ترکی کی ‘استنبول کینال’: رجب طیب ایردوان کا ‘کریزی پراجیکٹ’


ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے نو برس قبل پیش کیے جانے والے آبی گزرگاہ کے ایک منصوبے پر ملک میں ان دنوں ایک مرتبہ پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ حال ہی میں اس منصوبے پر تنقید کرنے والے ترک بحریہ کے 10 ایڈمرلز کو گرفتار کر کے تحقیقات کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔

ترک صدر نے 2011 میں ‘استنبول کینال’ منصوبے کا اعلان کیا تھا جسے وہ اپنا ‘جنونی منصوبہ’ (crazy project) قرار دیتے رہے ہیں۔

صدر ایردوان نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ موسمِ گرما میں اس منصوبے کے سنگِ بنیاد کے لیے ٹینڈر طلب کر لیے جائیں گے۔

اس منصوبے کے تحت ترکی استنبول شہر کے درمیان سے 45 کلو میٹر طویل ایک مصنوعی گزرگاہ نکالے گا۔ اس حوالے سے ترکی کا مؤقف ہے کہ آبنائے باسفورس میں بحری ٹریفک کا رش ہونے کے باعث ‘استنبول کینال’ متبادل بحری راستے کے طور پر کام کرے گی۔

آبنائے باسفورس کا شمار دنیا کے مصروف ترین آبی راستوں میں ہوتا ہے جس کے باعث کئی مرتبہ بحری جہازوں کو گزرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

ترک حکومت کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ نہر سوئز میں بحری جہاز پھنس جانے کے باعث پیدا ہونے والے بحران سے اس بات کو شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ آبنائے باسفورس جیسی مصروف بحری گزر گاہ کا متبادل ہونا ضروری ہے۔

استنبول کینال منصوبے کے حق میں یہ دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ اس نہر سے گزرنے والے جہازوں سے فیس کی مد میں سالانہ ایک ارب ڈالر کی آمدن بھی متوقع ہے۔

آبنائے باسفورس کا شمار دنیا کے مصروف ترین آبی راستوں میں ہوتا ہے
آبنائے باسفورس کا شمار دنیا کے مصروف ترین آبی راستوں میں ہوتا ہے

استنبول کینال کا منصوبہ کیا ہے؟

استنبول شہر میں بنائی جانے والی مجوزہ کینال ایسی نہر ہو گی جو بحیرہ اسود اور بحیرۂ مرمرہ کو آپس میں ملا دے گی۔ یہ مصنوعی بحری راستہ آبنائے باسفورس کے متوازی بنایا جائے گا۔

آبنا یا Strait خشکی کے بڑے زمینی علاقے کو آپس میں ملانے والی وہ آبی گزر گاہ ہوتی ہے جو دو بڑے پانی کے ذخائر کو آپس میں ملاتی ہے۔ ایسی گزرگاہوں میں بعض سفر کے قابل ہوتی ہیں اور بعض اس کے لیے موزوں نہیں ہوتیں۔

سفر کے قابل آبنا سے بڑے سمندری راستے مختصر ہوجاتے ہیں یا انہیں بحری راستوں کا شارٹ کٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔

سفر اور تجارت کے لیے سمندری سفر طویل راستوں کو مختصر کرنے کے لیے ایسی آبی گزرگاہیں بنائی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک آبی گزرگاہ مصر میں واقع ‘نہرِ سوئز’ ہے جو بین الاقوامی تجارت کا ایک اہم راستہ ہے۔

استنبول کے مغرب میں بحیرۂ احمر کو مرمرہ سے ملانے والی اس مجوزہ نہر کے ڈیزائن کے مطابق اس علاقے میں مختلف جنگلاتی، زرعی علاقے اور قدیم آثار بھی آتے ہیں۔

اس گزرگاہ کے بننے سے استنبول کے دو اہم آبی ذخائر ترکوس (Terkos ) جھیل، سازلدیری ندی اور نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے مسکن کوچک چکمجے (Küçükçekmece) لگون بھی براہِ راست متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

استنبول کینال کی مخالفت کیوں؟

استنبول کینال منصوبے کے اعلان کے بعد سے ہی حزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) اور اس جماعت کے استنبول سے منتخب ہونے والے میئر سمیت ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنان منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

مخالفت کرنے والوں میں بحریہ کے سابق ایڈمرلز بھی شامل ہو گئے ہیں۔

دو اپریل کو 126 ریٹائرڈ ترک سفیروں کے بعد پانچ اپریل کو 104 سابق ایڈمرلز نے ایک کھلا خط جاری کیا تھا جس میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ‘استنبول کینال’ کے منصوبے سے ‘مونٹرے کنونشن’ کے عالمی معاہدے پر از سر نو بحث کا آغاز ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں بحیرۂ مرمرہ پر ترکی کی خود مختاری کم ہو جائے گی۔

سن 1936 میں ہونے والا ‘مونٹرے معاہدہ’ بحیرۂ اسود اور بحیرۂ روم کو ملانے والی آبنائے باسفورس اور آبنائے دانیال میں بحری آمد ورفت کی ضابطہ بندی کے لیے کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ترکی کو ان گزرگاہوں پر مکمل اختیار حاصل ہے۔

اس کے علاوہ ترکی جنگی بحری جہازوں کی آمد و رفت پر بھی قدغن لگا سکتا ہے لیکن اس پابندی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ان جہازوں کا تعلق بحیرۂ اسود کے کنارے موجود ممالک سے ہے یا نہیں۔

استنبول کینال کے منصوبے پر سوال اٹھانے والے ترک بحریہ کے ایڈمرلز کا یہ خط سیکیولر اور قوم پرست نیوز نیٹ ورک ‘وریان سین’ پر جاری کیا گیا تھا۔

خط میں لکھا ہے کہ ‘مونٹرے معاہدے’ کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ میں ترکی اپنی غیر جانب داری برقرار رکھنے میں کام یاب ہوا تھا اور جدید ترکی کی حدود کا تعین بھی اسی معاہدے کے مرہونِ منت ہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ترکی کی بقا کے اعتبار سے اس انتہائی اہم معاہدے کو ممکنہ طور پر متاثر کرنے والے کسی بھی بیان یا اقدام سے گریز کرنا چاہیے۔ ترکی میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی اسی نکتے کو اٹھا کر منصوبے پر تنقید کر رہی ہیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ باسفورس سے گزرنے والے بحری جہازوں کے مقابلے میں جب ترکی مجوزہ گزرگاہ سے گزرنے والے جہازوں سے فیس وصول کرے گا تو ممکنہ طور پر علاقائی سطح پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو سکتا ہے۔

کیا مجوزہ ‘استنبول کینال’ ماحولیات کے لیے خطرہ ہے؟

گزشتہ برس فروری میں برطانوی اخبار ‘گارڈیئن’ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق استنبول کے میئر سمیت کئی ماحولیاتی ماہرین نے ‘استنبول کینال’ منصوبے کو بحیرۂ مرمرہ میں ماحولیاتی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ مرمرہ کے مقابلے میں بحیرۂ اسود کا پانی زیادہ نمکین ہے اور اس میں زیادہ حیاتیات پائی جاتی ہیں۔ اس لیے استنبول کینال کے بننے سے بحیرۂ اسود کا بہاؤ مرمرہ کی جانب ہوگا جس سے اس کا پانی زیادہ کھارا ہوجائے گا۔

یاد رہے کہ بحیرۂ اسود کی سطح مرمرہ سے 50 سینٹی میٹر بلند ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ استنبول کینال کی تکمیل کے بعد بحیرۂ اسود کا پانی مرمرہ میں ملنے سے آبی حیات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق بحیرہ اسود سے مرمرہ میں پانی آنے کے باعث مرمرہ میں آکسیجن کی مقدار کم ہو جائے گی۔

معاملے کے سیاسی پہلو

ترکی میں فوج 1960، 1980 اور 2016 میں بغاوت کی کوشش کر چکی ہے اور وہاں سیاست میں فوج کی مداخلت ایک مستقل سیاسی معاملہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ‘استنبول کینال’ منصوبے پر ایڈمرلز کا خط سامنے آنے پر صدر ایردوان نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔

پیر کو اپنے ایک بیان میں صدر ایردوان نے بحریہ کے سابق ایڈمرز کے خط کو ‘سیاسی بغاوت’ کا اشارہ قرار دیا تھا۔

ترک صدر کا کہنا تھا کہ ایک ایسا ملک جو فوجی بغاوت کی تاریخ رکھتا ہو وہاں رات کے اندھیرے میں 104 ریٹائرڈ ایڈمرلز کا ایسا اقدام قابلِ قبول نہیں اور اسے آزادیٔ اظہار نہیں کہا جاسکتا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments