دوا ساز کمپنیوں کی اندھیر نگری اور بے خبر مریض


hasnain tirmazi

کہتے ہیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے مگر پاکستان میں رہنے والے اپنی پرآسائش و سہل طرز زندگی اور خوش خوراکی کی بدولت اس نعمت سے آہستہ آہستہ محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں بیماری مہمان بن کر نہ رہتی ہو۔ ہمارے ارد گرد رہنے والے بے شمار ہمارے اپنے کسی نہ کسی بیماری سے حالت جنگ میں ہیں۔ کہیں شوگر۔ کہیں امراض دل، کہیں کینسر، کہیں کسی اور قسم کی انفیکشن، غرض بے پناہ بیماریاں اپنے پورے جوبن پر موجود ہیں۔

ایسے حالات میں ان بیماریوں سے لڑتے ہوئے مریض جب کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جاتے ہیں تو ان کی بھاری بھرکم فیس کے بعد سب سے مشکل مرحلہ اس وقت آن پڑتا ہے جب ڈاکٹر ایک طویل نسخہ لکھ کر مریض کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے اور مریض کو ان بیماریوں سے چھٹکارا پانے کے لئے فارمیسی پر جا کر مہنگی ادویات ہر صورت میں خریدنا ہوتی ہیں۔

اس پورے عمل میں مریض کے ساتھ کیا ہوا۔ ڈاکٹر نے اپنی فیس کتنی لی۔ میڈیکل سٹور والے نے کتنے پیسے لیے۔ ان سب سے الگ آج ہم اس بات کو جاننے کی کوشش کریں گے کہ وہ دوا جو اس مریض نے خریدی، اسے ایک عام مریض تک پہنچنے تک کتنے عوامل سے گزرنا پڑا اور اسے قابل فروخت بنانے سے لے کر بک جانے تک کتنا پیسہ کمایا گیا۔ پاکستان اور دنیا بھر میں دواسازی کے کاروبار میں کیا کیا کچھ ہو رہا ہے، ہمارے مسیحا گر اس کاروبار میں کس طرح شریک کار ہیں، کس طرح انہیں ان کا حصہ ملتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں 759 فارماسوٹیکل کمپنیاں (ادویات بنانے والے ادارے ) کام کر رہی ہیں جن کی مجموعی پیداوار کی شرح 325596 بلین روپے سالانہ ہے۔ جن میں صوبہ پنجاب میں 440، صوبہ سندھ میں 183، صوبہ خیبر پختون خوا میں 114، صوبہ بلوچستان میں 15 اور آزاد جموں کشمیر میں صرف 7 فارماسوٹیکل کمپنیاں دواسازی کر رہی ہیں، جن میں تقریباً 150000 سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں۔

1947 میں قیام پاکستان کے وقت کوئی بھی فارما کمپنی اس خطے میں دواسازی نہیں کرتی تھی مگر 1999 میں ان کی تعداد 300 کے قریب تھی، 2007 میں یہ 406 تک تھیں مگر آج 759 کی تعداد میں یہ کمپنیاں موجود ہیں اور تقریباً سات سو سے زائد کی تعداد میں مینوفیکچرنگ یونٹ کے قیام کی درخواستیں محکمۂ صحت کے دفاتر میں زیر التوا ہیں۔

اس وقت پاکستان میں ڈرگ ایکٹ کے تحت 47000 سے زائد ادویات کے نام رجسٹرڈ ہیں جبکہ ان کے مالیکیول 1100 کے قریب رجسٹرڈ ہیں یعنی ایک مالیکیول یا سالٹ سے کئی کئی نام کی دوائیاں رجسٹرڈ ہیں۔ مثال کے طور پر امیپرازول ایک سالٹ یا مالیکیول ہے جس کے رجسٹرڈ ناموں میں رائزک، اومیگا، میگ، پیپزول، وی ژول، جے میگ وغیرہ شامل ہیں جن کی قیمتیں بھی مختلف ہیں۔

ان اداروں میں 27 بین الاقوامی کمپنیاں بھی ہیں جو قومی اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں اور ایک بڑا حصہ مارکیٹ سے وصول کر رہی ہیں۔ قارئین کی سہولت کے لئے صرف اتنا سمجھنا کافی ہو گا کہ صرف آگمینٹن پاکستان میں دو ارب روپے سے زیادہ کی فروخت ہو جاتی ہے جسے ہم پاکستانی ایک اچھی انٹی بائیوٹک دوائی سمجھ کے کھا پی جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے جو اس اربوں کی سیل میں موجود ہے اور ان میں واضح اکثریت غیر ملکی کمپنیوں کی ہی ہے۔ ایک بات اور سمجھنے کی یہ بھی ہے کہ پاکستان کی کل جی ڈی پی کا ایک فیصد سے زائد صرف فارما سیوٹیکل انڈسٹری سے مربوط ہے۔

دوا سازی کا کاروبار آج جس عروج پر جا پہنچا ہے، اس کی مثال اب سے پہلے نہیں ملتی تھی۔ اس وقت دنیا میں اول نمبر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ہے جس کا فارماسیوٹیکل بزنس کا حجم 339694 ملین ڈالر سالانہ ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر جاپان 94025 ملین ڈالر، تیسرے نمبر پر چین 86774 ملین ڈالر، جبکہ چوتھے نمبر پر جرمنی 45828 ملین ڈالر اور پانچویں درجے پر فرانس 31056 ملین ڈالر کے ساتھ براجمان ہے۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ وہ واحد انڈسٹری ہے جس کی بڑھوتی کی شرح 12 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔

پاکستان میں اگر ادویات سازی کی درجہ بندی کی جائے تو سب سے زیادہ بننے والی دوائیاں سسٹیمک انٹی انفیکٹیو ( مختلف انفیکشن ) کی ہوتی ہیں جن کا تناسب 27 فیصد تک ہے۔ اس کے بعد ایلی مینٹری میٹابولزم کی ادویات جو 21 فیصد جبکہ نروس سسٹم کی ادویات 10 فیصد تک، نظام تنفس 8 فیصد، دل سے متعلق ادویات 7 فیصد، ہڈیوں کی 7 فیصد جبکہ دیگر بے تحاشا بیماریوں کی ادویات 21 فیصد تک بنائی جاتی ہیں۔

اس درجہ بندی کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ہاں لوگوں کو وہ بیماریاں نہیں ہوتیں جن کی مینوفیکچرنگ کم ہے۔ بہت سی ادویات کو بیرون ممالک سے درآمد بھی کیا جاتا ہے جن کا حجم 6 فیصد تک ہے۔ ایک اور بات شاید حیران کن بھی ہو کہ اس فہرست میں اب ادویات کی شرح نمو میں تھوڑی تبدیلی بھی نظر آ رہی ہے جیسے امراض دل سے متعلق ادویات کا حصہ تین اعشاریہ تین فیصد ہے جبکہ اس میں سالانہ شرح نمو 19 فیصد تک ہے۔ اسی طرح جلدی امراض کا مارکیٹ شیئر 3 فیصد جبکہ نمو 13 فیصد تک ہے اور سسٹامک ہارمون (سیکس ہارمون) کا مارکیٹ شیئر 1 فیصد سے کم ہے جبکہ اس میں شرح نمو 14 فیصد تک دیکھی جا سکتی ہے جو بہرحال اس طرف واضح اشارہ ہے کہ ہمارا قومی رجحان کس طرف ہے۔

ان تمام تفصیلات کے برعکس اصل بات یہ بھی ہے کہ خام مال سے لے کر ایک دوا بننے تک کے تمام مسائل کو اگر شامل تحریر کیا جائے تو اس میں خاصی پیچیدگیاں ہیں۔ خام مال کا درآمد ہونا، دوا کا بننا، کارخانے سے باہر جانا، ڈسٹری بیوٹر سے دکان اور پھر دکان سے مریض کے پاس پہنچنے تک خاصا طویل اور دشوار راستہ ہے اور اس میں خاصے سقم بھی موجود ہیں اور پھر جس انداز میں ڈاکٹر سے دوائی کا نسخہ لکھوایا جاتا ہے، یہ ایک الگ کہانی ہے (جو آئندہ کسی تحریر میں پیش کی جائے گی)

قارئین کے سمجھنے کے لئے صرف ایک بات بتانا ضروری ہے کہ کسی دوائی کے منافع کی شرح اگر ایک ہزار فیصد سے کم ہو تو اس پروجیکٹ کو ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سپروفلاکساسن ایک سالٹ ہے جس کی ایک 500 ملی گرام کی گولی کی قیمت مارکیٹ میں 3 روپے سے لے کر 100 روپے تک موجود ہے۔ اسی طرح سیفٹریک زون کے ایک گرام انجیکشن کی قیمت 672 روپے ہے جبکہ یہی انجیکشن 50 روپے میں بھی مارکیٹ میں موجود ہے۔ اسی طرح بہت سی ایسی ادویات بھی ہیں جنہیں او ٹی سی میڈیسن کہا جاتا ہے اور وہ 90 روپے سے لے کر 200 روپے کے درمیان میں 1000 گولیاں آپ مارکیٹ سے باآسانی خرید سکتے ہیں۔ یہ وہی نیلی پیلی ادویات ہیں جو ڈاکٹر آپ کو اپنے پاس سے دے دیتا ہے اور آپ سے اپنی مرضی کے پیسے لے لیتا ہے جس پر اس کے 10 روپے سے زیادہ اخراجات نہیں ہوتے۔ ایسے میں مریض کو دیگر ادویات بھی لکھ کر دے دی جاتی ہیں جنہیں وہ میڈیکل سٹور سے جا کر خریدتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فارماسیوٹیکل کمپنیاں کس فارمولے کے تحت کسی دوا کا نرخ مقرر کرتی ہیں اور کتنا منافع کماتی ہیں یا کتنا کما سکتی ہیں۔ کیا کوئی چیک اینڈ بیلنس کا حکومتی ادارہ ہے جو ان پر نظر رکھتا ہو؟ ڈاکٹر کس فارمولے کے تحت اسے پرکھتا ہے کہ یہ دوا مریض کو آرام پہنچا سکتی ہے؟ چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو کیونکہ ایک عام جنرل پریکٹیشنر جو 50 روپے میں مریض کو دیکھتا بھی ہے اور اپنے پاس سے ادویات بھی دیتا ہے، اس کی دوائی سے بھی آرام آ جاتا ہے جبکہ ایک کنسلٹنٹ بھی مریض کو دیکھ کر جو نسخہ لکھتا ہے، اس سے بھی مریض کو آرام آ جاتا ہے مگر اس پر تحریر ادویات کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں کسی بھی طرح کے چیک اینڈ بیلنس ( پرکھ اور توازن ) کا کوئی معیار مقرر کرنا خاصا مشکل مرحلہ ہوا کرتا ہے، وہاں کون ہے جو اس بارے میں آگاہی دے سکے گا اور اگر ایسا کوئی ادارہ ہے تو وہ کیوں اس بارے میں ترجیحات کو طے کرنے سے قاصر ہے، کم از کم ریاست اس بارے میں اپنے اصول وضع کرے کہ ایک سالٹ کی ایک گولی 3 روپے میں اور 100 روپے میں کیوں مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے؟ ایک ہی فارمولے کے تحت بننے والا ایک انجکشن کیوں اتنا مہنگا اور اتنا سستا ہوتا ہے، دواساز ادارے اتنا منافع کیوں کما رہے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ابھی دیے جانے ہیں مگر یہ کون دے گا اس کی تلاش تاحال جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments