مختار انصاری: ’مافیا ڈان‘ اور تین بار جیل سے الیکشن جیتنے والے مختار انصاری کون ہیں؟

پرینکا دوبے - بی بی سی ہندی


مختار انصاری

مختار انصاری کا تعلق بہوجن سماج پارٹی سے ہے۔

انڈیا کی ریاست اترپردیش کی حکومت سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ریاستی رُکن اسمبلی مختار انصاری کو دو سال بعد پنجاب کی جیل سے اترپردیش کی جیل میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

مختار انصاری کو پنجاب سے اتر پردیش لانے کے لیے ریاستی حکومت بہت عرصے سے کوشش کر رہی تھی کیونکہ اترپردیش کی حکومت کا الزام تھا کہ پنجاب میں کانگریس کی حکومت مختار انصاری کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔

گذشتہ دنوں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اب اترپردیش کی پولیس اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئی ہے۔

مختار انصاری کون ہیں؟

اترپردیش کے مؤو علاقے سے پانچ بار ریاستی اسمبلی کے رکن متنخب ہونے والے مختار انصاری کی کہانی کے متعدد دلچسپ پہلو ہیں۔

ان کی کہانی جاننے سے پہلے یہ بتانا اہم ہے کہ سنہ 2017 میں ان کی جانب سے جمع کروائے گئے انتخابی حلف ناموں کے مطابق اُن پر فی الحال انڈیا کی مختلف عدالتوں میں قتل، اقدامِ قتل، فسادات بھڑکانے، اسلحہ رکھنے، اغوا اور کارِ سرکار میں مداخلت جیسے الزامات کے تحت 52 مقدمات درج تھے۔

مختار انصاری کے خلاف ریاست اتر پردیش سمیت دیگر ریاستوں میں درج ان 52 مقدمات میں سے 15 میں عدالتی کارروائی جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سونے کی سمگلنگ میں انڈیا کی اجارہ داری ختم کرنے والے پاکستان کے ’گولڈ کنگ‘ سیٹھ عابد

ماڈوی ہڈما: وہ ’دیوتا‘ جس کو گرفتار کرنے کی کوشش میں 22 انڈین فوجی ہلاک ہوئے

ڈاکٹر کفیل خان: انڈیا کے لیے قومی خطرہ یا جبر کی علامت؟

ان میں سے بعض مقدمات میں عدالتیں انھیں شواہد کی عدم دستیابی، گواہوں کے بیان بدل لینے اور استغاثہ کی جانب سے کمزور دلائل کی وجہ سے بری کر چکی ہے۔

ان کے خلاف وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک ریاستی اسمبلی کے سابق رکن کرشنا نند رائے کے قتل کا مقدمہ بھی ہے۔

مقدمات کے باوجود جیت کا سلسلہ جاری رہا

مختار انصاری

مختار انصاری نے گزشتہ تین انتخابات جیل میں رہتے ہوئے لڑے تھے۔

ایک طرف مختار انصاری کے خلاف عدالتی کاروائیاں جاری تھیں وہیں ان کا انتخابات میں جیتنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔

سنہ 1996 میں مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر فتح حاصل کر کے پہلی بار ریاستی اسمبلی پہنچنے والے مختار انصاری نے سنہ 2002، سنہ 2007، سنہ 2012 اور سنہ 2017 میں موؤ سے فتح حاصل کی۔

آخری تین انتخابات انھوں نے ملک کی مختلف جیلوں میں قید رہتے ہوئے لڑے۔

میں اس رپورٹ کے سلسلے میں اترپردیش کے غازی پور ضلع میں واقع مختار انصاری کے آبائی گھر گئی تھی لیکن آپ کو وہاں کی تفصیلات بتانے سے پہلے مختار انصاری کی زندگی کے بعض اہم حقائق پر نظر ڈالتے ہیں۔

غازی پور: اپنا علاقہ، اپنا ووٹ

ایک طرف غازی پور کو جرائم اور منشیات کا مرکز سمجھا جاتا ہے وہیں اس علاقے نے بڑے بڑے افسر پیدا کیے ہیں جنھوں نے ملک کی خدمت کی ہے۔

مختار انصاری انڈیا کے سابق نائب صدر حامد انصاری کے بھتیجے ہیں۔

مختار انصاری کی سیاسی اور جرائم کی دنیا سے متعلق غازی پور کی اہمیت بتاتے ہوئے سینیئر صحافی اتپل پاٹھک کہتے ہیں ’80 اور 90 کی دہائی میں برجیش سنگھ اور مختار انصاری کا گینگ وار غازی پور سے شروع ہوا تھا۔‘

غازی پور میں بڑے زمین داروں کا بول بالا رہا ہے۔ ملک کے سب سے پسماندہ علاقوں میں سے ایک غازی پور میں کاروبار کے زیادہ مواقع نہیں ہیں۔ یہاں ایک طرف افیوم کا کاروبار ہوتا ہے تو اس علاقے میں ہاکی بھی خوب کھیلی جاتی ہے۔

اس علاقے کو گینگسٹرز کا مرکز بھی کہا جاتا ہے لیکن ہر برس اس ضلع سے تعلق رکھنے والے متعدد نوجوان آئی ایس اور آئی پی ایس (انڈین پولیس سروس) افسران بھی بنتے ہیں۔

پاٹھک مزید کہتے ہیں ’مختار انصاری اور ان کے خاندان کا سیاسی اثر و رسوخ غازی پور سے لے کر موؤ، جون پور، بلیہ اور بنارس تک ہے۔ صرف آٹھ سے 10 فیصد مسلم آبادی والے غازی پور میں ہمیشہ سے انصاری خاندان ہندو ووٹ بینک کی بنیاد پر انتخابات جیتتا رہا ہے۔‘

انصاری خاندان کا پس منظر

انصاری خاندان کو غازی پور کے ’اول سیاسی خاندان‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مقامی سیاست میں ان کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔

گذشتہ تقریباً 15 برسوں سے جیل میں قید مختار انصاری کے دادا ملک کی آزادی کی جدوجہد میں گاندھی کا ساتھ دینے والے اہم لیڈر کے طور پر مشہور ہیں۔ سنہ 1926-27 میں ان کے دادا مختار احمد انصاری کانگریس کے صدر تھے۔

مختار انصاری کے نانا برگیڈیئر محمد عثمان 1947 کی جنگ میں ہلاک ہو گئے تھے اور انھیں ’مہاویر چکر‘ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔

کمیونسٹ فکر کے حامی اور ایک اچھی شہرت رکھنے والے مختار انصاری کے والد سبحان اللہ انصاری مقامی سیاست میں سرگرم تھے۔

غازی پور سے تعلق رکھنے والا انصاری خاندان بہت بڑا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مختار انصاری کے نانا، دادا اور ديگر رشتے داروں نے ملک کی جتنی خدمت کی امختار انصاری نے اس کو ’اپنے کارناموں سے دھندلا کر دیا۔‘

مختار انصاری اور ان کے بھائیوں کا سیاست میں کردار

مختار انصاری کے بڑے بھائی افضال انصاری غازی پور کے محمد آباد انتخابی حلقے سے لگاتار پانچ بار (1985 سے 1996 تک) رکن اسبملی منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ سنہ 2004 میں غازی پور سے ہی رکن پارلیمان کا انتخاب بھی جیت چکے ہیں۔

مختار انصاری کے دوسرے بھائی صبغت اللہ انصاری بھی سنہ 2007 اور سنہ 2012 میں محمد آباد سے رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔

مختار انصاری کے دو بیٹے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے عباس انصاری شوٹنگ کے چیمپیئن رہ چکے ہیں۔ سنہ 2017 میں موؤ ضلع کی گھیسا ریاستی اتنخابی حلقے سے عباس انصاری نے بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر اپنا پہلا انتخاب لڑا تھا لیکن وہ سات ہزار ووٹوں کے فرق سے یہ انتخاب ہار گئے تھے۔

مختار انصاری کے چھوٹے بیٹے عمر انصاری ملک سے باہر تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن گذشتہ ریاستی انتخابات میں انھوں نے اپنے والد کے لیے انتخابی مہم چلائی تھی۔

کرشنا نند رائے کی ہلاکت اور مختار انصاری پر الزام

سنہ 1985 سے انصاری خاندان کے پاس رہنے والی غازی پور کی سیٹ 17 سال بعد سنہ 2002 کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کرشنا نند رائے نے جیت لی تھی۔ وہ بطور رکن اسمبلی اپنی مدت پوری نہیں کر سکے تھے اور تین سال بعد ان کا قتل کر دیا گیا تھا۔

غازی پور کے علاقے میں کرشنا نند کی ہلاکت کی خبر آگ کی طرح پھیلی تھی۔ اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی پون سنگھ بتاتے ہیں ’وہ ایک جلسے کا افتتاح کر کے واپس لوٹ رہے تھے تب ہی ان کی بلٹ پروف ٹاٹا سومو گاڑی پر چاروں طرف سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔

’حملے کے لیے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا جہاں سے گاڑی دائیں اور بائیں موڑنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ کرشنا نند کے ساتھ دیگر چھ افراد گاڑی میں تھے۔ اے کے 47 سے تقریباً 500 گولیاں چلائی گئیں، سبھی افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔‘

اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے والے دوسرے صحافی اتپل پاٹھک بتاتے ہیں ’یہاں رہنے والا کوئی بھی شخص بتا دے گا کہ یہ 500 گولیاں ہلاک کرنے بلکہ ایک پیغام دینے کے لیے چلائی گئی تھیں۔ قاتل اپنی طاقت کے بارے میں پیغام دینا چاہتے تھے کہ دیکھیے آپ کے انتخابی حلقے میں، آپ کے گڑھ میں اور آپ کے نام نہاد سیف زون میں گھس کر آپ کو مارا ہے۔‘

ماہرین کے مطابق غازی پور کی اپنی خاندانی سیٹ ہارنے پر مختار انصاری ناراض تھے۔ کرشنا نند رائے کی ہلاکت کے وقت جیل میں ہونے کے باوجود مختار انصاری کو ان ہلاکتوں کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

انصاری حویلی اور خاندان کا نام

غازی پور کے یوسف پور علاقے میں واقع مختار انصاری کا حویلی نما آبائی گھر ’بڑکا پھاٹک‘ یعنی ’بڑے دروازے‘ کے نام سے مشہور ہے۔ قصبہ نما اس چھوٹے سے شہر میں ’بڑکا پھاٹک‘ کا پتہ سبھی کو معلوم ہے اس لیے راستہ پوچھتے پوچھتے میں بہت آسانی سے ان کے گھر تک پہنچ گئی۔

جس وقت میں غازی پور پہنچی تو مختار انصاری کی بزرگ والدہ بہت بیمار تھیں۔ ان سے ’آخری ملاقات‘ کے لیے ان کے خاندان کے لوگ وہاں جمع ہو رہے تھے۔ ان میں سے بعض افراد انھیں بیرون ملک سے دیکھنے غازی پور آئے تھے۔

چند گھنٹوں بعد مختار انصاری کی والدہ وفات پا گئیں۔

مختار انصاری کے گھر کا بڑا دروازہ مہمانوں کے لیے دن بھر کھلا رہتا ہے۔ گھر کے آنگن کی دوسری طرف بنی ایک بڑی سی بیٹھک یا مہمانوں کے کمرے میں کانگریس کے سابق صدر اور ان کے دادا مختار احمد انصاری اور سابق نائب صدر حامد انصاری سمیت خاندان کے متعدد سیاسی چہروں کی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔

سیاسی موقع پرستی

مختار انصاری کے بھائی افضال انصاری نے اپنا سیاسی کریئر کمیونسٹ پارٹی سے شروع کیا، پھر سماج وادی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے ’قومی ایکتا دل‘ نامی اپنی پارٹی تشکیل دی اور سنہ 2017 میں بہوجن سماج پارٹی میں شامل ہو گئے۔

اور پھر مختار انصاری نے بہوجن سماج پارٹی سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور بعد میں آزاد امیدوار کے طور پر بھی انتحاب لڑا۔

مختار انصاری کو ’غریبوں کا مسیحی‘ کہنے والی ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ اور بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے سنہ 2010 میں دونوں بھائیوں کو یہ الزام لگا کر پارٹی سے بے دخل کر دیا کہ وہ ’جرائم میں ملوث‘ ہیں۔

سنہ 2017 میں انتخابات سے قبل یہ کہہ کر ان کی جماعت ’قومی ایکتا دل‘ کو بہوجن سماج پارٹی میں واپس شامل کر لیا گیا کہ عدالت میں ان کے خلاف کوئی بھی جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔

مختار انصاری کے بارے میں خاندان کی رائے

مختار انصاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کے بھائی افضال انصاری کہتے ہیں ’مختار مجھ سے دس برس چھوٹے ہیں۔ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ غازی پور کے کالج میں پڑھتے تھے۔ اس کالج میں اعلیٰ ذات راج پوتوں اور زمین داروں کا غلبہ تھا۔ وہاں ان کی دوستی سندھو سنگھ نام کے ایک شخص سے ہوئی۔ اس سے دوستی نبھانے کے چکر میں وہ اس کی نجی دشمنیوں میں شامل ہو گئے اور ان کا نام بدنام ہو گیا۔‘

رکن پارلیمان افضال انصاری مزید کہتے ہیں ’مختار کے ساتھ ساتھ پورے خاندان کو بھی بدنامی اٹھانی پڑی۔ یہ سارے مقدمے جو مختار کے خلاف درج کیے گئے ہیں وہ سیاسی ہیں۔ وہ 15 سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں قید ہیں۔ اگر انھوں نے واقعی کوئی جرم کیا ہے تو کوئی بھی تحقیقاتی ایجنسی ان پر آج تک جرم ثابت کیوں نہیں کر سکی۔‘

مختار انصاری کے سیاسی اثرورسوخ کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’مختار موؤ سے انتخابات لڑتے اور فاتح بھی ہوتے تھے۔ ان کا اثر و رسوخ ہم سے زیادہ ہے، ان کا گلیمر زیادہ ہے۔ ہم غازی پور سے باہر جاتے ہیں تو لوگ ہمیں ان کے نام سے جانتے ہیں۔‘

افضال مزید کہتے ہیں ’غازی پور میں صرف آٹھ فیصد مسلمان ہیں۔ ہمیں یہاں ہندو فتح دلاتے ہیں۔ ہم ان کے سکھ دکھ میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ رمضان کے دوران منھ پر رومال رکھ کر ان کے ساتھ ہولی کھیلی ہے۔ یہاں سب ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ اس لیے ہمیں ان کے ووٹوں پر بھروسہ ہے۔‘

سیاسی مبصرین کی رائے

مختار انصاری کے معاملے میں متعدد لوگوں اور خود ان کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

سینیئر صحافی رام دت ترپاٹھی نے بی بی سی کو بتایا ’دیکھیے مختار انصاری پر جتنے بھی معاملات ہیں وہ پرانے ہیں۔ ان میں کوئی بھی نیا مقدمہ نہیں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بہت لمبے وقت سے اپنے سیاسی کریئر اور مقامی سیاست کی وجہ سے انھیں حریف گروپوں کا سامنا رہا ہے اور بعض سے ان کا براہ راست ٹکراؤ ہوا ہے تو ان پر جو کیسز ہیں ان میں صداقت ہو سکتی ہے لیکن یہ ثابت کرنا تو عدالت کا کام ہے۔‘

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مختار انصاری کو اترپردیش کی جیل میں منتقل کرنا سیاسی فیصلہ ہے۔ اس بارے میں رام دت ترپاٹھی بتاتے ہیں ’اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ گینگسٹر اور منظم مافیہ کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں لیکن ابھی تک جو بھی کارروائی ہوئی ہے اس سے یہ صاف نظر آتا ہے کہ ان کی پالیسی ٹارگٹڈ ہے۔‘

’ابھی تک انھوں نے جن افراد کے خلاف کارروائی کی ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق اقلیتی براداری سے ہے۔ اگر وہ واقعی سنجیدہ ہیں تو کارروائی سبھی گینگسٹرز کے خلاف ہو تب لوگ تعصب کی بات کریں گے ہی نہیں۔‘

لکھنؤ سے شائع ہونے والے اردو اخبار ’مرکز‘ کے ایڈیٹر حسام الاسلام صدیقی کا کہنا ہے کہ ’مختار انصاری اپنے علاقے کے ایک باوقار لیڈر ہیں۔ وہ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندوؤں کے درمیان بھی بے حد مقبول ہیں۔ اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سنہ 2017 میں مودی خود ان کے انتخابی حلقے موؤ میں ریلی کرنے کے لیے گئے لیکن تب بھی وہاں سے مختار انصاری ہی جیتے تھے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’اترپردیش کی حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مختار انصاری کی جیل میں سکیورٹی کو یقینی بنائیں کیونکہ ان کے ساتھ ایک بڑا ہندو ووٹ بینک ہے جو اکثر عام اتنخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ دیتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے ’مختار انصاری کے خلاف کارروائی یوگی آدیتہ ناتھ کی ذاتی رنجش کا نتیجہ ہے۔ کرشنا نند رائے جن کی ہلاکت کے لیے مختار انصاری کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے وہ یوگی آدیتہ ناتھ کے خاص آدمی تھے اور یوگی آج تک ان کی ہلاکت کو نہیں بھولے ہیں۔‘

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اترپردیش کی حکومت نے جس طرح مختار انصاری کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدگی دکھائی ہے اور اس کے لیے وہ سپریم کورٹ تک گئی ہے، اسی طرح اگر وہ ریاست میں ہونے والے جرائم اور خاص طور پر خواتین کے استحصال کے معاملات میں کارروائی کرے تو عوام کو ایک مثبت اور بہتر پیغام جائے گا۔

خاندان کے خدشات

مختار انصاری کو پنجاب سے اترپردیش منتقل کیے جانے پر ان کی اہلیہ افشاں انصاری نے ان کی سکیورٹی سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس بارے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

انھوں نے عدالت میں اپنی درخواست میں کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ اترپردیش کی حکومت کو یہ احکامات دے کہ جیل کے اندر ان کے شوہر کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں خدشہ ہے کہ اترپردیش کی پولیس ان کے شوہر کا انکاؤنٹر کر سکتی ہے۔

انڈین خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو دیے گئے ایک بیان میں مختار انصاری کے بھائی افضال انصاری نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب سے اترپردیش لاتے وقت ان کے بھائی کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا اور انھیں ’15 گھنٹے کے سفر کے دوران کھانا، پانی اور طبی امداد سے محروم رکھا گیا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp