عورت، پردہ اور عمران خان


وزیراعظم عمران خان صاحب کے مطابق ریپ کی وجہ عورت کی بے پردگی ہے۔ یہ تو وہی بات جو کہ موٹروے سانحہ میں وکٹم کے بارے میں کہی گئی تھی کہ رات کو وہ اکیلی کیوں باہر گئی۔

ہمارے معاشرے میں کوئی بھی مسئلہ ہو جائے قصور عورت کا ہی نکلتا ہے ۔ طلاق ہو جائے تو کہا جاتا ہے گھر نہیں سنبھال پائی ، اسی میں کوئی عیب ہو گا، بیوہ ہو جائے تو شادی بیاہ کے فنکشن میں دلہن کو مہندی نہیں لگا سکتی کیونکہ منحوس جو ٹھہری، گھر میں لڑائی کا سبب بھی عورت ۔ میاں اگر ہاتھ اٹھائے تو وجہ عورت کی زبان درازی، ہراسمنٹ کا نشانہ بنے تو باہر کیوں گئی؟ ہنسی کیوں؟ کپڑے ٹھیک نہیں پہنے تھے۔

بے اولادی اور بیٹا نہ پیدا کرنے کا الزام بھی اسی کے سر جاتا ہے۔

عمران خان صاحب نے ایک ہی بات کو بنیاد بنا کر پیش کیا جب کہ ریپ کی وجوہات بہت سی ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ کے ملک میں قانون پر صحیح عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ جب ریپ کے مجرم کو سزا کا ڈر ہی نہ ہو تو وہ تو جنگلی جانور کی طرح کھلا ہی گھومے گا۔

جس ملک میں ایسے مجرموں سر عام پھانسی دینے پہ بھی اعتراض ہو تو اس قسم کے واقعات تو ہوں گے ہی۔ دوسری بات نفسیاتی مسائل کو پس پشت رکھا جاتا ہے، یہ جو بچوں کا ریپ کرتے ہیں کس قدر ذہنی پستی کا شکار ہیں جو کسی معصوم پر بھی رحم نہیں کرتے، جس پر پردہ واجب بھی نہیں ان کو بھی نہیں بخشا جاتا۔

کتنے ہی نفسیاتی مریض ہمارے آس پاس موجود ہیں مگر کوئی ان کی رپورٹ نہیں کرتا کیونکہ بدنامی تو عورت یا بچی کی ہی ہونی ہے۔ نہ ہی اس قسم کے مریض اپنے نفسیاتی مرض کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ ان کو بروقت علاج کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں نفسیاتی مسائل کے حل کو برا سمجھا جاتا ہے کہ شاید پاگل لوگ ہی ماہر نفسیات کے پاس جاتے ہیں۔ جبکہ جسمانی بیماریوں کی طرح ذہنی بیماری میں بھی ڈاکٹر کے پاس جانا از حد ضروری ہے۔

مگر یہاں تو لوگ پیروں فقیروں کی نذر ہو جاتے ہیں ، وہاں بھی عورت کو کیسے بلیک میل کیا جاتا ہے ، یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ کچھ مدارس میں قاری صاحبان سے بچیاں تو کیا بچے بھی محفوظ نہیں۔ جبکہ قرآن کی تعلیم میں سب سے پہلے شیطان کو بھگایا جاتا ہے اور بچی نے پردہ بھی کیا ہوتا ہے تو پھر اصل شیطان اس وقت کون ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔

اسکول کالج یونیوریسٹی میں بھی ہراسانی عام بات ہے۔ جہاں اسکول ٹیچر تو کبھی ٹیوشن ٹیچر بھی اس جرم میں مبتلا نکلتے ہیں تو مسئلہ تعلیم یافتہ نہ ہونا بھی نہ ہوا۔ یعنی کہ دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم دینے والے افراد جب اس میں ملوث ہیں تو پھر جاہلوں سے کیا امید رکھیں گے آپ۔

اب دیکھ لیں کچھ شیلٹر ہومز جہاں وہ بیچاری خواتین پناہ لیتی ہیں جو پہلے ہی زمانے کے مظالم کا شکار ہیں ، جن کا کوئی پرسان حال نہیں مگر وہاں بھی اگر کوئی اس جرم کی مخبری کر دے تو اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔

آپ کس طرح عورت کو الزام دے سکتے ہیں؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ یہاں ایسے واقعات بھی ہو رہے ہیں جن میں کچھ بے غیرت باپ بھائیوں سے اپنی ہی بیٹی بہن محفوظ نہیں؟ بہن بیٹی تو محرم ہوتی ہیں ناں اور محرم سے پردہ بھی واجب نہیں تو یہاں بے پردگی کا سوال کیسے اٹھے گا؟

پردہ اگر مسئلہ ہے تو کروا کر دیکھ لیں پردہ، تمام اداکاراؤں کو پردہ، بل بورڈز اشتہارات میں تمام خواتین کو پردہ، اسکول، کالج، یونیورسٹی، دفتر جانے والی تمام خواتین کو پردہ۔ کس کس کو کروائیں گے آپ پردہ اور پردے کے باوجود بھی کیا ضمانت دیتے ہیں کہ ایسے واقعات نہیں ہوں گے۔ آپ کو ان مردوں کی عقلوں سے پردہ اٹھانا ہو گا جن میں غلاظت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی عورت کو زیر کر کے اس پہ اپنی جابرانہ حکومت کے خواہاں ہیں۔

ریپ کا مطلب ہی دوسرے کو کمزور مان کر خود کو احساس برتری دلوانا ہے جبکہ اللہ نے تو عورت کے ساتھ ساتھ مرد کو بھی حکم دیا ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھے۔ تو کتنے مرد بے پردہ ہیں اس ملک میں ، اس کا بھی حساب رکھنا ہو گا آپ کو۔

جس معاشرے میں مردوں کی زبانوں اور امت کے اخباروں میں عورت کو گالیاں دی جاتی ہوں ، اس معاشرے میں عورت خود کو کیسے محفوظ تصور کرے؟ آپ کو اپنے قانونی، عدالتی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے جس میں ریپسٹ اور ہراساں کرنے والوں کی سزاؤں پر عمل درآمد ہو سکے۔ شرعی پردہ مسلمان عورت پر واجب ہے جبکہ پاکستان میں ہر مذہب کے لوگ رہتے ہیں اور حکومت پہ فرض ہے کہ تمام عوام کو تحفظ فراہم کرے ، ورنہ جھنڈے سے سفید رنگ کو ہٹا کر کہہ دیں کہ یہ ملک صرف مسلمانوں کی ریاست ہے اور یہاں پردہ واجب ہو گا۔

وہ مرد جو عورت کا استحصال واجب سمجھتے ہیں، ان کی عقلوں پر بھی پردہ پڑا رہے گا۔ پردہ واجبات میں سے ہے جیسا کہ باقی شرعی واجبات نماز، روزہ، حج، زکوٰة ہیں اور ان کا نہ ادا کرنے والا اللہ کو جواب دہ ہے نہ کہ بندوں کو جبکہ ریپ ایک جرم ہے اور مجرم خدا کے ساتھ ساتھ وکٹم کو بھی جواب دہ ہے مگر افسوس آپ نے تو وکٹم کو ہی مجرم قرار دے دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments