ہے۔

ملکی معیشت میں ترقی کے کیا تخمینے ہیں؟

پاکستان کے وزیر خزانہ حماد اظہر نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی معیشت رواں برس پہلے سے کی گئی پیش گوئیوں سے زیادہ تیزی سے ترقی کرے گی۔ حماد اظہر نے اعداد و شمار تو نہیں دیے کہ رواں برس کے اختتام تک ملکی معیشت کتنی ترقی کرے گی، تاہم اگلے مالی سال کے لیے اُنھوں نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافے کی شرح چار فیصد سے زیادہ رہنے کی توقع ہے۔

حماد اظہر نے اپنے پیغام میں گروتھ ریٹ بھلے ہی نہیں بتایا، مگر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے اس سال معیشت کے بالترتیب 1.3 فیصد اور 1.5 فیصد تک بڑھنے کی پیش گوئی کی ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ برس ملکی معیشت منفی زون میں چلی گئی تھی اور اس کا ریٹ منفی 0.40 فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا۔

موجودہ مالی سال کے بجٹ میں معیشت میں ترقی کی رفتار کا ہدف 2.1 فیصد رکھا گیا تھا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی آخری زرعی پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں ملکی ترقی کی اب تک کی شرح نمو کو تین فیصد ظاہر کیا ہے اور اس کے مزید بڑھنے کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔

عالمی ادارے معاشی بحالی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ورلڈ بینک نے تازہ ترین پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ میں ملکی معیشت کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی بحالی سست ہو گی جس کی وجہ ملک میں کورونا کیسز کی تازہ ترین لہر ہے۔ ورلڈ بینک نے معاشی بحالی میں سست روی کی ایک وجہ آئی ایم ایف پروگرام کو بھی قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے گذشتہ ماہ پاکستان سے چھ ارب ڈالر قرضے کے پروگرام کو بحال کیا ہے جس میں دوسری شرائط کے علاوہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ بھی شامل ہے۔

ورلڈ بینک نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت مالیاتی نظم و ضبط کی وجہ سے معیشت کی بحالی میں سست روی کی پیش گوئی کی ہے۔ اسی بنیاد پر عالمی بینک نے معاشی ترقی میں صرف 1.3 فیصد ترقی کا امکان ظاہر کیا ہے۔

کورونا وائرس کی تیسری لہر پر بھی ورلڈ بینک نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نئے متاثرین سامنے آنے اور ویکسین کی فراہمی پر اٹھنے والے سوالات کی وجہ سے بھی معاشی بحالی سست رہے گی۔

دوسری جانب آئی ایم ایف نے ملکی ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد رہنے کی پیش گوئی کرتے ہوئے ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھنے اور بیروزگاری مین اضافے کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔

کورونا کی تیسری لہر معیشت کو کیسے متاثر کر سکتی ہے؟

معیشت

پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر کی وجہ سے بڑھتے ہوئے متاثرین اور اس کے تدارک کے لیے ویکسین کی فراہمی کے موضوعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ورلڈ بینک نے اس کی وجہ سے معیشت کے لیے خطرات کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

صنعت کار نوید پیرانی نے کہا کہ نئی لہر کی وجہ سے اگر حکومت مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جاتی ہے تو یہ معیشت کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ اگرچہ ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نہیں ہے، تاہم دنیا میں اس خطرناک وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہو رہے ہیں جو پاکستان کے لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ ہمارے پیداواری شعبے کا زیادہ تر خام مال بیرونی دنیا سے درآمد کیا جاتا ہے اور اس کی رسد اس وقت مسائل کا شکار ہے۔

اُنھوں نے اپنے شعبے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جہاں بیرونی دنیا سے خام مال کی رسد متاثر ہو رہی ہے تو وہیں مقامی مارکیٹ میں بننے والا خام مال بھی مہنگے داموں مل رہا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ معیشت میں گراوٹ لوگوں کی قوت خرید کو بھی متاثر کرتی ہے اس لیے طلب نہ ہونے کی وجہ سے پیداوار کم کر دی جاتی ہے جو ملک کی مجموعی معاشی ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو تی ہے۔

وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان کے سابق صدر انجم نثار نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کی تیسری لہر نے کاروبار کو کچھ حد تک محدود کیا ہے کیونکہ ملک کے مختلف حصوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کے تحت دو دن کاروبار بند کیا جا رہا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ کورونا کی تیسری لہر اس وقت ابھری ہے جب رمضان اور عید کے تہوار کی مناسبت سے ملک میں پیداواری شعبہ مصنوعات کی بڑی مقدار میں تیاری کرتا ہے تاہم کاروبار کے محدود اوقات کار اس پیداواری عمل کو متاثر کر رہے ہیں۔

انجم نثار نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے اثرات اس وقت شدید ہوتے ہیں جب حکومت یکطرفہ فیصلہ کر کے اسے صنعت و تجارت کے شعبوں پر تھوپ دیتی ہے۔ ’اگر حکومت مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جاتی ہے تو لازمی طور پر پیداواری شعبہ تو متاثر ہو گا لیکن اس کے ساتھ عام مزدور اور دیہاڑی دار طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہو گا۔‘

انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں معیشت کے استاد صائم علی نے کہا کی دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی کورونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہوا ہے اور ابھی معاشی سرگرمی کورونا وائرس کی وبا کے پھوٹنے سے پہلے کی سطح تک نہیں پہنچی تھی کہ ملک میں اس وائرس کی تیسری لہر نے معیشت اور کاروبار کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایک سخت لاک ڈاؤن کی صورت میں معیشت اور کاروبار لازمی طور پر متاثر ہوں گے جیسا کہ گذشتہ برس دیکھا گیا جب پیداواری عمل بہت زیادہ نیچے چلا گیا تھا۔

کیا آئی ایم ایف پروگرام معاشی بحالی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟

پاکستان

ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام کو معیشت کی بحالی میں سست روی کی وجہ قرار دیا ہے۔ اس بارے میں صائم علی نے بتایا کہ معیشت میں گروتھ کا مطلب ہے کہ کتنی مصنوعات کی پیداوار اور کتنی خدمات فراہم کی جا رہی ہیں اور ان پر کیا خرچ ہو رہا ہے۔

اُنھوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ہماری معیشت میں 20 فیصد خرچہ حکومت کرتی ہے اور 80 فیصد نجی شعبہ کرتا ہے۔ ’آئی ایم ایف حکومت سے چاہتا ہے کہ وہ اپنے خرچے کم کرے تاکہ بجٹ میں خسارے کو کم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ٹیکس وصولی میں اضافہ ہو جس میں نیا ٹیکس جمع کرنے کے ساتھ صنعتی شعبوں کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ بھی شامل ہوتا ہے۔‘

صائم کہتے ہیں کہ جب زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے گا اور ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے گی تو اس کا لازمی طور پر اثر پیداواری شعبے پر پڑے گا۔ ’اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخوں میں اضافہ بھی کاروباری لاگت بڑھا کر ان کی پیداوار پر منفی اثر ڈالتا ہے۔‘

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت جب یوٹیلٹی سروسز (بجلی وغیرہ) کے نرخوں میں اضافہ ہو گا اور حکومت کو ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرنی پڑتی ہے تو اس کا براہ راست اثر معیشت کی شرح نمو پر پڑتا ہے۔

تاہم اُنھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے پہلے بھی ملکی معیشت کی شرحِ نمو حوصلہ افزا نہیں تھی۔

’اس حکومت کے پہلے مالی سال کے اختتام پر ملکی ترقی کی شرح نمو 1.9 فیصد رہی جو گذشتہ حکومت کے آخری مالی سال میں 5.5 فیصد تھی۔‘

انجم نثار نے کہا کہ ملک کے پیداواری شعبے کے لیے بجلی کے نرخ ابھی بھی زیادہ ہیں اور آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اس میں اضافہ معیشت کے ان شعبوں کے لیے مزید خطرناک ثابت ہو گا۔ اُنھوں نے شرح سود کے سات فیصد کو بھی بلند سطح قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ شرح سود ابھی بھی کاروباری لاگت میں اضافے کا سبب ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اس میں اضافہ خطرناک ہو گا۔

انجم نثار نے شرح سود میں اضافے کے ذریعے مہنگائی پر قابو پانے کے طریقے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جو رسد میں تعطل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ناکہ افراطِ زر کی وجہ سے یہ شرح بڑھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp