پرویز مشرف کی اتاترکی حکومت اور حقیقت


پرویز مشرف زمین پر اترے تو پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو بن چکے تھے۔ نواز شریف کی انتہائی احمقانہ اور بچکانہ کارروائی کے بعد پاکستان کی فوج نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے حفاظتی حراست میں لے لیا تھا۔ بعد میں شریف خاندان پرویز مشرف سے معاہدہ کر کے سعودی عرب چلا گیا تھا۔ چیف آف اسٹاف پرویز مشرف نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی تھی۔

سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو صاحبہ نے امید ظاہر کی تھی کہ وہ ملک میں اچھے کام کریں گے اور پاکستان ترقی کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مل کر کام کیا جا سکتا ہے۔ سارے ملک کے عوام نے فوجی حکومت کو خوش آمدید کہا تھا اور نواز شریف کی حکومت کے خاتمے پر سڑکوں پر مٹھائیاں بانٹی گئی تھیں۔

عدالتوں نے نظریۂ ضرورت کے تحت فوجی حکومت کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا تھا اور پرویز مشرف کو تین سال حکومت کرنے کی اجازت دی تھی اور یہ اختیار بھی دیا تھا کہ وہ ضرورت کے مطابق آئین میں تبدیلی بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے اس قسم کا اختیار کسی بھی سابقہ آمر کو نہیں دیا تھا۔

پرویز مشرف نے صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان میں صحت، تعلیم، ماحول، زراعت، شہروں کے حالات اور عورتوں اور بچوں کے حقوق کی پامالی سے بہت پریشان ہیں اور اس سلسلے میں وہ ضروری کارروائیاں کریں گے اور تین سال کے بعد عدالتی حکم کے تحت فوج کے ساتھ بیرکوں میں واپس چلے جائیں گے۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ ریٹائر ہو جائیں گے اور اپنے خاندان اور اپنے پالتو کتوں بڈی اور ڈاٹ کے ساتھ سکون کی زندگی گزاریں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ترکی میں اپنا بچپن گزارا ہے، انہوں نے دیکھا ہے مصطفیٰ کمال اتاترک کے اصولوں کو اپنا کر ترکی ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے، وہ ترکی کی طرح پاکستان میں بھی انصاف، رواداری اور ایسا نظام چاہتے ہیں جس سے ملک ترقی کرے اور مضبوط ہو۔ ان کی حکومت اتاترک کی حکومت کی طرح ہو گی۔

پرویز مشرف ایک صدارتی حکم کے تحت عدلیہ کی مکمل آزادی کا اعلان کیا اور کہا کہ عدالت نے جس طرح سے ملکی حالات کے تناظر میں انہیں حکومت کرنے کا اختیار دیا ہے ، اس کے بعد یہ ضروری ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ پاکستان کی عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہو جائے اور کسی میں ہمت نہ ہو کہ وہ عدلیہ کو استعمال کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری عدالتوں میں مکمل طور پر قابلیت کی بنیاد پر فیصلے ہونے چاہئیں۔ جج انصاف کریں جو نظر آئے۔

اگر عدالتیں آزاد ہوں گی اورانصاف کریں گی تو سڑکوں پر بھی انصاف نظر آئے گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ سڑکوں پر ٹریفک کے سگنل پر گاڑیاں رکیں۔ عدالتی فیصلوں کے تحت حکومت کے محکمے کام کریں اور عوام خوشحال ہوں۔ اگر ملک میں انصاف ہو گا، عدالتیں آزاد ہوں گی تو ملک خوشحال ہو گا اور ترقی کرے گا۔ ہم ہندوستان، افغانستان اور ایران کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

پرویز مشرف نے ایک اور صدراتی حکم کے ذریعے ملک کے پریس کو مکمل آزادی دے دی اور اس بات کی اجازت بھی دی کہ کوئی بھی شخص ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اسٹیشن کھول سکتا ہے۔ صدارتی حکم کے مطابق ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو پابند کیا گیا کہ وہ روزانہ بچوں کے لئے تعلیمی پروگرام نشر کریں گے، ملک کی ناخواندہ اکثریت کے لئے خصوصی تعلیم بالغاں کا پروگرام نشر کیا جائے گا۔ مردوں اور عورتوں میں بیداری پھیلانے کے لئے ایسے پروگرام نشر کیے جائیں گے جن کے ذریعے ان میں آگہی پھیلائی جائے گی۔

پاکستان میں سو سے زیادہ ٹیلیویژن اور ریڈیو کے اسٹیشن کھل گئے ، جہاں سے چوبیس گھنٹے تفریحی، معلوماتی اور تعلیمی پروگرام نشر ہونے لگے۔ ٹیلی ویژن کے کئی چینلز نے سائنسی پروگرام کا آغاز کیا جس میں یورپ اور امریکا کے سائنسی پروگرام اردو اور مقامی زبانوں میں دکھائے جانے لگے۔ پرویز مشرف کے اتاترکی حکمرانی کا ایک بڑا کمال یہ تھا کہ قوم میں سائنسی شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ مزدوروں اور کسانوں کے لئے بھی خصوصی پروگرام کیے جا رہے تھے تاکہ انہیں بھی علم دوست بنایا جائے۔

حکومت نے سائنسی رسالوں اور کتابوں پر ٹیکس ختم کر دیا اور ڈاکخانے کے ذریعے کتابوں ا ور رسالوں کی ترسیل میں پچھتر فیصد کمی کر دی گئی۔ امریکا اور یورپ کے سائنسی رسالوں کو ہر لائبریری اور یونیورسٹی کے لیے خریدا جانے لگا۔

صدر پرویز مشرف نے حکومت سنبھالنے کے چھ ماہ کے بعد پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی ڈاکٹر یاسمین راشد، عورت فاؤنڈیشن کی مہ ناز رحمان، لاہور کی عاصمہ جہانگیر، امراض نسواں کے ڈاکٹروں کی تنظیم کی صادقہ جعفری اور تحریک نسواں کی شیماکرمانی کی موجودگی میں اعلان کیا کہ پاکستان میں ماؤں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے ، ہر ایک لاکھ حمل پر چھ سو سے زیادہ عورتیں مر جاتی ہیں اور چھ لاکھ سے زیادہ عورتیں ایسی بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں جن سے بہتر تو یہ ہے کہ وہ مر جائیں۔ان کے جسم سے پیشاب بہتا رہتا ہے اور وہ اس قابل بھی نہیں رہتی ہیں کہ مذہبی عبادت کرسکیں۔ یہ صورتحال ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لڑکیوں کی آبروریزی ہوتی ہے اور اکثر کم عمر بچیوں کی آبروریزی کے بعد انہیں مار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ سماج میں عورت کا کوئی مقام نہیں ہے، انہیں گائے بکریوں کی طرح سے رکھا جاتا ہے اور ان کے حقوق کا کوئی تحفظ نہیں کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مصطفیٰ کمال اتاترک نے 1926ء میں ترکی کی عورتوں کو ان کے حقوق دے دیے تھے۔ انقرہ، استنبول میں رات کے دو دو، تین تین بجے بھی اکیلی لڑکی سڑک پر محفوظ ہے۔ اب وہاں کوئی بھی مرد ایک سے زائد شادی نہیں کر سکتا ہے، کوئی بلاد کار سزا سے بچ نہیں سکتا ہے اور کوئی لڑکی تعلیم سے محروم نہیں رکھی جا سکتی ہے۔ ترکی میں عورتیں حمل کے دوران نہیں مرتی ہیں۔ پاکستان میں بھی مردوں کی بیک وقت ایک سے زیادہ شادی پر پابندی لگا دی گئی اور اعلان کیا گیا کہ ایک سال کے اندر اندر ملک کی تمام بچیوں کو اسکول کی سہولت فراہم کر دی جائے گی۔

عاصمہ جہانگیر، یاسمین راشد، شیما کرمانی اور مہ ناز رحمان نے حکومت کے اقدام کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ بہت جلد پاکستان میں حمل کے دوران ماؤں کا مرنا بند ہو جائے گا اور پاکستان میں بھی بچیاں ترکی کی بچیوں کی طرح محفوظ ہو جائیں گی۔ پرویز مشرف نے خصوصی طور پر وزیراعظم شوکت عزیز کو حکم دیا، وہ خود عورتوں کے بارے میں ہونے والے فیصلوں پر عمل کرائیں اور جلد از جلد یہ ممکن بنائیں کہ ہمارے ملک کی خواتین بھی ترکی کی خواتین کی طرح عزت، فخر اور غرور کے ساتھ جئیں اور انہیں اس بات کی آزادی ہو کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں خود ہی فیصلے کریں۔

پرویز مشرف نے ملک کے مشہور سائنس دان ڈاکٹر عطاء الرحمن کی خدمات حاصل کیں اور ان سے کہا کہ وہ ملک میں یونیورسٹیوں کا جال بچھا دیں جس کے لئے حکومت پچاس بلین روپیہ فراہم کرے گی۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے پرویز مشرف کو بتایا کہ ملک کو یونیورسٹی اور پی ایچ ڈی لوگوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے تمام پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں پینے کا صاف پانی، ٹوائلٹ، لائبریری، کلاس روم کی بینچیں، بجلی اور کھیل کے میدان فراہم کیے جائیں۔

ہر اسکول میں تربیت یافتہ اساتذہ ہوں اور ملک کا کوئی بھی لڑکا یا لڑکی اسکول سے باہر نظر نہیں آئیں۔ انہوں نے یہ ممکن بنایا کہ گاؤں اور دیہاتوں، قصبوں اور شہروں کی کچی آبادیوں کے اسکولوں میں بھی بنیادی تعلیمی سہولتیں ہوں۔ اسکولوں کی تعلیم مفت کر دی گئی۔ طلبا و طالبات کے لئے ہرے رنگ کی بسیں شروع کر دی گئیں جس کی سہولت کے لیے تمام ٹریفک کو روکا جانے لگا تاکہ بچے وقت پر اسکول پہنچ سکیں۔ ملک کے سارے صوبوں میں اسکول کے تعلیمی نظام کو سائنسی خطوط پر استوار کیا گیا تاکہ بچوں میں سوال کرنے کی عادت ہوں، نقل کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا۔ اسکولوں میں بندوبست کیا گیا کہ بچوں کو دوپہر کا کھانا ملے جس کی وجہ سے تیزی سے بچوں میں غذائیت کی کمی دور ہونے لگی۔

ڈاکٹر عطاء الرحمان کی سفارش پر ہی نئی یونیورسٹیاں کھولنے پر پابندی لگا دی گئی اور ملک میں پہلے سے موجود یونیورسٹیوں کو جزوقتی سے کل وقتی یونیورسٹی بنا دیا گیا۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنخواہ تین گنا کر دی گئی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی فیس ختم کر دی گئی۔ ڈاکٹر عطا الرحمان کے ان اقدامات کو پورے ملک کی جامعات کے سربراہوں نے سراہا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے ملک کے ہر شہر میں لائبریریاں بنوانے کا حکم دیا جس کے لئے پرویز مشرف کی حکومت نے مزید دس ارب روپے فراہم کیے ۔ پروفیسر عطاء الرحمان نے اعلان کیا کہ ملک کی جامعات کے اندر اور وائس چانسلر کی تقرری صرف اور صرف میرٹ پر ہو گی ، کسی بھی قسم کی سفارش قبول نہیں کی جائے گی۔

پرویز مشرف کی حکومت نے ایک سال کے اختتام پر تمام شہری حکومتوں کو بحال کر دیا اور انہیں کہا گیا کہ شہروں میں ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کریں، فٹ پاتھوں، پارکوں، اسپتالوں اور خواتین کے لئے مخصوص باغات کی زمینوں پر تجاوزات، غیر قانونی طور پر بنے ہوئے سینما ہال، سیاسی دفتر، مسجد اور ان کے ساتھ بنے ہوئی دکانوں کا خاتمہ کیا جائے۔ پرندوں، کتوں، بلیوں اور درختوں کو تحفظ فرہم کیا جائے۔ پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ استنبول اور انقرہ میں سینکڑوں سال پرانے درخت ہیں، شہر میں گھومنے والے ہر کتے اور بلی کے کانوں میں ایک نشان ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ویکسین ملی ہوئی ہے اور وہ شہر میں آزادانہ گھومتے ہیں۔ حکومت ہر جانور کو غذا مہیا کرنے کی پابند ہے۔ کوئی جانور ترکی کی سڑکوں پر بھوک اور پیاس سے نہیں مرتا ہے۔

پرویز مشرف کے اس اعلان کے بعد کراچی کے مشہور پارسی صحافی اردشیرکاؤس جی نے اپنے ٹرسٹ کی جانب سے کراچی اور لاہور میں جانوروں کے اسپتال کے لئے ایک بڑے عطیے کا اعلان کیا۔ کراچی کی ہندوکمیٹی نے بھی صدر مشرف کا شکریہ ادا کیا اور اعلان کیا کہ وہ پورے شہر میں جانوروں اور پرندوں کے پانی پینے کا انتظام کریں گے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے عبدالستار ایدھی نے پرویز مشرف کے اقدامات کو درست قرار دیا اور اعلان کیا کہ ان کی خاص جانوروں کی ایمبولینس بیمار اور زخمی جانوروں کے لئے مفت خدمات انجام دیں گی۔

صدر پرویز مشرف نے پاکستان کی مسجدوں کے لئے خاص اعلان کیا اور ترکی کی حکومت کی طرح اس کی ذمہ داری لی کہ تمام مسجدوں میں پانی اور بجلی حکومت فراہم کرے گی۔ مسجد کے اماموں کی تنخواہ گریڈ اٹھارہ کے افسران کے برابر ہو گی اور مسجد کے امام کو نوکری حاصل کرنے کے لئے ایک خاص امتحان دینا ہو گا۔ حکومت نے مسجدوں میں قائم تجارتی مراکز کو ختم کرنے کا بھی اعلان کیا اور ساتھ ہی قبروں کی تجارت اور مسجدوں میں سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی۔

اس اعلان کے فوراً بعد پرویز مشرف پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس کر کے یہ اعلان کیا کہ وہ پیشہ ور فوجی ہیں اور ملک کے عوام کے مفاد میں ہر کام کریں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ نہ وہ سیکولر ہیں اور نہ ہی سوشلسٹ یا کمیونسٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کے وزیراعظم شوکت عزیز، محمد علی جناح کی طرح مسلمان ہیں لیکن وہ اپنے مذہب اور عقائد کو کسی پہ بھی نہیں تھوپیں گے۔ پاکستان میں قائداعظم کے خواب کے مطابق ہر مذہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کے حواری پاکستان کو ترکی کی طرح ایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں جہاں عورتیں حمل کے دوران نہیں مریں، تمام بچے اسکولوں میں جائیں، تعلیم بالکل مفت ہو، ہر گھر میں صاف پینے کا پانی پہنچے، حکومت روزگار کی ضمانت دے اور عورتوں بچیوں کی عزت لوٹنے والے کبھی بھی جیل سے باہر نہ نکل سکیں۔

پرویز مشرف کی تقریر کے بعد سارے ملک میں ان کی حمایت میں جلوس نکلنے شروع ہو گئے تھے۔ پرویز مشرف نے ایک تقریر میں عوام کو یقین دلایا کہ وہ جلد افغانستان میں طالبان اور اسامہ بن لادن کی حمایت کرنے والوں کو بے عمل بنا دیں گے اور کسی بھی طاقت کا آلہ کار نہیں بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت کر رہے ہیں اور انہیں رقم فراہم کر رہے ہیں تاکہ کراچی میں سڑکوں کا جال بچھایا جائے، اسکول کالج اور اسپتال عوام کے لئے کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ بوریوں میں لاشوں کا سلسلہ بند ہو جائے گا ا ور تمام شہریوں کی حفاظت کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان کے عوام کو سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں سے نجات دلائی جائے گی اور وہاں کی عورتوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو ان کی بیوی اور بیٹی کو حاصل ہیں۔ عوام نے ان کے اعلانات کی زبردست پذیرائی کی۔

حقیقت

پرویز مشرف نے تین سال کے بعد حیلے بہانوں اور سیاسی سازشوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دیا اور ہر قسم کے لوگوں سے اتحاد کر کے ملک کے عوام کو سخت نقصان پہنچایا۔ انہوں نے ضیاء الحق کی طرح جھوٹ بول کر اپنی پیشہ ورانہ ساکھ خراب کی اور عوام میں اپنی مقبولیت کھو دی۔

ڈاکٹر عطاء الرحمان نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت تعلیم کے تحت ملک میں دو نمبر یونیورسٹیوں کا جال بچھایا اور تین نمبر پی ایچ ڈی کے حامل افراد کی فوج تیار کر دی اور ساتھ ہی قابلیت اور میرٹ کا جنازہ نکال دیا۔ ان کی رہنمائی اور ان کے دور میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں تعلیم پر کوئی پیسے خرچ نہیں کیے گئے۔ اعلیٰ تعلیم کے نام پر دیے گئے اربوں روپوں کو غیر ضروری طور پر خرچ کر کے بدعنوانی کو فروغ دیا گیا۔

پرویز مشرف کے دور حکومت میں سو سے زیادہ ٹی وی چینل اورریڈیو اسٹیشن کھلے مگر ان چینلوں نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے خوب اشتہارات لیے، تعلیم کے بجائے جہالت کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مذہبی منافرت اور غیر سائنسی سوچ کو پروان چڑھایا۔ میڈیا کے مالکان کروڑپتی سے ارب پتی بن گئے، عجیب و غریب قسم کے اینکروں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں نے عوام میں جہالت پھیلانے کا کام تندہی سے انجام دیا۔ ایسے پروگراموں کی سرپرستی کی گئی جن میں عورتوں کی تذلیل کی گئی، ایسے مولویوں کی سرپرستی کی گئی جو مذہب کے نام پر علم و آگہی کے خلاف مہم چلاتے رہے۔

عورتوں کے حقوق کے بارے میں دیکھے گئے خواب چکنا چور ہو گئے۔ عورتوں کے حقوق کی بحالی کے لئے دور رس اقدامات نہیں کیے گئے۔ شوکت عزیز نے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے وفد سے ملنے سے انکار کر دیا جو عوام کی بنیادی صحت کے حقوق اور عورتوں، لڑکیوں اور بچیوں پر ہونے والے جنسی تشدد کے بارے میں انہیں سفارشات پیش کرنا چاہتے تھے۔

پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے دور حکومت میں عورتوں کے حقوق اور ماؤں کے صحت کے لئے ویسے ہی زبانی جمع خرچ کی گئی جو ماضی کے سیاست دان کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں ان کے لئے سیٹ ضرور مختص کیے مگر انہوں نے عورتوں اور بچیوں کے حقوق اور تعلیم کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔

پرویز مشرف نے کراچی کے عوام کے لئے خطیر رقم کراچی کی شہری حکومت کو دی مگر وہ اس رقم کے اخراجات پر نظر نہیں رکھ سکے۔ کراچی میں دو نمبر قسم کے بائی پاس، اوور ہیڈ پل اور انڈر پاس بنائے گئے جو ابھی سے ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں اور آئے دن حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ کراچی کے کسی بھی محلے میں سڑکوں کے ٹوٹ پھوٹ کے بعد اسے بنانے کے نظام کو بحال نہیں کیا گیا۔ کراچی میں ہی وہ بے شمار جانوں کی حفاظت کرنے میں بھی ناکام ہو گئے۔

پرویز مشرف اور ان کے وزیراعظم شوکت عزیز نے ماضی کے حکمرانوں کی طرح بیرون ممالک دوروں میں ملنے والے تحائف پر خود ہی قبضہ کر لیا اور ملک سے جاتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ پرویز مشرف نے سعودی عرب کے بدعنوان شاہی خاندان سے رقم لے کر دبئی میں گھر خریدا اور اپنے کتوں بڈی اور ڈاٹ کو پاکستان چھوڑ کر اپنے دو نئے کتوں پاشا اور چی کے ساتھ دبئی منتقل ہو گئے۔ انہوں نے پاکستانی عوام سے اپنے جھوٹ بولنے پر معافی نہیں مانگی اور نہ ہی کراچی کے شہریوں کی حفاظت میں ناکامی پر ندامت کا اظہار کیا۔

پرویز مشرف نے ان ایماندار شہریوں اور اپنے ان مخلص فوجی ساتھیوں سے بھی معافی نہیں مانگی جو ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہے جن سے ان کی حکومت نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ انہوں نے اور ان کے وزیراعظم نے مائی مختاراں سے بھی معافی نہیں مانگی جن کے بارے میں انہوں نے غیرذمہ دارانہ بیانات دیے تھے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments