برہنہ تصویروں کی چوری: انٹرنیٹ کے تاریک گوشوں میں جاری خرید و فرخت


گگگ

انتباہ: اس آب بیتی میں راوی نے جنس اور جنسی حملوں کے حوالے سے ایسے الفاظ استعمال کیے جو ناگوار ہو سکتے ہیں۔

جب ماضی کی گلیمر ماڈل جیس ڈیویس نے اٹھارہ برس کی عمر میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ان کی تصویروں کو استعمال کر کے دنیا بھر میں کئی مردوں سے پیسے بٹورے جائیں گے۔

اب جیس 27 برس کی ہیں اور گذشتہ برسوں میں انھیں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ایسے پیغامات مل چکے ہیں جن میں لوگوں نے انھیں بتایا کہ وہ انٹرنیٹ پر کسی ایسے شخص سے رابطے میں رہیں ہیں جو ان کی تصویریں استعمال کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ آج سے پہلے جیس کو سمجھ نہیں آیا کہ ان کی تصویروں کو اس طرح کیوں استعمال کیا جا رہا ہے۔

اب بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم ‘وین نیوڈز آر سٹولن’ یعنی ‘جب برھنہ تصاویر چرائی جاتی ہیں’ میں انھوں نے پیچھے مڑ کر جائزہ لیا ہے کہ ان کی تصاویر کو کب اور کہاں کہاں استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ تصاویر کے اس غلط استعمال نے ان کی زندگی پر کیا اثرات چھوڑے ہیں۔

’مجھے بالکل یاد نہیں آ رہا کہ یہ سب کچھ شروع کیسے ہوا۔‘

مجھے سوشل میڈیا پر ایک پیغام ملا کہ کوئی خاتون انٹرنیٹ پر میری پرانی تصویریں استعمال کر کے یہ ظاہر کر رہی ہے جیسے وہ خاتون جیس ڈیویز ہو۔

میں نے شروع میں سوچا کہ شاید ایسا ایک آدھ مرتبہ ہوا ہو، لیکن اس چیز کو دس برس گزر چکے ہیں اور مجھے آج بھی تقریباً ہر ہفتے اس قسم کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔

پہلے پہل ان لوگوں نے میری ساری شناخت کو ہی تہس نہس کر دیا یا کسی نقلی نام کے ساتھ میری تصویریں شائع کرتے رہے۔ اور پھر انھوں نے میرے جعلی آن لائن پروفائل کی بنیاد پر کئی بھولے مردوں سے پیسے وصول کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ عام طور پر یہ لوگ کرتے یہ ہیں کہ میری کسی تصویر کی ریورس امیج سرچ کر کے معلوم کر لیتے ہیں کہ میں اصل میں کون ہوں اور یوں سوشل میڈیا پر میرے اصلی پروفائل تک پہنچ جاتے ہیں۔

یہ لوگ میرے ماضی کی کسی بھی تصویر کو استعمال کر سکتے ہیں، مثلاً میں اپنے گھر میں صوفے پر بیٹھی ہوئی ہوں، کوئی اس زمانے کی تصویر جب میں بہت چھوٹی تھی، یا باسکٹ بال کھیلتے ہوئے میری کوئی تصویر۔ حتیٰ کہ یہ لوگ میری کچھ ایسی تصاویر بھی استعمال کر چکے ہیں جن میں، میں اور میرے والد سائیکل پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

لیکن یوں بنائے جانے والے میرے جعلی پروفائلز میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ تقریباً ان تمام پروفائلز میں میری جو تصویریں استعمال کی گئی ہیں وہ ان دنوں کی ہیں جب میری عمر تیرہ سے انیس سال کے درمیان تھی، یعنی میرے نوجوانی کے دنوں کی۔

آج کل میں ایک ماڈل اور انفلوئنسر کے طور پر کام کرتی ہوں، لیکن جب میں 18 برس کی تھی تو میں نے گلیمر ماڈل بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان دنوں میں نٹس، زُو، اور ایف ایچ ایم جیسے رسالوں کے لیے ماڈلنگ کرتی تھی جو برطانوی نوجوانوں میں بہت مقبول ہوا کرتے تھے۔

میں نے کبھی کوئی ایسی تصویر نہیں بنوائی جس میں میں بالکل برہنہ ہوں۔ اور کاغذی شکل میں ان رسالوں کا کوئی شمارہ اب دستیاب بھی نہیں، لیکن تصویریں ہیں کہ غائب ہونے کا نام نہیں لیتیں۔

جیس ڈیویز

’’میرے لیے کم از کم یہ جاننا ضروری ہو گیا تھا کہ میرے ساتھ یہ بار بار کیوں ہو رہا ہے‘‘

ایسے میں آپ کیا محسوس کرتے ہیں، یہ بتانا مشکل ہے۔ ہو سکتا کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جو میری کسی دوسرے جنم کی تصویروں کو استعمال کر کے کئی مردوں کو لوٹ رہے ہوں۔ ایسی صورت حال سے نمٹنا ایسا ہی ہے جیسے آپ ہوا میں تلوار چلا رہے ہوں اور آپ کو پتہ ہی نہ ہو کہ آپ کس کے خلاف لڑ رہے ہیں، آپ کا دشمن ہے کون۔

میں نے اپنے نقلی پروفائل انٹرنیٹ سے کسی نہ کسی طرح ہٹا دیئے ہیں، لیکن پھر نئے پروفائل بنا لیے جاتے ہیں۔ میری شناخت پر مسلسل اور بار بار ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے، اور جب ایسا اتنے طویل عرصے تک ہوتا رہے تو اس کے اثرات پڑتے ہیں کہ میں خود اپنے بارے میں کیا محسوس کرتی ہوں۔

ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے مجھے معلوم ہوا کہ میرے ساتھ ایسا بار بار کیوں ہو رہا ہے اور میری تصاویر کن ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں۔ یہ جاننے میں میری کچھ مدد پرائیویٹ سراغرساں لارا لیونز نے بھی کی۔

لارا اور میں لندن میں ایک تاریک سے دفتر میں ملے جہاں انھوں نے کچھ کاغذات پرنٹ کر کے مجھے دکھایا کہ انٹرنیٹ پر میری تصویریں کہاں کہاں استعمال ہوئی ہیں۔ان تصویروں کا استعمال جعلی پروفائلز پر کیا گیا، جیسے ٹِنڈر پر ‘خیرا’ کے نام سے، انسٹاگرام پر ‘اینڈریا’ کے نام سے اور فیس بک پر ‘جیسمین’ کے نقلی نام سے۔

لیکن پھر لارا نے مجھے ایسے اکاؤنٹ دکھانا شروع کیے جن کے بارے میں مجھے معلوم ہی نہیں تھا، مثلاً فرانس کی ایک ویب سائٹ جو اپنے صارفین کو جُز وقتی ساتھی (ایسکورٹ) مہیا کرتی ہے، جنسی گفتگو کی ویب سائٹ پر اور پورن سائیٹس پر بھی میری تصویریں استعمال کی جا رہی تھیں۔

جنسی نوعیت کے پیغامات (سیکسٹِنگ) کی ایک ویب سائٹ پر بھی ایک جعلی پروفائل موجود تھا جہاں میری 19 برس کی عمر کی تصویر استعمال کی جا رہی تھی اور اس کے نیچے لکھا تھا ‘ کون ہے جو ریپ کے ایک زبردست منظر میں حصہ لینا چاہتا؟’

اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے سیکس چیٹ یا پورن میں حصہ لینا چاہتا ہے تو میں نہیں سمجھتی اس میں کوئی غلط بات ہے، لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے کبھی بھی پورن میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی کسی کو اجازت دی ہے کہ میری تصویروں کو اس قسم کے مقصد کے لیے استعمال کرے۔

یوں ان تصویروں کو اپنے سامنے پڑا دیکھنا میرے لیے خاصا اندوہناک تجربہ تھا۔ لیکن یہ مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ مجھے نہیں معلوم میں اس سے نمٹ سکوں گی یا نہیں، تاہم میرے لیے کم از کم یہ جاننا ضروری ہو گیا تھا کہ میرے ساتھ یہ بار بار کیوں ہو رہا ہے۔

لارا کہتی ہیں کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ میں نے اپنے سوشل میڈیا پر جو تصویریں لگائی ہیں ان میں ہر طرح کی تصویریں شامل ہیں جہاں میں اپنے گھر میں بیٹھی آرام کر رہی ہوں۔ لارا کے بقول اس قسم کی تصویروں کو میرے ماضی کی گلیمر ماڈلنگ والے دنوں کی تصویروں کے ساتھ ملانا آسان ہے اور یوں میرا ایک مجموعی (نقلی) پروفائل بنانا زیادہ آسان ہے۔

لارا نے کہا کہ ‘تمہاری تصویریں حقیقت کے بہت زیادہ قریب دکھائی دیتی ہیں۔ تم اور تمہارے جیسے بہت سے لوگوں کا کام ایسا ہے کہ سکیمرز کے لیے آپ لوگوں کے پروفائلز میں رد وبدل کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ وہ بڑی آسانی سے آپ کے پروفائل میں داخل ہو کر وہاں سے تصویریں اور دوسرا مواد اٹھا سکتے ہیں۔’

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری وہ تصویریں جن میں میں نے جسم کے اوپر والے حصے پر کچھ نہیں پہنا ہوا، وہ اب میرا پیچھا کر رہی ہیں۔ میں جب بھی کہیں نئے لوگوں سے ملتی ہوں تو سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ شاید ان لوگوں نے بھی میری وہ تصویریں دیکھ رکھی ہوں گی۔ اور اگر یہ مجھے گوگل پر تلاش کریں گے تو، میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔’

جب میں نے پہلی مرتبہ ٹاپ لیس تصویریں اتروانے کا فیصلہ کیا تو میں نوجوان (ٹیج ایجر) تھی۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ انٹرنیٹ کیسے کام کرتا ہے۔اب جب اپنی کوئی تصویر انٹرنیٹ پر چڑھا دیتے ہیں تو وہ ہمیشہ وہاں موجود رہتی ہے اور لگتا ہے کہ لوگ بغیر کسی روک ٹوک کے اس تصویر کو جیسے چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔

میری تصاویر ہر جگہ موجود ہیں اور یہ بار بار ہو رہا ہے

برطانیہ میں ایسے قوانین موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر تصویریں شیئر اور استعمال کرنا قانونی طور پر درست ہے یا غلط، لیکن یہ قوانین کسی صاف ستھرے مجموعے کی شکل میں دستیاب نہیں۔

مثلاً جملہ حقوق کے بارے میں قوانین موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ اگر تصویر آپ نے خود اتاری ہے اور آپ کے پاس اس کے جملہ حقوق محفوظ ہیں تو آپ (سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے) درخواست کر سکتے ہیں کہ آپ کی فلاں تصویر ہٹا دی جائے۔

لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری زیادہ تر تصویریں کسی اور نے اتاری تھیں، میں نے خود نہیں کھینچی تھی، اسی لیے ان کے جملہ حقوق میرے پاس نہیں ہیں۔

اور اگر کوئی شخص آپ کی تصاویر کی بنیاد پر لوگوں کو ورغلا رہا ہے تو اس پر دھوکہ دہی کا قانون تو لاگو ہو سکتا ہے، تاہم اس کا انحصار بھی اس خاص صورت حال پر ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ بدلے کی نیت سے بنائی جانے والی فحش تصویروں یا وڈیوز (ریونج یا انتقامی پورن) کے حوالے سے برطانیہ میں کچھ نئے قوانین بھی سامنے آئے ہیں۔

لیکن ان قوانین کے اطلاق کے لیے آپ کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اس قسم کا مواد بنانے والے کی نیت یہ تھی کہ وہ آپ سے بدلہ لے، اور کسی شخص کی نیت کا تعین کرنا بہت مشکل کام ہے۔

ان تمام مسائل کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ ایک عالمی چیز ہے اور ریونج پورن وغیرہ کے قوانین کا اطلاق صرف کسی خاص ملک میں ہی سو سکتا ہے۔ میری تصاویر تو دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں اور ایسا بار بار ہو رہا ہے۔

بربادی کا احساس

ایک چیز جو مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی وہ یہ تھی کہ آخر وہ لوگ کون ہو سکتے ہیں جو میری تصویریں یوں استعمال کر رہے ہیں۔ اور پھر میرا سامنا ایک نئی اصطلاح سے ہوا، ‘ای ہورِنگ’ یا انٹرنیٹ پر جسم فروشی۔ اس میں برہنہ تصاویر استعمال کر کے کسی شخص کا نقلی پروفائل بنا کر لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔

اس کے لیے زیادہ تر خواتین کی تصویریں استعمال کی جاتی ہیں جنہیں مختلف سکیمرز اکھٹا کر کے ایک دوسرے کے ہاتھ فروخت کرتے ہیں۔ یہ سکیمر خود کو مذکورہ خاتون کے طور پر پیش کر کے سادہ لوح لوگوں سے پیسے بٹورتے ہیں۔

اگر آپ ان ویب سائٹس کو دیکھیں جہاں ایسی تصویروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے تو آپ کو وحشت ہونے لگتی ہے۔ یہاں لوگوں کی تصویریں یوں بیچی جا رہی ہوتی ہیں جیسے انٹرنیٹ پر بچوں کے کھیل ‘پوکے مون’ کے کارڈ بِک رہے ہوتے ہیں۔ ان ویب سائٹس کے ساتھ منسلک آپ کو ایسے چیٹ رُوم بھی دکھائی دیں گے جہاں چرائی ہوئی تصویروں کا لین دین ہو رہا ہوتا ہے۔

کبھی آپ کو ان چیٹ رومز میں لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ فلاں تصویر اصل میں کس خاتون کی ہے تا کہ وہ مذکورہ خاتون کی مزید تصویریں حاصل کر سکیں۔ میں نے ایک ایسی ویب سائٹ پر اپنی ایک تصویر چڑھائی تاکہ دیکھ سکوں کہ آیا میری تصویریں ماضی میں یہاں استعمال ہو چکی ہیں یا نہیں۔

محض دو منٹ کے اندر، کسی نہ کہا کہ اُس کے پاس میری تصویروں کا ایک پورا پیک موجود ہے اور وہ مجھے یہ تمام تصویریں 15 ڈالر میں فروخت کرنے پر راضی ہو گیا۔

اس موقع پر مجھے شدید جھٹکا لگا۔ انہوں نے میری تصویر اتنی جلدی پہچان لی، اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لوگ کتنی زیادہ مرتبہ میری تصویریں استعمال کر چکے تھے۔

جیس ڈیویز

جیس کو بہت عرصے بعد معلوم ہوا کہ ان کی ماڈلنگ کی تصویروں کو کہاں کہاں استعمال کیا جا رہا ہے

جو لوگ ایسی تصویروں کی تجارت کرتے ہیں، وہ نہایت خفیہ طور پر کام کرتے ہیں۔ میں ایسے صرف ایک شخص تک پہنچ پائی جو مجھ سے کھل کے بات کرنے پر رضامند ہوا۔

اکو (فرضی نام) کی عمر بیس اور تیس سال کے درمیان ہے اور وہ نیویارک میں رہتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اسے چند بڑے لڑکوں نے جب گروپ میں بھرتی کیا تو وہ 13 برس کا تھا۔ اسے لڑکوں نے بتایا کہ وہ لوگوں کے انسٹاگرام اکاؤنٹس کو کیسے نشانہ بناتے ہیں اور وہاں سے ان کی تصویریں حاصل کرتے ہیں۔

اکو نے مجھے یہ پریشان کن بات بتائی کہ ان تصویروں کو ‘انتقامی پورن’ میں استعمال کیا جاتا ہے، تاہم اس نے کہا کہ خود اس نے ایسا کبھی نہیں کیا۔

ای ہورنگ یا انٹرنیٹ پر جسم فروشی میں آپ اصل میں لوگوں کو دھوکہ دے کر کسی معاملے میں پھنسا دیتے ہیں اور آپ کا اصل مقصد ان لوگوں سے معاشی فوائد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اکو نے بتایا کہ ’جب میں تھوڑ بڑا ہو گیا تو میں نے دیکھا کہ یہ گروہ لوگوں کی ایک ایک ذاتی شے کو دیکھ رہا ہے اور مجھے جب بھی یہ کرنا پڑتا، مجھے بہت برا لگتا تھا۔ اسی لیے ایک دن میں نے ان سے کہہ دیا کہ میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا اور یوں میں نے اس کام کو خیرباد کہہ دیا۔’

صاف ظاہر تھا کہ اکو کو پچھتاوا ہو رہا تھا کہ اس نے لوگوں سے کیسے غلط طریقے سے پیسے بٹورے، لیکن میں سوچ رہی تھی کہ کیا کبھی اس نے ان خواتین کے بارے میں بھی سوچا ہے جن کی تصویریں وہ استعمال کرتا رہا ہے۔

اس کا جواب تھا ‘یہ تصویریں ‘کیم گرلز’ کی تھیں یعنی ان خواتین کی جو خود انٹرنیٹ پر اپنے کیمرے سے تصویریں اور ویڈیوز بناتی ہیں۔’

اکو نے پوچھا ‘ہم جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر (تصویریں وغیرہ لگانے) میں کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ ایسا ہوتا ہے؟’

میں جانتی ہوں کہ بہت سے لوگ اکو کی بات سے اتفاق کریں گے۔ میں نہیں سمجھتی کہ مجھے یا کسی اور شخص کو یہ فکر ہونی چاہیے کہ ان کی تصویروں کا غلط استعمال کیا جائے گا۔ مجھے یہ بات قبول نہیں کرنی چاہیے کہ میری اجازت کے بغیر میری شناخت کو انٹرنیٹ پر خریدا یا فروخت کیا جا سکتا ہے۔

میں امید کرتی ہوں کہ انٹرنیٹ پر تصویریں شیئر کرنے میں آپ کی رضامندی کے حوالے سے تبدیلی ہونی چاہیے۔ میرے لیے تو یہ بات بڑی سادہ ہے: اگر آپ کسی ایک خاص تناظر میں تصویر بنوانے پر رضامند ہوتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کی تصویر کو کوئی بھی جہاں چاہے اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے۔’

جیس ڈیویز نے یہ گفتگو ہنا لِونگسٹون سے کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32548 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp