پاکستانی کپل دیو کی جارحانہ اننگز


جس کپل دیو کی میں بات کر رہا ہوں ان کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ سے ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے وہ پاکستان کی ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ انسان حقوق، مذہبی مساوات، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کے ذیلی دفتر برائے خواتین کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ میرا ان سے تعارف جامعہ سرگودھا کے ادبی میلے میں ان کی شرکت سے ہوا۔ جامعہ سرگودھا نے اپنے مسلسل چوتھے ادبی میلے کا آغاز کر دیا ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے اس بار ادبی میلے کو آن لائن منعقد کیا جا رہا ہے ، تاہم کچھ مہمان بذات خود یونیورسٹی آ کر خطاب کر رہے ہیں جہاں سے ان کے خطاب کو سوشل میڈیا پر براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ جب ان سے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بات کرنے کا کہا گیا اور پوچھا گیا کہ اقلیتوں کا پاکستان میں کیسا تجربہ رہا ہے تو انہوں نے میری سوچ کے برعکس بڑے کھلے ڈلے انداز میں اپنا نقطۂ نظر بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو ہم نے بھارت پہ پاکستان کو ترجیح دی لیکن ابھی تک ہماری وفاداری اور خلوص پہ شک کیا جاتا ہے۔

انہوں نے قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی کے سامنے کی گئی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں قائداعظم پہ بھروسا تھا کہ وہ اپنے ملک میں اقلیتوں کو مساوی حقوق دیں گے۔ جوگندر ناتھ منڈل کو پہلا وزیر قانون نامزد کر کے قائداعظم نے اپنے قول کی پاسداری کی۔ لیکن قائداعظم کے بعد قرارداد مقاصد میں ہماری امیدوں کو توڑا گیا اور ہمارے جذبات کو مجروح کیا گیا۔ آج پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی غیر مسلم شہری پاکستان کا صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو خوف کس بات کا ہے۔

پاکستان میں چار فیصد اقلیت آباد ہے جس میں سے ہندو پچاس لاکھ آبادی کے ساتھ سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ اول تو کوئی غیر مسلم شہری صدر یا وزیراعظم بن نہیں سکتا ، اگر بن بھی جائے تو اس سے مسلم اکثریت کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جمہوریت میں فیصلے اکثریت ہی کرتی ہے۔ کم از کم ہمیں یہ خواب دیکھنے کی تو اجازت دی جائے کہ ہم اپنے ملک کے صدر یا وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔ ہم سے ہمارے خواب تو نہ چھینے جائیں۔ آپ لوگ ابھی تک ہمیں اپنا نہیں سکے، آپ ابھی تک ہمیں غیر مانتے ہیں۔

ہمیں بیگانہ سمجھا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی طرح خواتین کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ انہیں بھی مساوی حقوق اور مواقع نہیں مل پاتے۔ کپل دیو کے ساتھ موجود بلوچستان سے دوسرے مہمان رفیع اللہ کاکڑ نے بلوچستان کے مسائل اور ان کے حل پہ سیر حاصل گفتگو کی۔ لیکن ابھی ہمارا مدعا کپل دیو صاحب کی گفتگو ہے۔

ایک سال پہلے 2020 کے ادبی میلے میں اسی ہال میں مجھے یاسر پیرزادہ کو آمنے سامنے بیٹھ کر سننے کا موقع ملا لیکن اس دن یاسر پیرزادہ نے اپنا دبنگ انداز اپنانے کے بجائے چند باتیں کرنے کے بعد کہا کہ اس سے آگے میرے پر جلتے ہیں۔ میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ لیکن کپل دیو نے کسی مصلحت کوشی سے کام لینے کے بجائے اقلیتوں کا مقدمہ بڑے واضح اور مضبوط انداز میں پیش کیا۔ جس پہ ریاست کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آخر میں میرا سوال یہ ہے کہ اقلیتوں پہ صدر، وزیراعظم بننے پہ پابندی لگا کر آپ نے کون سے فرشتے ڈھونڈ لیے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments