وزیراعظم کا اعتراف اور شوکت ترین کا بیان


اس حکومت کے سامنے معیشت کی بحالی کے سوا اور کوئی چیلنج نہیں تھا لیکن اب اپنے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو ہٹا کر وزیراعظم نے ایک طرح سے اعتراف کر لیا ہے کہ معیشت بھی ان سے نہیں سنبھل سکی۔ اب وزیراعظم نے معاشی تباہی کا عمل روکنے کے لیے اکنامک ایڈوائزری کونسل تشکیل دی ہے، جس میں نجی شعبہ سے بھی تیرہ افراد شامل ہیں۔ اس کونسل کے ممکنہ کنوینیئر اور سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی وہی باتیں کہیں ہیں جو ہم ایسے طالب علم عرصے سے کہہ رہے تھے۔

نجی ٹی وی جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ معیشت کی سمت کا کچھ پتا نہیں کہ وہ کس طرف جا رہی ہے۔ ہم نے اڑھائی سال میں اپنا گھر ٹھیک نہیں کیا۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں غلطی کی گئی۔ صرف ٹیرف بڑھانے سے کرپشن میں اضافہ ہو گا۔ ایکسچینج ریٹ اور شرح سود بڑھانے سے معیشت کا بیڑا غرق ہوا۔ انہوں نے معیشت کے حوالے سے نیب کے منفی کردار کا بھی ذکر کیا۔ بین السطور انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی معیشت پچھلے اڑھائی برسوں میں مکمل تباہ ہو چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں اسٹیٹ بینک کے لیے ایک ایکٹ بھی حکومت نے جاری کیا ہے۔ اس متعلق اگرچہ شوکت ترین صاحب نے بات نہیں کی تاہم ہمارا میرا خیال ہے کوئی کسر باقی رہ گئی ہے تو مذکورہ ایکٹ سے پوری ہو جائے گی۔

اڑھائی سال گزارنے کے بعد حکومت مزید یہ بہانہ نہیں بنا سکتی کہ پچھلے ملک کی یہ حالت چھوڑ کر گئے یا معاشی بحالی میں فلاں فلاں مافیاز رکاوٹ تھیں۔ اس حکومت کو جتنی کمزور اپوزیشن ملی ، اس کی بھی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ حکومت اگر محاذ آرائی میں وقت برباد نہ کرتی تو بہت کچھ کر سکتی تھی۔ اپوزیشن عوام کو یہ تک بتانے میں ناکام رہی کہ انقلابی زبانوں کی شعلہ افشانی کے باعث گروتھ ریٹ منفی سے بھی نیچے گر چکا ہے ، جو صرف اڑھائی سال پہلے تک 8۔ 5 فیصد سالانہ تھا اور تمام عالمی ریٹنگ ایجنسیز توقع کر رہی تھیں کہ معاشی پالیسیز میں تسلسل قائم رہا تو باآسانی ایک سال بعد یہ سات فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔

یاد رکھیں ملکی آبادی میں اضافے کی شرح ہی سالانہ 3 فیصد کے لگ بھگ ہے ۔ اس لیے گروتھ کی شرح منفی ہونا کس قدر خوفناک بات ہے، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اس وقت شرح سود چھ فیصد سے کم تھی جو طویل عرصے تک تیرہ فیصد رکھی گئی جس نے کاروبار کا امکان ہی بالکل ختم کر دیا۔

مہنگائی کی شرح پچھلی حکومت 2.3 فی صد پر چھوڑ کر گئی تھی وہ بھی دہرا ہندسہ کراس کر چکی اور فوڈ انفلیشن تو بیس فیصد کی خوفناک سطح بھی کراس کر چکی ہے اور اس صورتحال کے باعث محاورتاً ہی نہیں بلکہ حقیقتاً لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پابندی کے باوجود صرف دو سال جتنے نئے نوٹ چھاپے گئے، اتنے نوٹ پچھلے پورے دور حکومت میں نہیں چھاپے گئے اور افراط زر بڑھنے کی یہ بھی بڑی وجہ ہے۔ بجلی کی قیمت میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا، گیس تین گنا بڑھ گئی ، سرکلر ڈیٹ میں روز بروز پھر بھی اضافہ جاری ہے اور وہ بڑھ کر پچیس سو ارب کے لگ بھگ پہنچ چکا جو کل محصولات کا نصف بنتا ہے۔

ایکسپورٹ کو سہارا دینے کے نام پر روپے کی قدر کو تاریخ ساز جھٹکا دیا گیا ۔ ایکسپورٹ میں تو پھر بھی اضافہ نہ ہوا لیکن مہنگائی کے تازیانے سے غریب عوام کی کمر ضرور ٹوٹ گئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملک کے ہر کونے میں بازار سنسان پڑے ہیں کاروباری سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہاں تک دیہاڑی دار، پرچون اور سبزی فروش طبقے کے کاروبار بھی مندی کا شکار ہیں۔

سب سے زیادہ قابل رحم بھی یہی دیہاڑی دار طبقہ ہے کیونکہ ان کے پاس کچھ پس انداز نہیں ہوتا، یہ لوگ روز کمانے اور روز کھانے والے ہیں۔ جس دن ان کی دیہاڑی نہ لگے ، ان کے لیے بچوں کا پیٹ بھرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ دن بھر کی محنت مشقت کے عوض جو معمولی رقم ملتی ہے ، اسی سے گھر لوٹتے وقت اپنے گھرانے کی ضرورت کے لیے انہیں راشن لے کر جانا ہوتا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ملک میں پیدا ہونے والے معاشی بحران سے نہ صرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ مہنگائی بھی آسمان چھونے لگی ہے۔

اس عرصے کے دوران پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ میں اضافہ ہوا ہی ہے جس سے عوام کی زندگی اجیرن ہے ہی مگر اشیائے خورونوش کی گرانی سب سے بڑا سوہان روح ہے اور حالیہ دنوں میں آٹا جو پیٹ کا دوزخ بجھانے کے لیے لازم ہے ۔ اس کی کمیابی اور گرانی غریب آدمی کے لیے کتنا بڑا مسئلہ ہے ، یہ الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ آئے روز چند کلو آٹے کے حصول کے لیے قطار میں لگ کر پسینہ اور آنسو بہاتے لوگ دیکھ کر سینہ کٹ کر رہ جاتا ہے۔

حیرت ہے کہ اب بھی کسی حکومتی ذمہ دار کو احساس نہیں ہو رہا کہ غریب آدمی کی زندگی کس قدر اجیرن ہے، اور دیہاڑی دار طبقہ کس حال میں ہے؟ اپنی آئینی مدت کا بڑا عرصہ غیر ضروری محاذ آرائی میں ضائع کرنے کے بعد بھی وزراء کی دلچسپی اور توجہ کا تمام تر محور سیاسی مخالفین ہیں۔

حکومتی وزراء کو فکر ہے تو صرف یہ کہ سیاسی مخالفین کو کس طرح گندا کیا جائے؟ اس سنگین صورتحال میں بھی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی بلکہ الٹا اس کے وزیروں مشیروں کے بیانات بے حسی و سنگدلی کا ساتھ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں۔ لغو بیان بازی اور بیہودہ یاوہ گوئی کے علاوہ حکومتی ذمہ داران کے پاس نا اہلی کو جسٹیفائی کرنے کا کوئی جواز ہے اور نہ ہی ملک کو گرداب سے نکالنے کی پالیسی۔ ہر سوال کا جواب وہی رٹا رٹایا ملتا ہے کہ ”شکر ادا کیا جائے کہ ورنہ حالات اس سے بھی بدتر ہو سکتے تھے“ ۔

معلوم نہیں آخر مزید بدتر حالات کیا ہوں گے؟ اڑھائی سال بعد بھی معیشت میں بہتری نہیں آ رہی اور عوام کا معیار زندگی پہلے سے بدتر ہو رہا ہے تو یہ موجودہ حکومت کی ہی ناکامی ہے اور وہی اب اس کی ذمہ دار ہے۔ معیشت اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک اسے ترجیح نہیں بنایا جاتا لیکن حکومت سمجھتی ہے کہ یہ کام اس کی ذمہ داری میں شامل نہیں بلکہ اسے ووٹ صرف انتقامی نفسیات کی تسکین کے لیے ملا ہے حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ عوام کا اصل مسئلہ بھوک اور بیروزگاری ہے۔

اپوزیشن کے احتجاج کے غبارے سے ہوا نکلنے کے بعد حکومت کو چاہیے کہ یکسو ہو کر معیشت اور گورننس کے شعبوں میں ہنگامی بنیاد پر بہتری لانے کی کوشش کرے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے سبب اس وقت عوام میں بہت بے چینی ہے اور حکومت پہلے ہی بہت وقت برباد کر چکی ہے۔ آئندہ سال اگلے انتخابات کی تیاری شروع ہو جائے گی اور کچھ کرنے کا وقت باقی نہیں رہے گا کارکردگی میں بہتری نہ لائی گئی تو تحریک انصاف کے ٹکٹ کا کوئی امیدوار بھی نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments