جنسی صحت: ’میں اپنی والدہ کو نہیں بتا سکتی کہ میں سیکس کرتی ہوں‘

وائی یپ - بی بی سی نیوز، سنگاپور


سنگاپور

سنگاپور کی رہائشی نادیہ جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن (ایس ٹی آئی) کا ٹیسٹ کروانے کے لیے جب ایک مقامی کلینک پہنچیں تو انھوں نے ڈاکٹر کے دفتر سے شرمندہ ہو کر واپس آنا ہی مناسب سمجھا۔

24 سالہ طالبہ نادیہ کہتی ہیں کہ وہاں ایک معمر خاتون ڈاکٹر نے ان کی حوصلہ شکنی کی اور کچھ کتابچے ان کی طرف اس انداز میں پھینکے جیسے وہ ’کوئی احمق ہیں۔‘

’مجھے لگا کہ اس دوران میرے بارے میں غلط سوچا جا رہا ہے، جیسے یہ میری غلطی ہے کہ مجھے انفیکشن ہو گیا ہے اور یہ کہ مجھے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سیکس نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘

لیکن اب انٹرنیٹ کے اس دور میں سنگاپور کے نوجوانوں کے پاس بہتر متبادل موجود ہیں جہاں اس طرح کے مسائل سے نمٹنے میں انھیں شرمندہ نہیں کیا جاتا۔ ٹیلی ہیلتھ کی کچھ سٹارٹ اپ کمپنیاں گذشتہ سال سے وجود میں ہیں اور ان کی توجہ جنسی صحت پر ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سہاگ رات: ’جنسی تعلق اہم ہے، جلدی یا دیر اہم نہیں‘

کیا عورت کا جسم جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہوتا ہے؟

سیکس سے جڑے حفظان صحت کے آٹھ اصول جو آپ کے لیے جاننا ضروری ہیں

ان کمپنیوں کی مدد سے لوگوں کو جنسی صحت سے متعلق اشیا اور تجاویز بغیر کسی شرمندگی مہیا کی جاتی ہیں۔ نادیہ جیسے نوجوان اس طرح کی سروسز کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ سیکس سے متعلق ان لوگوں کے خیالات روایتی سوچ کے برعکس کافی مختلف ہیں۔

نادیہ نے ’فرنی ہیلتھ‘ نامی کمپنی کی سروس استعمال کی جس نے انھیں گھر بیٹھے ایس ٹی آئی ٹیسٹ فراہم کیا۔

سنگاپور

ویب سائٹ پر ڈاکٹر سے ویڈیو کال میں بات کرنے کے بعد انھیں ایک ’ویجائنل سواب کٹ‘ عام سی پیکنگ میں بھیجی گئی تاکہ وہ ٹیسٹ کے لیے اپنے نمونے دے سکیں۔ اگلے ہی دن کوریئر نے یہ نمونے ان سے حاصل کر لیے اور ایک ہفتے کے اندر اندر انھیں نتائج آن لائن بھیج دیے گئے۔

نادیہ اپنے والدین اور دو بہن بھائیوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈبے پر کچھ بھی لکھا نہیں ہوا تھا۔ کوریئر کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اندر کیا ہے۔ یہ اچھی سروس ہے۔‘

’میرا خاندان بہت روایتی ہے۔ میں سنگاپور سے ہوں اور مسلمان بھی۔ کچھ چیزوں کی آپ کو توقع ہو سکتی ہے۔ میں اپنی والدہ کو نہیں بتا سکتی کہ میں سیکس کرتی ہوں۔‘

’واحد راستہ‘

امریکہ اور یورپ کے ممالک میں گھر سے ایس ٹی آئی ٹیسٹ معمول بن چکے ہیں تاہم سنگاپور میں یہ تصور قدرے نیا ہے۔

ماہرین اور صارفین دونوں متفق ہیں کہ ایسی سروسز کے آنے میں ضرورت سے زیادہ وقت لگا ہے۔ کلینکل سیکسالوجسٹ مارتھا لی کا کہنا ہے کہ ایسے آن لائن ٹیسٹ کے لیے حامی بھرنے سے قبل کچھ چیزوں پر غور کرنا ضروری ہے۔

گھر پر بھیجی جانے والی ٹیسٹ کٹ سے غلط مثبت نتائج آ سکتے ہیں۔ خود یہ ٹیسٹ کرنے سے ان میں غلطی کے امکان بڑھ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ماحول میں ناکافی صفائی اور سواب ٹیسٹ میں کوتاہی سے نتائج اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ غلط نتائج علاج میں تاخیر اور پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔‘

تاہم سنگاپور کے کئی شہریوں کے لیے یہ واحد راستہ ہے تاکہ اپنی جنسی صحت سے متعلق تجاویز اور معلومات حاصل کر سکیں۔

سنگاپور

ان سروسز کو پسند کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کی فراہمی کافی آسان ہوتی ہے اور کلینک تک جانے کا وقت بچتا ہے۔

ان ٹیسٹوں کی وجہ سے سماجی شرمندگی نہ ہونا بھی لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

’مجھے ذلت محسوس ہوئی‘

37 سالہ وین نے ’نوح‘ نامی ایک ٹیلی ہیلتھ سروس استعمال کی تھی جو مردوں کی جنسی صحت کے حوالے سے ہے۔ انھوں نے اپنی قبل از وقت انزال (پی آئی) کی حالت کے علاج کے لیے مدد طلب کی تھی۔

’پی آئی کے لیے دوا لینا ایسا ہے جیسے سر درد کے لیے پیراسیٹامول۔ اگر آپ کو اس کی ضرورت ہے تو آپ کو پہلے چیک اپ کروانا چاہیے۔ لیکن مرد اکثر ڈاکٹر کے سامنے بھی یہ تسلیم کرنے سے کتراتے ہیں کہ انھیں ایسا کوئی مسئلہ ہے۔‘

ان کے لیے یہ اچھا تجربہ نہیں تھا جب دو سال قبل ایک جی پی نے انھیں اس صورتحال سے شرمندہ محسوس کرایا تھا۔

’نرس اور ڈاکٹر اونچی آواز میں مجھ سے لوگوں کے سامنے پوچھ رہے تھے کہ میں وہاں کس لیے آیا ہوں۔ مجھے اس میں ذلت محسوس ہوئی۔‘

اس کے مقابلے نوح سروس میں ان کی اس حالت کو راز رکھا گیا اور بطور ایک مریض انھیں محسوس ہوا کہ ان کا ’احترام‘ کیا جا رہا ہے۔ ’یہ بہتر ہے کیونکہ پوری دنیا کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ میں کس حال سے گزر رہا ہوں۔‘

’مشکل مرحلہ‘

فروری میں جاری ہونے والے والڈ والیوز سروے کے مطابق سنگاپور میں کثیر تعداد میں لوگ اب بھی سیکس سے متعلق قدامت پسند سوچ رکھتے ہیں۔ اس میں 67.3 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ بغیر شادی یا کسی تعلق کے سیکس جائز نہیں۔

وزارت تعلیم نے ویب سائٹ پر درج کیا ہوا ہے کہ سکول میں شادیوں تک جنسی تعلقات قائم نہ کرنے کو فروغ دیا جاتا ہے، سیکس ایجوکیشن سے طلبہ کو روایتی اقدار سکھائے جاتے ہیں کیونکہ ’ایک خاندان معاشرے کا بنیادی جزو ہوتا ہے۔‘

کچھ لوگوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ شادی کے بغیر جنسی صحت کی سہولیات جیسے ٹیسٹ یا دیگر پراڈکٹ ایک مقامی ڈاکٹر سے حاصل کرنے کا ’مشکل مرحلہ‘ شرمندگی کا باعث ہوسکتا ہے۔

خواتین کو خاص کر اس مسئلے سے کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوا خانوں اور ضروری اشیا کی دکانوں پر کنڈوم عام دستیاب ہوتا ہے مگر خواتین کے لیے طبی نسخے کے بغیر مانع حمل کی ادویات حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں ڈیئر ڈوک اور نوح جیسی کمپنیاں مانع حمل کی ادویات کی ماہانہ سروس فراہم کرتی ہیں اور ان کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔

ان آن لائن سروسز سے صارفین لائسنس یافتہ ڈاکٹروں سے ایک ورچوئل انداز میں مشاورت کرسکتے ہیں۔

سٹارٹ اپ کمپنیاں عام طور پرمارکیٹ میں موجود خلا کا تعین کرتی ہیں اور پھر اسے اپنی سروس کے ذریعے پُر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسی سروس کے بڑے پیمانے پر استعمال سے اس کی اہمیت کا اندازا لگایا جاسکتا ہے۔

نوح کے بانی سین لو کا کہنا ہے کہ جون میں آغاز سے کمپنی کی پیداوار کی ماہانہ شرح 50 فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ فرنی ہیلتھ کے شی لو کا کہنا ہے کہ ستمبر میں آغاز سے ان کی کمپنی کو ہفتہ وار ترقی ملی ہے۔

نوجوان افراد اپنی جنسی صحت کے بارے میں زیادہ باخبر رہنا چاہتے تھے۔ نوجوانوں میں حمل کی سپورٹ سروس بیبس کے مطابق رکاوٹوں کے باوجود لوگ خود ذمہ داری لینا چاہتے تھے۔

’وہ سیکس کے بارے میں سوال کرنا چاہتے ہیں لیکن صرف تب جب انھیں ایک محفوظ ماحول دیا جاتا ہے۔ صحت سے متعلق یہ ڈیجیٹل کمپنیاں، جو جنسی صحت کے مسائل پر غور کرتی ہیں، ایک اچھا پلیٹ فارم ثابت ہوسکتی ہیں۔‘

نادیہ کہتی ہیں کہ اس موضوع پر عام بحث نہیں ہوپاتی مگر انھیں معلوم تھا کہ وقت پر چیک اپ بہت ضروری ہے۔ یہ اس لیے بھی اہم تھا کیونکہ حال ہی میں ان کا ایک نیا تعلق قائم ہو رہا تھا۔

’یہ ذمہ داری دکھانا ضروری ہے، ہیں نا؟ لیکن میں کئی لوگوں کو جانتی ہوں جو ایسا نہیں کرتے کیونکہ اس سے پہلے تک یہ مرحلہ اتنا آسان نہیں تھا۔‘

٭ اس رپورٹ میں فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp