جان لیوا وبائیں ،اہم ترین دریافتیں اور مسلمان سائنسدان


اسلامی محققین اور مفکرین نے ایسی اشیاء کی ایجاد کی یا بنیاد ڈالی جن کے بغیر آج کی جدید دنیا کا تصور بھی محال ہے تو اگر مسلم سائنس دانوں کو آج کے جدید دور کا بانی اور موجد کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

کورونا ویکسین بنانے والی امریکی ٹیم کے سربراہ نامور مسلم سائنس دان ڈاکٹر السلاوی امیگریشن آف بریلنٹ مائنڈ سے لے کر دنیا کی ایجادات تک مسلم سائنس دان نمایاں ہیں۔ ابن سینا مسلم سائنس دانوں میں مشہور ترین سائنس دان تھے۔ وہ طبیعات ، رہاضی، فلسفہ ، فلکیات اور ماہر دینیات بھی تھے۔ ابن سینا ایک عظیم طبیب تھے انہوں نے وبائی امراض کے خاتمے کے لئے ہزاروں سال قبل کچھ طریقے ایجاد کر لیے تھے جس سے موجودہ دور میں فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔

اس سے بچاؤ کے لیے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔ یہ طریقہ بھی ابن سینا کا بتایا گیا طریقہ ہے۔ ابن سینا نے ہزاروں سال قبل قرنطینہ کا فلسفہ پیش کیا تھا کہ کسی بھی وبائی بیماری جو کہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو اس کے لئے سب سے پہلے قرنطینہ اختیار کرنا چاہیے۔

ابن سینا کی سب سے اہم کتاب ”دی کینن آف میڈیسن“ جو کہ 1025 میں شائع ہوئی ، اس میں ابن سینا نے قرنطینہ سے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا۔  سینا کا کہنا تھا کسی بھی انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہونے والی وبا کے آنے پر 40 روز کا قرنطینہ اختیار کیا جائے تاکہ وبا کو پھیلنے سے پہلے کمزور کیا جا سکے۔ ابن سینا کی یہ کتاب بہت مشہور ہے اور روشن چراغ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب سے میڈیسن بنانے والی کمپنیاں اب بھی مستفید ہو رہی ہیں۔

ابن سینا ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے پتہ لگایا کہ یرقان کیسے ہوتا ہے ، انہوں نے ہی بہت ساری جان لیوا بیماریوں کے علاج کے دوران مریض کو بے ہوش کرنے کا طریقہ بھی بتایا۔ بہت سے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ ابن سینا ایک ایسے طبیب تھے جو اپنی خدمات کا معاوضہ بھی نہیں لیتے تھے۔ اس عظیم مسلمان سائنس دان کی تحقیقات سے آج دنیا بھر کے سائنس دان اور میڈیسن کمپنیاں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ وبائیں ہوں یا پھر دنیا کی مفید اور ضروری ایجادات بیشتر مسلمانوں اور عربوں کی مرہون منت ہیں اور وہ اس وقت ایجاد ہوئی ہیں جبکہ متمدن دنیا میں کہیں یورپ و اہل یورپ کا ذکر تک نہ تھا۔

شومئی قسمت آج ہمیں ڈراموں ، فلموں کے نام تو یاد ہیں لیکن مسلم ہیروز کے کارنامے تو کجا نام تک یاد نہیں۔ خالد بن یزید ، زکریا، رازی ، ابن سینا، الخوارزمی ، ابو ریحان البیرونی، الفارابی ، ابن مسکویہ، ابن رشد ، کندی، ابو محمد خوحبدی ، جابر بن حیان، موسیٰ بن شاکر ، البتانی، ابن الہیثم ، عمر خیام، المسعودی ، ابو الوفاء اور الزھراوی جیسے عظیم سائنس دانوں کے حالات زندگی اور سائنسی کارناموں سے ہم یکسر ناواقف ہیں۔

ابن سینا کی کتاب القانون ’بصری کی کتاب الحیوان اور ابوالقاسم کی جراحی‘ سترہویں صدی عیسوی تک یورپ میں نصابی کتب کے طور پر پڑھائی جاتی رہیں ۔ ان کتابوں میں انسانی دماغ اور اعصاب کی تصاویر بنی تھیں۔ ابن سوری کی کتاب میں خشک جڑی بوٹیوں کی رنگین تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ یہ کتاب عربوں کی پہلی رنگین مصوری کتاب قرار دی گئی۔ کاغذ کی صنعت کو اوج کمال پر پہنچانے والے اہل شاطبہ ہیں۔ چھپائی کی مشین اور مطابع کے پہلے موجد مسلمان سائنس دان ہیں۔ دوران خون کا جدید نظریہ ولیم ہاروے سے منسوب کیا جاتا ہے، حالانکہ اس سے بہت پہلے ابن النفیس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔ ابوالقاسم الزہراوی نے مثانہ کی پتھری نکالنے کے لیے جسم کا جو مقام آپریشن کے لیے تجویز کیا تھا آج تک اسی پر عمل ہو رہا ہے۔

محمد بن زکریا رازی دنیا کے پہلے طبیب جنہوں نے تپ دق کا علاج اور چیچک کا ٹیکہ ایجاد کیا تھا۔ حکم بن ہاشم (ابن المقنع) نے ایک مصنوعی چاند بنایا تھا جو ماہ نخشب کے نام سے مشہور تھا۔ یہ نخشب نامی کنویں سے طلوع ہوتا تھا اور تقریباً دو سو مربع میل کا علاقہ منور کرتا تھا۔ اندلس (اسپین) کے ایک مسلم (سائنس دان) عباس (ابوالقاسم) بن فرناس نے تین چیزیں ایجاد کر کے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اول عینک کا شیشہ ، دوم گھڑی، سوم ایک مشین جو ہوا میں اڑ سکتی تھی۔ ابراہیم الفزازی، خلیفہ منصور کے عہد کا پہلا مسلمان سائنس دان انجینیئر تھا۔ جس نے پہلا اصطرلاب تیار کیا تھا۔

ابن سینا کے استاد ابوالحسن نے پہلی دوربین ایجاد کی تھی۔ حسن الزاح نے راکٹ سازی کی طرف توجہ دی اور اس میں تارپیڈو کا اضافہ کیا۔ مسلمانوں کی دیگر صنعتی ایجادات میں بارود ، قطب نما، زیتون کا تیل ، عرق گلاب،  خوشبوئیں ، عطر سازی،  ادویہ سازی ، معدنی وسائل میں ترقی، پارچہ بافی ، صابن سازی، شیشہ سازی اور آلات حرب شامل ہیں۔

عمر خیام نے شمسی کیلنڈر مرتب کیا۔ سورج اور چاند کی گردش، سورج گرہن، علم المیقات (ٹائم کیپنگ) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیر معمولی سائنسی معلومات بھی البیرونی جیسے نامور مسلم سائنس دان نے فراہم کیں اور انہیں تحریری شکل دی۔ عباس بن فرناس وہ عظیم سائنس دان ہے، جس نے دنیا کا سب سے پہلا ”ہوائی جہاز“ بنا کر اڑایا۔ قبلہ کے تعین اور چاند اور سورج گرہن کو قبل از وقت دریافت کرنے حتیٰ کہ چاند کی گردش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی ابن یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنس دانوں نے وضع کیا۔

حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں الخوارزمی نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ ان کی کتاب (الجبر و المقابلہ) سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی۔ الخوارزمی کی بہت ساری اہم تصانیف تھیں ’جن میں ایک ”السند ہند“ کے نام سے مشہور ہے۔ کتاب الجبر و المقابلہ میں انہوں نے لوگوں کی روزمرہ ضروریات اور معاملات کے حل کے لیے تصنیف کی جیسے میراث، وصیت ، تقسیم، تجارت ، خرید و فروخت، کرنسی کا تبادلہ ،کرایہ، عملی طور پر زمین کا قیاس (ناپ) ، دائرہ اور دائرہ کے قطر کا قیاس، بعض دیگر اجسام کا حساب جیسے ثلاثہ اور مخروط وغیرہ۔

وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے علم حساب اور الجبرا کو الگ الگ کیا اور الجبرا کو علمی اور منطقی انداز میں پیش کیا۔ طبیعات اور حرکیات میں ابن سینا، الکندی ، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی خدمات ابتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ابن الہیثم طبیعات کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ وہ طبیعات، ریاضی، ہندسیات، فلکیات اور علم الادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔

وہ ایجادات جنہوں نے انسانی تاریخ میں انقلاب برپا کر کے رکھ دیا

الجبرا

محمد ابن موسیٰ الخوارزمی وہ پہلے سائنسدان ہیں جنہوں نے حساب اور الجبرا میں فرق کیا اور الجبرا کو باقاعدہ ریاضی کی صنف کے طور پر روشناس کرایا۔

یورپ پہلی بار حساب کے اس نئے سسٹم سے بارہویں صدی میں روشناس ہوا جب برطانوی محقق رابرٹ آف چسٹرنے الخوارزمی کی شہرہ آفاق تصنیف ”کتاب الجبر والمقابلہ“ کا ترجمہ کیا۔ الخوارزمی کو متفقہ طور پر دنیا بھر میں الجبرا کا بانی سمجھا جاتا ہے اور لفظ الگوریتھم بھی ان کے نام سے کشید کیا گیا ہے۔

کیمرہ اور بصریات

علم بصریات پر دنیا کی سب سے پہلی اور شاہکارتصنیف کتاب المناظرابن الہیثم نے لکھی تھی۔ کروی اور سلجمی آئینوں پر تحقیق بھی ان کا شاندار کارنامہ ہے۔ انہوں نے لینز کی میگنی فائنگ پاور کی بھی تشریح کی تھی۔ انہوں نے اپنی خراد پرآتشی شیشے اور کروی آئینے بنائے۔ حدبی عدسوں پر ان کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں مائیکرو سکوپ اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد ممکن ہوئی تھی۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشیپر ایک نقطہ معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے تھے۔

ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لئے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات ایجاد کیں جیسے ریٹنا ’کیٹاریکٹ‘ کورنیا جو ابھی تک مستعمل ہیں۔ آنکھ کے بیچ میں ابھرے ہوئے حصے پتلی کو اس نے عدسہ کہا جو مسور کی دال کی شکل کا ہوتا ہے۔ لاطینی میں مسور کو لینٹل کہتے جو بعد میں لینز بن گیا۔

دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ یعنی پن ہول کیمرہ بھی ابن الییثم کی ہی قابل فخر ایجاد ہے جس سے تصویری صنعت کا آغاز ہوا۔

کافی

خالد نام کا ایک عرب ایتھوپیا کے علاقہ کافہ میں ایک روز بکریاں چرا رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جانور ایک خاص قسم کی بوٹی کھانے کے بعد چاق و چوبند ہو گئے تھے۔ چنانچہ اس نے اس درخت کی بیریوں کو پانی میں ابال کر دنیا کی پہلی کافی تیار کی۔ ایتھوپیا سے یہ کافی بین یمن پہنچے جہاں صوفی ازم سے وابستہ لوگ ساری ساری رات اللہ کا ذکر کرنے اور عبادت کرنے کے لئے اس کو پیتے تھے۔ پندرہویں صدی میں کافی مکہ معظمہ پہنچی ، وہاں سے ترکی جہاں سے یہ 1645ء میں وینس (اٹلی) پہنچی۔ 1650ء میں یہ انگلینڈ لائی گئی۔ لانے والا ایک ترک ”پاسکوا روزی“ تھا جس نے لندن سٹریٹ پرسب سے پہلی کافی شاپ کھولی۔ عربی کا لفظ قہوہ ترکی میں قہوے بن گیا جو اطالین میں کافے اور انگلش میں کافی بن گیا۔

ڈپلوما

طبیبوں کی رجسٹریشن کا کام سنان ابن ثابت نے 943ء میں بغداد میں شروع کیا تھا۔ اس نے حکم دیا کہ ملک کے تمام اطباء کی گنتی کی جائے اور پھر امتحان لیا جائے۔ کامیاب ہونے والے 800 طبیبوں کو حکومت نے رجسٹر کر لیا اور پریکٹس کے لئے سرکاری سرٹیفکیٹ جاری کیے ۔ مطب چلانے کے لئے لائسنس جاری کرنے کا نظام بھی اس نے شروع کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں ڈپلوما دینے اور رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک جاری ہے۔

گھڑی

یورپ سے سات سو قبل اسلامی دنیا میں گھڑیاں عام استعمال ہوتی تھی۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے ہم عصر فرانس کے شہنشاہ شارلیمان کو گھڑی (واٹر کلاک) تحفہ میں بھیجی تھی۔ محمد ابن علی خراسانی (لقب الساعتی 1185 ء) دیوار گھڑی بنانے کا ماہر تھا۔ اس نے دمشق کے باب جبرون میں ایک گھڑی بنائی تھی۔

اسلامی سپین کے انجنیئرالمرادی نے ایک واٹر کلاک بنائی جس میں گئیر اور بیلنسگ کے لئے پارے کو استعمال کیا گیا تھا۔ مصر کے ابن یونس نے گھڑی کی ساخت پر رسالہ لکھا جس میں ملٹی پل گئیر ٹرین کی وضاحت ڈایاگرام سے کی گئی تھی۔ جرمنی میں گھڑیاں 1525ء اور برطانیہ میں 1580ء میں بننا شروع ہوئی تھیں۔

جنگی ساز

سلطنت عثمانیہ میں مہتران یا مہترخانہ کے نام سے موسوم دفتر جنگی کے دوران جنگی ساز بجایا کرتا تھا۔ محققین کے مطابق سلطنت عثمانیہ وہ پہلی حکومت تھی جو کہ جنگوں کے دوران فوجی ساز کا مسلسل استعمال کرتی تھی تا آنکہ جنگ ختم نہیں ہو جائے۔

یورپ نے عثمانیوں سے جنگ کے دوران جب سازوں کو نفسیاتی اعتبار سے انتہائی کارآمد دیکھا تو انہوں نے بھی اسے اپنا لیا۔

ہوابازی

امریکہ کے رائٹ برادرز سے ایک ہزار سال قبل اندلس کے ایک آسٹرونامر میوزیشن اور انجنئیر عباس ابن فرناس نے سب سے پہلے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی تھی۔ ایک مورخ کے مطابق 852ء میں اس نے قرطبہ کی جامع مسجد کے مینار سے چھلانگ لگائی تاکہ وہ اپنے فضائی لباس کو ٹیسٹ کر سکے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے گلائیڈر سے پرندوں کی طرح پرواز کر سکے گا۔ 875 ء میں اس نے گلائیڈر سے ملتی جلتی ایک مشین بنائی جس کے ذریعہ اس نے قرطبہ کے ایک پہاڑ سے پرواز کی کوشش کی۔ یہ فضائی مشین اس نے ریشم اور عقاب کے پروں سے تیار کی تھی وہ لگ بھگ دس منٹ تک ہوا میں اڑتا رہا مگر اترتے وقت اس کو چوٹیں آئیں کیونکہ اس نے گلائیڈر میں اترنے کے لئے پرندوں کی طرح دم نہ بنائی تھی۔

اسپتال

دنیا کا پہلا اسپتال قاہرہ میں احمد ابن طولون کے دورحکومت میں 872ء میں قائم کیا گیا جہاں مریضوں کو مفت طبی امداد دی جاتی تھی۔ اسپتال میں مریضوں کی تیمار داری کے لیے باقاعدہ تربیت یافتہ نرسیں اورتربیت کا شعبہ بھی تھا۔ بعد ازاں اسی اسپتال کی طرز پر بغداد اور پھر دنیا بھرمیں اسپتال قائم کیے گئے۔

طب

دنیا کے سب سے عظیم حکیم اور ریاضی دان بو علی الحسین ابن عبداللہ السینا تھے جنہوں نے طب کی دنیا میں انتہائی اہم ترین دریافتیں کیں ، طب کے موضوع پر لکھی گئی ان کی کتاب القانون صدیوں تک یورپ میں پڑھائی جاتی رہی جبکہ ادویات کے لئے ان کی تصنیف ”الادویہ“ کو طب کی دنیا میں انجیل کا سا مقام حاصل ہے۔

علم طبیعات میں ابن سینا پہلا شخص ہے جس نے تجربی علم کو سب سے معتبر سمجھا۔ وہ پہلا طبیعات دان تھا جس نے کہا کہ روشنی کی رفتار لا محدود نہیں بلکہ اس کی ایک معین رفتار ہے۔ اس نے زہرہ سیارے کو بغیر کسی آلہ کے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا۔ اس نے سب سے پہلے آنکھ کی فزیالوجی ، اناٹومی اور تھیوری آف ویژن بیان کی۔ اس نے آنکھ کے اندر موجود تمام رگوں اور پٹھوں کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس نے بتلایا کہ سمندر میں پتھر کیسے بنتے ہیں ، پہاڑ کیسے بنتے ہیں، سمندر کے مردہ جانوروں کی ہڈیاں پتھر کیسے بنتی ہیں۔ آج ہمیں عالمی بحرانوں ، وباؤں، معاشی مشکلات سے نجات کے لیے نسل نو کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے آگاہ کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments