شفقت حسین: ’خدا کا شکر ہے کہ اس نے سنبل کی موت کے بعد بھی اس کا خیال رکھنے کی توفیق دی‘

سارہ عتیق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


کسی شخص کے ساتھ رفاقت کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھنا ہمارے بس میں نہیں لیکن اُن کے خوابوں کو زندہ رکھنا ہمارے بس میں ہے۔ شفقت حسین اپنی اہلیہ سنبل کا عمر بھر ساتھ تو نہ دے پائے لیکن انھوں نے ٹھان لیا کہ وہ سنبل کی ہر خواہش اور خواب کو پورا کریں گے۔

شفقت کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر پنو عاقل سے ہے اور انھوں نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم اسلام آباد سے حاصل کی ہے۔ وہ اسلام آباد کے ایک جم میں بطور ٹرینر کام کرتے ہیں۔ ان کی سنبل سے پہلی ملاقات سنہ 2017 میں اس وقت ہوئی جب شفقت کے والدین اُن کا رشتہ دیکھنے گئے۔

’مجھے سنبل سے پہلی نظر میں ہی پیار ہو گیا تھا۔ جب میں نے پہلی بار اسے دیکھا تو مجھے لگا کہ میں آج سے پہلے تک ادھورا تھا اور اب میں ہمیشہ کے لیے مکمل ہو جاؤں گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’دونوں بازو، ٹانگ کٹ گئی تو میں نے سوچا کیا وہ مجھے چھوڑ دے گی؟‘

سال بدلا، دن بھی کچھ بدلے، لیکن مٹھو کی مٹھی کے لیے محبت نہیں بدلی

عمر کوٹ کا ’شاہ جہاں‘ جس نے بیوی کی یاد میں ’نیا تاج محل‘ کھڑا کر دیا

’اگر میں ہی رونے لگا تو باپ بیٹی کے درمیان ہوئے وعدے پورے نہ ہو سکیں گے‘

شفقت حسین کا کہنا ہے کہ وہ شادی سے پہلے ایک بہت مختلف انسان تھے لیکن جب سنبل ان کی زندگی میں آئیں تو انھوں نے اپنے آپ کو اپنی شریک سفر کی پسند کے سانچے میں ڈھال لیا۔

’میں اپنی بیوی سے اتنا متاثر ہوا کہ آج میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں میں اپنی بیوی کی ان چیزوں کو دیکھ کر کر رہا ہوں۔ آج میرا دل کرتا ہے میں وہ سب کچھ کروں اور دنیا کو دکھاؤں جو سنبل کو پسند تھا۔‘

سنبل کو کپڑوں کا بہت شوق تھا اور چاہتی تھیں کہ وہ کپڑوں کا اپنا برینڈ شروع کریں اور ان کے شوہر شفقت نے ان کے شوق کو دیکھتے ہوئے ان سے وعدہ بھی کیا وہ ایک نہ ایک دن ان کی اس خواہش کو ضرور پورا کریں گے لیکن زندگی نے سنبل کو اتنی مہلت نہیں دی کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے اس خواب کو پورا کر پاتیں۔

ان کی شادی کو ابھی ایک سال اور نو مہینے ہی گزرے تھے کہ ایک دن اچانک سنبل کو دل کا دورہ پڑا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا۔

سنبل کی اچانک موت نے شفقت کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ اپنی زندگی سنبل کے بغیر دوبارہ کیسے اور کہاں سے شروع کریں۔

’میں اپنے شہر پنو عاقل گیا ہوا تھا کہ میرے دوست نے مجھے بتایا کہ قریب ہی ایک کمرے پر مشتمل مدرسہ ہے جس کے لیے چندے کی ضرورت ہے۔ جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا ایک کچے کمرے کی عمارت میں 50 سے زیادہ بچے پڑھ رہے ہیں۔ میں نے عمرے کے لیے کچھ رقم جمع کر کے رکھی ہوئی تھی، اس سے اور لوگوں سے کچھ مزید رقم جمع کر کے مدرسے کی پکی عمارت بنوائی اور اس میں بجلی، پانی اور فرنیچر سمیت ہر سہولت فراہم کی۔‘

شفقت کہتے ہیں کہ انھیں اس مدرسے کے تعمیر سے اتنا دلی سکون حاصل ہوا کہ انھوں نے ٹھان لی کہ وہ اب سنبل کے نام کی مسجد بھی تعمیر کریں گے اور کچھ عرصے بعد ہی انھوں نے اس کی تعمیر شروع کروا دی۔

’پھر مجھے خیال آیا کہ میں نے سنبل سے وعدہ کیا تھا کہ ہم کپڑوں کا برینڈ شروع کریں گے۔ لیکن میں نوکری پیشہ آدمی ہوں اور میں نے کاروبار کرنے کا نہ ہی کبھی سوچا تھا اور نہ ہی مجھے اس کے بارے میں مجھے زیادہ معلومات تھیں، لیکن سمبل کے خواب کو پورا کرنے کے لیے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں گیا اور اس کے متعلق معلومات اکھٹی کیں اور بالآخر سنبل کے نام سے منسوب کپڑوں کا ایک برینڈ بھی شروع کیا۔‘

شفقت کا کہنا ہے کہ سنبل بہت زندہ دل خاتون تھیں لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ وہ کپڑے بھی ایسے بنائیں جو سنبل کی شخصیت کے عکاس ہوں۔

’سنبل نہ صرف اپنے بلکہ میرے کپڑوں کا انتخاب بھی خوشی سے کرتی تھی۔ وہ مجھے بتاتی تھی کہ کس پتلون کے ساتھ کون سی قمیض پہنوں اور کون سے رنگ کے جوتے کس رنگ کے لباس کے ساتھ جچیں گے۔ میں نے وہی ساری باتیں اپنے پاس نوٹ کر لیں اور اب میں ان کے مطابق ہی کپڑے ڈیزائن کرتا ہوں تاکہ وہ ویسے ہی ہوں جیسے سنبل کو پسند تھے۔‘

شفقت چاہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو ان کی بیوی کو پسند تھی، وہ اسے مارکیٹ میں لائیں۔ اس لیے اب ان کا اگلا مشن ہے کہ وہ سمبل سوئٹس نام کا ایک آئس کریم پارلر کھولیں کیونکہ سمبل بہت شوق سے آئس کریم کھاتی تھیں۔

اس کی رازداری نے ہمارے رشتے کو مضبوط بنایا

شفقت کہتے ہیں کہ سنبل کے خاندان اور اُن کے خاندان ان کے طور طریقوں میں بہت فرق تھا۔

’سمبل کا تعلق اسلام آباد سے تھا جبکہ میں سندھ کے شہر پنو عاقل سے ہوں، جس کی وجہ سے ہماری زندگیاں ایک دوسرے سے بہت مختلف تھیں۔ لیکن سمبل کی ایک اچھی بات یہ تھی کہ وہ ہر بات میرے ساتھ کرتی تھی اور اس نے میری باتیں اور خامیاں کبھی کسی تیسرے بندے کو جا کر نہیں بتائیں۔ اور یہ ہی ہمارے کامیاب رشتے کا راز تھا۔‘

شفقت کا کہنا ہے کہ شادی کا شروع کا وقت بہت اہم ہوتا ہے اور اس میں دوسرے لوگوں کی مداخلت جتنی کم ہو شادی اتنی ہی اچھی چلتی ہے۔

’میری یہ بات بہت سے والدین کو شاید پسند نہ آئے لیکن میرا ماننا ہے کہ ہر لڑکی کو اپنی ذاتی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے جس میں کوئی تیسرا مداخلت نہ کرے، اس لیے میں یہی مشورہ دیتا ہوں کہ ہو سکے تو آپ شادی کے بعد الگ رہیں۔ ماں باپ کی خدمت کریں اور ان کا خیال رکھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنی بیوی کو اس کی ذاتی جگہ بھی فراہم کریں۔‘

شفقت کی کوشش ہے کہ وہ سنبل کے نام پر صدقہ جاریہ کے کاموں اور سنبل کے خوابوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی باقی کی زندگی گزاریں۔

’جب مرد ایک عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس کا خیال رکھے گا لیکن خدا کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے سنبل کی موت کے بعد بھی اُس کا خیال رکھنے کی توفیق دی اور راستہ دکھایا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp