جلیانوالہ باغ کا خونی سانحہ اور آزادی کا ابلتا ہوا لاوا


13 اپریل کو جلیانوالہ باغ کے خونریز واقعہ کو 102 برس ہو جائیں گے، جو برطانوی سامراج کے برصغیر، متحدہ ہندوستان پر قبضہ اور نوآبادیاتی راج کو برقرار رکھنے کے لیے ڈھائے جانے والے جبرواستبداد، ظلم و ستم اور بربریت کے واقعات میں سے سب سے زیادہ وحشیانہ اور خونی تھا، جس میں 1500 سے زائد پرامن شہری براہ راست فائرنگ کر کے شہید کر دیے گئے۔ یہ ہماری قومی آزادی کی تحریک کا سب سے دردناک باب ہے۔

2018 کے اوائل میں برطانیہ میں مقیم ساؤتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں نے مل کر جلیانوالہ باغ سینٹینری کمیٹی کی بنیاد رکھی تاکہ برصغیر کی تحریک آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں سے متعلق اپنی نئی نسل میں آگہی پیدا کی جائے اور جلیانوالہ باغ سانحہ کے شہیدوں کو انصاف دلایا جائے۔

تنظیم نے برطانوی سرکار سے اس وحشیانہ واقع پر کھلی معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے برطانیہ بھر میں سو سالہ تقریبات منعقد کرنے کا اعلان کر دیا۔ راقم اس تنظیم کا نائب صدر منتخب ہوا اور ہم نے آگہی پیدا کرنے کے لیے پہلے برطانیہ بھر میں دستخطی مہم شروع کی، جس میں پہلے 3 ماہ میں 60 ہزار سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا اور ہم نے 49 ممبران پارلیمینٹ اور 13 ہاؤس آف لارڈز کے ممبران کی حمایت حاصل کر لی۔ اور برطانیہ بھر میں تقریبات کا آغاز کر دیا۔

ہمارے مطالبے پر فروری اور اپریل 2019 میں برطانوی ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز میں جلیانوالہ باغ کے خونی سانحہ پر باقاعدہ بحثیں ہوئیں۔ اس کے باوجود کہ اس وقت کی برطانوی وزیراعظم نے اس خونی واقعے پر افسوس کا اظہار کیا، لیکن باقاعدہ معافی نہ مانگی۔ 13 اپریل 2019 کو ہم نے لندن میں نیشنل کانفرنس منعقد کر کے تنظیم کو مقاصد کے حصول تک قائم رکھنے کا اعلان کر دیا اور اپنے اغراض و مقاصد میں کولونیل ہیسٹری کو تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کر کے باقاعدہ پڑھانے کا مطالبہ شامل کر دیا۔ کولونیل ہسٹری کے مسئلے پر برطانیہ کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم، نیشنل ایجوکیشن یونین نے بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔

نوآبادیاتی نظام کا آغاز 15 ویں صدی میں میں نئی ایجادات اور ذرائع آمدورفت کی ترقی سے ہوا۔ 19 ویں صدی کے آغاز میں دوسرے صنعتی انقلاب نے ایک نئے نوآبادیاتی دور کا آغاز کر دیا اور افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ممالک پر بڑی تیزی سے سامراجی تسلط قائم ہونے لگا۔ اس کے برعکس نو آبادیاتی نظام اور سامراجی غلبے کے خلاف آزادی کی تحریکوں نے بھی انقلابی شکل اختیار کرنا شروع کر دی، جس نے ایک طرف تو سامراجی طاقتوں کی جانب سے کمزور ممالک کو کنٹرول کرنے اور دوسری طرف آزاد ریاستوں کے قیام کے خد و خال متعین کیے ۔

انیسویں صدی میں برطانیہ میں صنعتی ترقی ہو چکی تھی۔ کپڑے کی صنعت بہت تیزی سے بڑھی تو خام مال کے لیے برصغیر ہی برطانوی سامراج کی سب سے زرخیز کالونی تھی۔ اپنی کپڑے کی صنعت کا خام مال پیدا کرنے کے لیے برطانوی سامراج نے برصغیر میں نہروں کا جال بچھایا اور ریلوے کو ملک کے دور دراز علاقوں تک پہنچا دیا، تاکہ کاٹن پیدا کر کے ریلوے نظام کے ذریعے برطانیہ تک پہنچائی جا سکے اور ان کی کپڑے کی کی صنعت کو فروغ مل سکے۔ بعض سامراجی کارندے اور ریاستی مشینری یہ پراپیگنڈہ کرنے لگی کہ برطانیہ ہندوستان کی ترقی کر رہا ہے، اس لیے اس کی حمایت کی جائے۔

جولائی 1914 میں پہلی عالمی جنگ میں برطانوی سامراج بری طرح سے مشکلات میں گھر چکا تھا۔ جنگ کی تباہ کاریوں سے ہر طرف خوف اور افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی، جبکہ جنگ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے نئے نئے ٹیکس لگائے جا رہے تھے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روز گاری نے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا۔ ملک بھر میں سامراجی حکومت کے خلاف نفرت میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔ اس سب کے باوجود جنگ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے متحدہ ہندوستان نے مفلوک الحالی کے باوجود اپنی بساط سے زیادہ حصہ ڈالا اور اپنے بچوں کے منہ سے نوالے چھین کر برطانوی سرکار کو 12 کروڑ 78 لاکھ پاؤنڈز کی خطیر رقم عطیہ کی، جو آج کے دور میں ٹریلینز آف پاؤنڈز کے برابر بنتی ہے۔

جنگ کے دوران انگریز سامراج کو سپاہی نہیں مل رہے تھے، اس لیے برطانوی سامراج نے جنگ کے بعد ہندوستان میں خود مختار حکومت کے قیام کا وعدہ کر لیا۔ اس وعدہ کی لاج رکھتے ہوئے صرف پنجاب سے 3 لاکھ 60 ہزار افراد فوج میں بھرتی ہو کر ملک سے باہر گئے، جن میں سے بیشتر جنگ میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ اسی دوران روس میں عوام نے سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیا، جس نے دنیا بھر کی محکوم اقوام اور پسے ہوئے طبقات کو سامراجی غلامی سے نجات کی نئی راہ دکھلائی۔ دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکوں میں تیزی آ گئی جس سے سامراجی ممالک بوکھلا گئے۔

نومبر 1918 میں پہلی عالمی جنگ ختم ہو گئی تو جنگ میں فتح سے برطانوی سامراج اور اس کی مقامی حکومت کو بہت تقویت ملی، اور وہ اصلاحات نافذ کرنے کے وعدوں سے مکر گئی۔ انہوں نے جسٹس سڈنی رولٹ کی سفارشات کا ڈھونگ رچایا اور اس کی روشنی میں انتہائی ظالمانہ اور غیرمہذب قوانین وضع کیے ۔ انہوں نے فروری 1919 میں مرکزی قانون ساز اسمبلی میں دو قانونی مسودات پیش کیے جن میں ایک انڈین کریمنل لا اور دوسرا ایمرجنسی پاور کا بل تھا۔ قانون ساز اسمبلی میں نامزد ارکان کی اکثریت کے باعث مارچ میں ہی دونوں مسودات مختلف مراحل سے گزر کر قانون کی شکل اختیار کر گئے۔ ان قوانین کا مقصد انفرادی آزادی اور سیاسی سرگرمیوں پر ناروا پابندیاں عائد کرنا اور آزادی کی تحریک کو کچلنا تھا۔

ان قوانین کے ذریعے انتظامیہ اور پولیس کو وسیع تر اختیارات دے دیے گئے تھے، جن کے مطابق حکومت کسی بھی شخص کو پکڑ کر بغیر مقدمہ چلائے غیر معینہ مدت کے لیے جیل میں ڈال سکتی تھی۔ ایسے اشخاص کو عدالت سے رجوع کرنے اور دادرسی کے قانونی حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس کالے قانون کے تحت پریس کی آزادی پر بھرپور وار کیا گیا تھا اور انتظامیہ بغیر وجہ بتائے اخبار کا ڈکلیریشن منسوخ کرنے کی مجاز تھی۔ اخبارات کا حکومت کی لاقانونیت کے خلاف عدالت میں قانونی چارہ جوئی کا حق بھی سلب کر لیا گیا تھا۔

ان دنوں شاہی قانون ساز کونسل میں حکومت کے نامزد ارکان کی اکثریت ہوتی تھی۔ منتخب ارکان نے بل کی بہت مخالفت کی لیکن حکومت نے نامزد ارکان کے بل بوتے پر بل منظور کروا لیا اور وائسرائے نے دستخط کر دیے۔ اس کے ساتھ ہی قانون ساز کونسل کے منتخب ارکان نے استعفے دینے شروع کر دیے جن میں محمد علی جناح اور سر سنکرن نائر قابل ذکر تھے، جبکہ نامور قومی شاعر ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور نے سر کا خطاب واپس کر دیا۔

حکومتی ہٹ دھرمی سے لوگ مشتعل ہو چکے تھے اور وہ صبر کرنے کو تیار نہ تھے۔ یوں ملک ہنگاموں کی لپیٹ میں آ گیا۔ حکومت بوکھلا گئی اور اس نے پہلے جنگ آزادی کے رہنما ڈاکٹر ستیہ پال اور چند روز بعد 4 اپریل 1919 کو ڈاکٹر سیف الدین کچلو، دینا ناتھ اور آزادی کے دیگر اہم رہنماؤں کے امرتسر سے باہر جانے، تقریر کرنے یا اخباری بیان جاری کرنے پر پابندی لگا دی۔ ان حالات میں عوام برطانوی سامراج اور ان کے کارندوں کو دشمن سمجھنے لگے اور بلا لحاظ رنگ، نسل اور مذہب کے فقیدالمثال اشتراک عمل کا مظاہرہ کرنے لگے۔

اس وقت ہندو، مسلمان اور سکھ کی تمیز ختم ہو چکی تھی اور بھائی چارے، یگانگت اور باہمی اتحاد کی نئی لہر ہر طرف نظر آ رہی تھی۔ سامراج کی پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی چال بری طرح ناکام ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو، اور ڈاکٹر ستیہ پال کی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی فراست سے رام نومی کے تہوار پر باہمی اتحاد کی دلکش صورت نظر آئی کہ اس روز ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں نے ایک پیالے میں پانی پیا، جلوس نکالا اور اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کی۔ اس طرح رام نومی کا مذہبی تہوار، جس میں سامراجی حکومت اور اس کے کارندے مذہبی منافرت پھیلانا چاہتے تھے، نہ صرف امن و سلامتی سے گزر گیا بلکہ اپنے پیچھے باہمی اتحاد کی ایک زبردست نئی تاریخ چھوڑ گیا۔

حکومت وقت کا خیال تھا کہ قیادت کو عوام سے جدا کر کے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے تحت انہوں نے صلاح و مشورہ کے بہانے ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو ڈپٹی کمشنر کے بنگلہ پر بلایا اور ان سے ڈیفینس آف انڈیا رولز کے تحت امرتسر چھوڑنے کے حکم کی تعمیل کرائی، اور انہیں ایک کار میں بٹھا کر امرتسر سے باہر بھیج دیا۔ جب دونوں رہنما شام تک واپس نہ پہنچے تو لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی اور افواہ پھیل گئی کہ قائدین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس سے زبردست اشتعال پھیل گیا اور ان کی گرفتاری کے خلاف ہنگامی جلسہ منعقد ہوا اور ایک وفد بنا کر ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کا فیصلہ ہوا۔ جلسے کے سامعین بھی وفد کے ساتھ ہی چل پڑے لیکن ولولے سے سرشار ہجوم کو گھڑ سوار فوج کے مسلحہ دستوں نے روک لیا۔ اچانک ایک فوجی نے گولی چلا دی، جس سے دو احتجاجی زخمی ہو گئے۔ اس سے ہجوم مشتعل ہو گیا اور اس نے قریب پڑے ڈھیر سے اینٹیں اٹھا کر فوجیوں پر پھینکنا شروع کر دیں۔ فوج نے فائرنگ کر دی جس سے 20 کے قریب شہری شہید اور بے شمار زخمی ہو گئے۔

اس خون ریز واقعے کی اطلاح جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور امرتسر آتش فشاں بن گیا، پرامن شہری بپھر گئے اور بپھرے ہوئے مشتعل عوام سے کوئی غیر ملکی شہری یا املاک محفوظ نہ رہی۔ دس اپریل کی اس فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی میتوں کو ٹھکانے لگانا انتظامیہ کے لیے مسئلہ بن گیا۔ حکومت نے تمام اجتماعات پر پابندی لگا دی اور جنازے کے ساتھ صرف 8 افراد کو جانے کی اجازت تھی، اور پندرہ منٹ کے وقفے سے ہی جنازے شہر سے گزر کر قبرستان شمشان بھومی جا سکتے تھے۔

اب جابرانہ احکامات کا عوام پر بالکل اثر نہ ہوتا تھا۔ عملاً شہر سے باہر انگریزوں کی حکومت تھی اور شہر کے اندر ہندو، مسلم راج تھا۔ امرتسر، جالندھر اور دہلی کے علاوہ قصور، لاہور، گوجرانوالہ، لائل پور، گجرات، شیخوپورہ، وزیرآباد اور دیگر شہروں سے، جو اب پاکستان کا حصہ ہیں، حکومت کے لیے دل شکن اطلاعات موصول ہو رہی تھیں اور سامراج سے نجات کی لہر دور دراز دیہاتوں تک پھیل چکی تھی۔

جلیانوالہ سانحہ سے ایک روز قبل، 12 اپریل کی رات سنت نگر، امرتسر میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا جس میں 13 اپریل کی شام کو جلیانوالہ باغ میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ جنرل ڈائر فوج کا کمانڈر تھا اور اس نے امرتسر کے ابتر حالات کے پیش نظر جالندھر سے مزید فوج بلا لی تھی۔ اس نے 13 اپریل کی صبح مشین گنوں اور خودکار اسلحہ سے لیس دستوں کے ساتھ شہر کا گشت کیا تاکہ لوگوں پر دہشت طاری کی جا سکے۔ عوام بے خوف و خطر باہر نکل آئے۔

13 اپریل کو بیساکھی کی پہلی تاریخ ہوتی ہے، امرتسر میں اس روز میلے کا سماں ہوتا ہے۔ اس میلے کا مرکز بھی جلیانوالہ باغ ہی ہوتا ہے اور دور دراز سے لوگ شرکت کے لیے آتے ہیں۔ 4 بجے بعد دوپہر تک جلسہ گاہ میں تل دھرنے کو جگہ نہیں بچی تھی۔ اس سانحہ میں زخمی ہونے والوں کے بقول وہاں 35 سے 40 ہزار کے قریب انسانوں کا جم غفیر تھا۔

آزادی کی بڑھتی ہوئی لہر دیکھ کر جنرل ڈائر نہتے اور پر امن شہریوں کے خون کا پیاسا بن چکا تھا اور وہ موقع کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ جونہی ایس پی نے اسے جلسہ شروع ہونے کی رپورٹ دی تو اس نے فوج کو جلیانوالہ باغ کی جانب کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ فوجی قافلے کے آگے آگے دو مسلح کاریں تھیں جن پر مشین گنیں نصب تھیں۔ قافلہ جلیانوالہ باغ پہنچا تو باغ کے اندر جانے کا واحد راستہ صرف 3 فٹ چوڑا تھا اور مشین گنوں والی کاریں اندر نہ جا سکیں۔

اس جلسہ کی صدارت آزادی کے مسلمان رہنما سیف الدین کچلو نے کرنا تھی لیکن اسے تو پہلے ہی گرفتار کر کے شہر سے باہر پہنچا دیا گیا تھا۔ اس لیے سیف الدین کچلو کی تصویر سٹیج پر رکھی گئی تھی۔ اس وقت شام کے پانچ بج چکے تھے اور جلسہ اپنی پوری آب و تاب سے جاری تھا۔ سارے رہنماؤں کی گفتگو کا مرکز رولیٹ ایکٹ اور تحریر و تقریر کی آزادی سلب ہونے کے خلاف مزاحمت تھا۔ فوج کو دیکھ کر تھوڑی ہل چل ہوئی جو جلد ختم ہو گئی۔

چند منٹ بعد جلسہ گاہ کے اوپر فوجی طیاروں نے پرواز کی تو ایک بار پھر کھلبلی مچ گئی، لیکن جلسہ کی کارروائی جاری رہی۔ مقررین کہہ رہے تھے کہ تقریر، تحریر اور اجتماع کی آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے، جس سے کسی کو محروم نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کسی ایسے قانون کو ماننے کے لیے تیار نہیں جس سے بنیادی انسانی حقوق سلب ہوتے ہوں۔ توپوں اور بندوقوں کی نمائش سے انسانی آزادی کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔

اچانک جنرل ڈائر نے گولی چلانے کا حکم دے دیا اور پرامن اور نہتے شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ جوان، بچے، بوڑھے اور عورتیں اس بربریت کا شکار ہوئیں اور چیخ و پکار آسمان کو چھو رہی تھی۔ جلیانوالہ باغ کے اندر ایک بڑا کنواں تھا اور لوگ اپنی جان بچانے کے لیے اس کنویں میں کودتے رہے اور وہ کنواں انسانوں سے بھر گیا۔ جنرل ڈائر نے دس منٹ تک فائرنگ کو جاری رکھا۔ سینکڑوں بے گناہ لوگ موقع پر ہی شہید ہو گئے اور بے شمار زخمی بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔

ان میں ہندو بھی تھے، مسلمان بھی، سکھ بھی اور عیسائی بھی، لیکن سب جیتے جاگتے انسان تھے۔ ان کا ایک ہی جرم تھا، اور وہ تھا آزادی کی خواہش، آزادی کی تمنا اور آزادی کی آرزو۔ انہوں نے آزادی کے حصول کے اعلیٰ مقصد کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنے مقدس خون سے برصغیر کی آزادی کی راہیں متعین کر دیں۔

جنرل ڈائر اپنی سفاکی اور خونخواری پر قائم رہا اور بالکل بھی ندامت محسوس نہ کی۔ برصغیر کے عوام کی نظر میں وہ ایک درندہ صفت انسان تھا ہی، مگر اس کے اقدام اس کے ہم وطنوں کے نزدیک بھی بے رحمانہ قتل عام تھا۔ جنرل ڈائر کے وحشیانہ اقدام پر برطانیہ میں بھی زبردست آواز اٹھی اور برطانوی رائے عامہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ برطانوی آبادی کا بڑا حصہ اس درندگی، بربریت اور سفاکی کو برطانوی سامراج کے دامن پر بدنما داغ تصور کرنے لگا۔ اس خونریز واقعے کے بعد برصغیر ایک دھکتا ہوا لاوا بن گیا، غلامی کی زنجیریں اس تپش کی تاب نہ لا سکیں اور صرف اٹھائیس برسوں میں پگھل کر گر پڑیں۔ برطانوی سامراج جو برصغیر کو سونے کی چڑیا کہتا تھا، اسے چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جانا پڑا۔

اس کے باوجود کہ نوآبادیاتی دور اب اس طرح سے نہیں رہا، لیکن آج کے جدید دور میں بھی جلیانوالہ جیسے سانحات سامراج کی مسلط کردہ جنگوں اور ترقی پذیر ممالک پر مسلط ان کی گماشتہ حکومتوں کی طرف سے جاری ہیں۔ 1984 میں گجرات میں قتل عام ہو، 12 مئی 2007 کو کراچی میں قتل عام، طالبان بنانا، طالبان مکانا، سب اسی کی کڑیاں ہیں اور یہ بربریت ہمارے ملکوں پر مسلط سامراجی گماشتے، حکمران اشرفیہ، روولنگ ایلیٹ اور بیوروکریسی ڈھاتی ہیں، جو ہمارے ملکوں کے عوام اور وسائل پر قابض ہیں۔ نہ کوئی سیاسی حقوق، نہ معاشی حقوق، نہ تعلیم، نہ صحت، نہ روزگار اور یہ حکمران طبقات گِدھوں کی طرح ہمارے ملکوں کے عوام اور وسائل کو نوچ رہے ہیں۔

آؤ ہم سب مل کر اپنی آزادی کی تکمیل کے لیے ایک ایسی تحریک پیدا کریں جو حقیقی سماجی تبدیلی کی بنیاد بنے، جس میں ملک کا ہر شہری حقیقی طور پر آزاد، خود مختار اور خوشحال ہو۔

جلیانوالہ باغ کے شہیدوں کو سلام
انقلاب۔ زندہ باد

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments